بھولا بھالا شریف اور غدار کون؟ – از امام بخش

بھولا بھالا شریف اور غدار کون

 

بُراہوہماری سنگدِل اسٹیبلشمنٹ کا جس نے صفات وخصائل کے اعتبار سے انتہائی بے ضرر میاں محمدنواز شریف کو اپنی  ڈھب کا بندہ سمجھنے کے بعد بہلا پھسلا کر اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیےاقتدارکے ایوانوں میں لا پھینکا۔  بھولے بھالے نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے چُنگل میں پھنسنے سے قبل اپنی زندگی بڑی شاہانہ انداز میں گذاررہے تھے۔گوالمنڈی لاہور کے خوش خوراکوں کی طرح نوجوانی میں سری اور زبان کے کئی پیالے ناشتے پر چٹ کر جاتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد لسی پی کر لمبی تان کر سو جانا ان کا معمول تھا۔ عصر کے قریب اُٹھتے تو “بھولی جُوس کارنر” سے اپنے پسندیدہ جوس سے دل بہلاتے۔ اس کے بعد باقرخانی یا سموسوں کی پلیٹیں ختم کرنے کے بعد رات کے کھانے میں ملنے والی شب دیگ کا انتظار شروع کر دیتے۔  اور ہاں کبھی کبھی اپنے معمولات سے ہٹ کر لاہور جِم خانہ میں کرکٹ بھی کھیلنے یا اپنے اُستاد رنگیلا مرحوم سے مزاحیہ اداکاری سیکھنے  کے لیے چلے جاتے۔

اِقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف نے اپنے معمولات زندگی  کو برقرار رکھا۔  وزارتِ عظمٰی کے دوران بھی کھانے کی میز پر ڈیڑھ دو گھنٹے گذارتے تھے۔  انواع واقسام کے کھانے۔ ایک کے بعد دوسرا طعام، دوسرے کے بعد تیسرا ۔ خوش خوراک اِتنے ہیں کہ دن میں چار یا پانچ بار کھاناضرورتناول فرماتے ہیں۔اور ساتھ ساتھ کھانے کے دوران لطیفوں کے سُننے اور سُنانے کے طویل دورانیے چلتے ہیں۔

لکشمی چوک میں گول گپے کی ریڑھی لگانے والے نوجوان محمد اکرم کے بقول وہ دو درجن گول گپےکھا جاتے تھے۔  صادق حلوائی کی دکان سے حلوہ پوری اور چودھری جاوید کی دکان سے سری پائے کھاتے رہے ہیں۔ وزارت عظمٰی کے دوران ناشتےکے لئے صادق کی حلوہ پوری اسلام آباد منگوائی جاتی تھی۔

شجاع بٹ رام گلیاں کے ایک ریستوران کے مالک کے مطابق وزیراعظم بن جانے کے بعد میاں نواز شریف وقت کی قلت کے باعث سو دو سو پائے اور کھد زبان مغز وغیرہ پرائم منسٹرہاؤس منگوا لیا کرتے تھے اور اگر انہیں پرانے محلے کی زیادہ ہی یاد ستا رہی ہوتی تو ہمارے دیگچے، بنچ، برتن اپنے گھر کے لان میں منگوا کر تندور لگوا لیا کرتے تھے اور پوری فیملی کھانا کھاتی تھی۔

یاد رہے کہ میاں نوازشریف کےیہ من پسند کھانے لانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر خاص طور پروزیراعظم ہاؤس اسلام آباد سے لاہور جاتا۔

چند چالاک دست لوگوں نے نوازشریف کے اس بے ضررشوق سے ناجائز فائدے بھی  اُٹھائے۔  مثال کے طور پر ایک صاحب نے نوازشریف کو اپنے گھر کا لذیذ ساگ گوشت کھلا کر انعام کے طور پر ناروے اور تھائی لینڈ کی سفارت کاری کے مزے لوٹے۔ ایک اور صاحب نواز شریف کے معدے کے راستے چیف جسٹس لاہور کی کُرسی تک جا پہنچے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات مشاہد اللہ بھی لندن میں مفت کھانوں کی مہنگی قیمت ہیں۔

جیسا کہ ہم نے قبل ازیں ذکر کیا کہ میاں نواز شریف کرکٹ کھیلنے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔  ملک جتنے بھی نازک دور سےگزر رہا ہوتا وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی شانِ بے نیازی سے اتوار کا میچ کھیلنا نہیں بھولتے تھے۔

