Takfiri Deobandis (Taliban, LeJ) are killing moderate Deobandi scholars: An article on Dr Farooq Khan
posted by Abdul Nishapuri | October 8, 2010 | In Newspaper Articles, Original Articles, Urdu ArticlesHere is a though provoking article by Amir Hussaini which suggests the following:
1. While almost all Taliban, LeJ/ASWJ etc are Takfiri Deobandis, not all Deobandis support the Taliban or agree with their violent, intolerant ideology.
2. The murder of Dr Muhammad Farooq Khan (and previously murder of other moderate Deobandi scholars e.g. Maulana Hassan Jan of Peshawar) suggests that the Taliban will kill any one who does not subscribe to their violent jihadi and sectarian agenda.
3. The Taliban have hijacked the Deobandi school of thought; they have been successful in befooling and misguiding the Deobandi youths within and outside madrassahs leading them to jihadi and sectarian violence.
However, one may not ignore the complete absence of an irrefutable and unconditional condemnation of the Taliban by any notable Deobandi organisation, e.g., Jamaat-e-Islami, JUI(F), JUI (S), Tableeghi Jamaat etc.
Thanks to Ali Arqam for suggesting this article.
I think using the term Deobandi for the whole lot of terrorists and monsters. Its purely based on ignorance of the south Asian religious traditions.
Related article:
Why are Pakistani Deobandis in a state of denial about the Taliban and Sipah-e-Sahaba? The LUBP Denial Archive
http://criticalppp.com/archives/25316
By Saleem Safi
Share
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ … …جرگہ…سلیم صافی
پچھلے ہفتے کے ناغے پر معذرت خواہ ہوں۔ اللہ شاہد ہے کہ کوشش بہت کی لیکن ذہن ساتھ دے رہا تھا نہ قلم تھا۔ بھائیوں جیسے دوست ڈاکٹر محمد فاروق خان کی جدائی نے قلب کو اداس اور فکر کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ جس معاشرے میں دوست اور دشمن، کھوٹے اور کھرے کی تمیز اٹھ جائے، وہاں کوئی کیا لکھے اور بولے تو کیا بولے؟ وقاص خان اور اسامہ خان، کے باپ ہزاروں یتیموں کا سہارا تھے، وہ یتیم کردیئے گئے۔ جنہوں نے کبھی دشمن سے بھی نفرت نہیں کی، نفرتوں کا نشانہ بن گئے۔ وہ جو ہمہ وقت مسکراہٹیں بکھیرتے تھے، ہزاروں کے چہروں سے مسکراہٹ کو غائب کرنے کا سبب بن گئے۔وہ جو لاکھوں مجنونوں کی شفا کا وسیلہ تھے ، خود جنونیت کا شکار ہوگئے۔ عبداللہ عزام کی کتاب ”جنت تلواروں کے سائے میں“ پہلی مرتبہ انہوں نے مجھے پڑھنے کو دی، لیکن آج ان کے قتل کی ذمہ داری ” عزام بریگیڈ“ نے قبول کرلی۔ شاید بن لادن کی محبت میں انہوں نے اپنے بیٹے کا نام اسامہ خان رکھا لیکن انہیں مجاہدین کا مخالف مشہور کرکے مار دیا گیا ۔ میں اسلام، پاکستان اور انسانیت سے ان کی والہانہ محبت کا گرویدہ تھا، اکثر لوگ ان کی علمیت کے اور میں ان کی انسانیت کا مداح تھا۔ بعض ان کی سیاست سے متفق تھے لیکن میں ان کی شرافت کا دیوانہ تھا۔ یہ طالب علم ہو، میجر (ر) محمد عامر ہوں، ڈاکٹر حسن الامین ہوں، ڈاکٹر عامر عبداللہ ہو یا فضل اللہ ، سب کو ان کے ہر سیاسی اور عملی فیصلے سے شدید اختلاف تھا۔ سب ہمہ وقت تنقید کرتے ، طعنے دیتے تھے بلکہ ڈانٹتے تک تھے لیکن سب سے ان کی محبت دیدنی تھی۔ان کی زندگی انتقام کے جذبے سے خالی تھی۔ حلقے کے ایک دوست ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب دو سو فی صد مسلمان ہیں لیکن کاش دس فی صد پختون بھی بن جائیں۔ رحلت سے چند روز قبل کی بات ہے ۔ میرے ٹی وی پروگرام ”جرگہ“ میں قاضی حسین احمد نے تشریف لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب انہیں علم ہوا کہ شرکاء میں ڈاکٹر فاروق خان بھی شامل ہیں(ان کے جنازے کیلئے جمع ہونیوالوں سے پہلے خطاب کا اعزاز قاضی صاحب نے حاصل کیا) تو انہوں نے آنے سے معذرت کردی لیکن جواب میں ڈاکٹر صاحب کا رویہ یہ تھا کہ جب سیلاب سے قاضی حسین احمد کے گھر کے متاثر ہونے کا علم ہوا تو یوں بے چین تھے کہ جیسے سگے باپ کا گھر ڈوب گیا ہو۔ جماعت اسلامی کے اندرونی اختلافات اور قاضی صاحب کے خلاف ایک معاملے میں جماعت کی نئی قیادت کی انکوائری کی خبر ملی تو بھری محفل میں کہنے لگے کہ قاضی حسین احمد جیسے دیانتدار شخص کے بارے میں اس طرح کا شک زیادتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں مولاناصوفی محمد جیل میں تھے۔ ذاتی تعلق، بڑھاپے اور علالت کی وجہ سے یہ طالب علم ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا۔ اس کوشش پر بیشتر لوگ مجھ پر لعن طعن کرتے رہے لیکن پاکستان کے جس ایک فرد نے میرا ساتھ دیا ، وہ ڈاکٹر محمد فاروق خان تھے ۔ سوات کے طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی والدہ اور بچوں کی رہائی کیلئے انہوں نے اتنی کوششیں کیں کہ ان پر طالبان کا حامی ہونے کا شک کیا جانے لگا۔ ان کی تدفین سے واپسی پر میری اہلیہ حیرت سے کہہ رہی تھی کہ انکی اہلیہ اور بچوں کا حوصلہ تو بحال تھا لیکن سیکڑوں کی تعداد میں غریب اور عمررسیدہ خواتین انکی لاش پر بے حال ہورہی تھیں۔ جواباً عرض کیا کہ ڈاکٹر وقاص یتیم ہوئے اور نہ انجینئر اسامہ۔ عظیم باپ کے زیر تربیت وہ کب کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوچکے ہیں، یتیم تو ان سیکڑوں بیواؤں کے بچے بن گئے، جنہیں باپ بن کر ڈاکٹر فاروق خان کھلا اور پڑھا رہے تھے۔ تبھی ڈاکٹر رضوانہ فاروق کی جگہ وہ ماتم کررہی تھیں۔
انکی رحلت کا غم اس قدر تھا کہ زندگی کی کشش ہی ختم کرکے رکھ دی۔ ۴/اگست کو کابل میں پاک افغان ڈائیلاگ میں شرکت کا ارادہ ہی ترک کر دیا لیکن انکے بھائی اور دیگر دوستوں کے اصرار پر رسم قل کے بعد کابل روانہ ہوا لیکن غم کابل میں بھی ساتھ ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔ کانفرنس کے دوران بھی انکا تذکرہ رہااور وکیل احمد متوکل اور مولوی عبدالسلام ضعیف جیسے دوستوں کیساتھ ملاقاتوں میں بھی ان کی مغفرت کیلئے ہاتھ اٹھتے رہے۔ کابل کی ایک محفل میں اے این پی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک نے جنرل (ر) اسد درانی اور آفتاب شیرپاؤ کی موجودگی میں کہا کہ ہم ڈاکٹر نجیب اللہ اور گلبدین حکمت یار کی صلح کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔اس وقت کے افغان انٹیلی جنس کے سربراہ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی کامیاب ملاقاتیں بھی ہوچکی تھیں لیکن ایران اور روس نے آخری وقت پرامن کی اس کوشش کو سبوتاژ کیا۔ حیرت انگیز طور پر افراسیاب خٹک صاحب، حکمت یار کو اچھے الفاظ سے یاد کررہے تھے جبکہ حزب اسلامی کے جس بھی بندے سے میں نے مذکورہ واقعے کا ذکر کیا تو وہ کف افسوس ملتے ہوئے کم وبیش اسی رائے کا اظہار کرتا رہا۔ کابل ہی میں محمود خان اچکزئی، افغان حکومت کے عہدیدار اور اس طالب علم نے کئی مرتبہ ملا محمد عمر کے سابق دست راست عبدالسلام ضعیف کی اقتدا میں نمازیں ادا کیں۔آخری روز باغ بابر میں دیئے گئے عشائیہ کے میزبان حامد کرزئی کے ہم قبیلہ حکمت کرزئی تھے اور ان کے دائیں بائیں ملا عبدالسلام ضعیف اور مولوی وکیل احمد متوکل بیٹھے ہوئے تھے۔ کابل میں یہ سب کچھ دیکھ کر میں سوچتا رہا کہ نہ جانے ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ یہ نظریاتی اور سیاسی اختلافات عارضی ہوا کرتے ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ نیتوں کاحال اللہ جانتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم جس کے موقف اور حکمت عملی سے اختلاف کر رہے ہوں، وہ دیانتداری کے ساتھ اجتہادی غلطی کا شکار ہوکر اپنے منتخب کردہ راستے کو اسلام، پاکستان اور افغانستان کی بھلائی کا ذریعہ سمجھ رہا ہو۔ فقہی، مسلکی، سیاسی اور نظریاتی اختلافات کی بنا پر اپنے ہم کلمہ بھائیوں کو قتل کرنے والے یہ کیوں نہ سوچتے کہ جس طرح آج حزب اسلامی کے لوگ ڈاکٹر نجیب اللہ کو یاد کررہے ہیں اور جس طرح ڈاکٹر نجیب اللہ کے دست راست افراسیاب خٹک ، آج گلبدین حکمت یار کی صلاحیتوں کا اعتراف کررہے ہیں ،ممکن ہے کہ کل اسی طرح کسی روز مولانا فضل اللہ ، ڈاکٹر محمد فاروق خان کو یاد کرتے رہیں اور اسفندیار ولی خان ، ملا محمد عمر کے خلوص کا اعتراف کرنے لگ جائیں۔ اگر آج حکمت کرزئی اور مولوی وکیل احمد متوکل ایک میز پر بیٹھ سکتے ہیں تو کل حالات حکیم اللہ محسود اور اویس احمد غنی کیونکر ہم سفر بن جانے پر مجبور نہیں ہوسکتے۔نہ جانے ہم اکابر دیوبند، سید ابولاعلیٰ مودودوی اور ڈاکٹر محمد فاروق خان کے نقش قدم پر چل کر شائستگی کے ساتھ اختلاف کا اظہار کیوں نہیں کرسکتے؟ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ دلیل کی بنیاد پر بات کرنے والوں کاجواب فتوے یا گولی سے دینے کی بجائے ، دلیل سے دیاجائے۔ یاد رکھیئے وہ جو جسموں سے بم باندھ کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں اور وہ جس نے ڈاکٹر محمد فاروق خان اور انکے معاون پر گولی چلائی، اصل قصور وار نہیں۔ وہ تو خطے میں جاری گیم کی نزاکتوں سے نابلد لوگ ہیں۔ انکے ذہنوں میں تویہ بٹھادیا گیا ہے کہ جسکو وہ ماررہے ہیں ، وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ حقیقی قاتل وہ لوگ ہیں جو سیاسی اور نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر اپنے ہم کلمہ بھائیوں کے ایمان و اخلاص کے بارے میں شکوک پھیلاکر انہیں کبھی امریکہ کا ، کبھی ہندوستان کا اور کبھی آئی ایس آئی کا ایجنٹ مشہور کرواتے ہیں ۔
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=473690
Firma ELBIT KRAKÓW ma przyjemnosc przedstawic Panstwu oferte wspólpracy w zakresie wykonywania pokryc galwanicznych.