ہماری دانست میں میاں نواز شریف اور عمران خان میں دو عادتیں مشترک ہیں ایک کرکٹ، دوسری رنگین طبیعت مگر تیسری کے بارے میں نوازشریف نے پچھلے سال”پاشا ،پاشا”  کا شور اُٹھنے کے دنوں میں خود ہی بھانڈا پھوڑا جب عطاءالحق قاسمی کےہاں  دعوت ِ شیراز  پر مجیب الرحمٰن شامی،   عارف نظامی سمیت چند صحافی مدعو تھے ۔  وہاں میاں  صاحب پوری شدومد سے عمران خان کو ایجینسوں کا کل پُرزہ  ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔  ایک دانشور نے پوچھ لیا کہ میاں صاحب  آپ یہ بات اتنے اعتماد سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔ تو میاں صاحب نے جواب دیا کہ’ ہم سے یہ کام لیا جاتا رہاہے اور رقوم بھی خود چل کر آتی ہیں۔’ مان لیا بھئی کہ سب سے اہم خصلت تو تیسری ہی ہے۔ قسمت کے دَھنی نواز شریف،عمران خان کے مقابلے میں پہلےدوغیر اہم میدانوں میں عشر عشیر نہیں تو اتنی بڑی بات نہیں کیونکہ دُھن کےپکےمیاں نوازشریف ان دونوں فنون میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق دال دلیاکرتے چلے آرہے ہیں۔

محبِ وطن پاکستانی ہونے کے ناطے مجھے اکثر معشوق فریبی کِم بارکر پر بہت غصہ آتا ہےکہ وہ بے وفاسارے فائدے اُٹھانے کے باوجوداپنی کتاب بیچنے کے چکر میں سچے اظہارِعشق کوپوری دنیا میں بے توقیر کرنے سے باز نہیں آئی۔ اِرشاد بیگم بھی بے مروت نکلی جو رات رات بھرٹیلفون پر ہمارےمترنم وزیراعظم سے گانے سُننے کے باوجود کہنے سے باز نہیں آئی کہ ‘یہ صر ف نام کے شریف ہیں’۔  ارشاد بیگم سے تو آئی۔کے۔گجرال ہی اچھے جو گانے اور کشمیری مجاہدین کےخفیہ راز سُننے  پر زندگی بھر نوازشریف سے دوستی کا دم بھرتے رہے۔  باقیوں کا ذکرچھوڑیں کیونکہ معماملہ ‘give-n-take’ کی بنیاد پر برابری کی سطح پر رہا۔

اب پھر اس نگوڑی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلے وزیرِاعظم میاں محمد نوازشریف ہوں گے۔ ہمیں میاں صاحب پر ترس آ رہا ہے۔ مگر اُمید ہے کہ اب میاں صاحب کافی سیانے ہوگئے ہیں کیونکہ وہ اکثر خود  کہتے ہیں کہ میں نے، “قدم بڑھاؤ میاں محمد نوازشریف، ہم تمھارے ساتھ ہیں”، نعروں کی گونج میں قدم تو بڑھا دیا مگرجب مڑکر دیکھا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ اور اگلے ہی لمحے ڈنڈا ڈولی بنی ہُوئی تھی۔

 مگر ہمارا مشورہ ہے کہ وزیرِاعظم  بننے کے بعدمیاں صاحب اپنے بے ضرر معمولات زندگی جاری رکھیں۔ حکومتی معاملات انھیں ہی چلانے دیں جن کی سردردی ہے۔ صرف مزے مزے کے کھانوں اور لطیفوں سے محظوظ ہوں۔ اپنے خاندانی کاروبار کو ماضی کی طرح خوب ترقی دیں۔  لگائی بُچھائی کرنے والوں کی باتوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ کسی کی ہلاشیری میں نہ آئیں ورنہ پھر باروچیوں کی  فوج ظفر موج کے ساتھ کُوچ کرنا پڑے گا اور سہیل وڑائچ سے “غدارکون” کا دوسرا والیم لکھوانا پڑے گا جسں میں ایک بار پھر ان اِقراروں کی بھرمار ہو گی کہ یہ سب کچھ ہم نے آئی ایس آئی، آرمی یا چوہدری نثاروغیرہ کے کہنے پر کیا۔

 

بشکریہ  ٹاپ سٹوری آن لائن، 7 اپریل 2013

http://www.topstoryonline.com/imam-bakhsh-blog-130407

Comments

comments

Latest Comments
  1. Good Taste
    -
  2. Rameez
    -