’توہینِ مذہب کے قوانین ختم کر دینے چاہیئیں‘
جمعرات 7 مارچ 2013 ,
زادئ مذہب کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کا کہنا ہے کہ دنیا میں جن ممالک میں بھی توہین مذہب اور مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قوانین موجود ہیں انہیں ان قوانین کو ختم کردینا چاہیے۔
یہ سفارش اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں کی گئی ہے۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ایلچی ہینر بیلیفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی عقائد یا شخصیات کی توہین روکنے یا پھر کسی مذہب یا عقیدے کو رد کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے بنائے جانے والے قوانین ’خطرناک‘ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے قوانین ریاستوں کو آزادئِ اظہار پر پابندی لگانے اور اقلیتوں کے حقوق صلب کرنے کی طاقت اور موقع دیتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مذہبی اقلیتوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا رہا ہے جن میں آزادی سے اپنے مرضی کے مذہب کے چناؤ کی مخالفت بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس استحصال کے ذمہ دار ریاستی اور غیر ریاستی دونوں قسم کے عناصر رہے ہیں۔
دنیا میں چند مغربی ممالک میں توہین مذہب کے قوانین ہیں جو ابتدا میں عیسائیت پر ’حملوں‘ کی روک تھام کے لیے تشکیل دیے گئے تھے لیکن موجودہ دور میں ان کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے تاہم کچھ مغربی ممالک میں توہینِ مذہب کے قانون کو دوبارہ متعارف بھی کروایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق آئرلینڈ میں جہاں 1937 کے آئین کے تحت توہینِ مذہب پر پابندی ہے، 2010 میں ملک کی مسلم آبادی کی اپیل پر اس سلسلے میں نئی قانون سازی کی گئی ہے جس کے تحت مذہبی عقائد کو ٹھیس پہنچانے پر بھاری جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تاہم آئرش حکام نے اب اس قانون پر نظرِ ثانی کے لیے ایک خصوصی کمیشن بنایا ہے اور ممکن ہے کہ یہ قانون ختم کر دیا جائے کیونکہ اسے آزادئِ اظہار پر پابندی کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
“مذہبی عقائد یا شخصیات کی توہین روکنے یا پھر کسی مذہب یا عقیدے کو رد کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے بنائے جانے والے قوانین خطرناک ہیں۔”
ہینر بیلفیلڈ
مسلم ممالک میں موجود توہینِ مذہب کے قوانین گزشتہ چند سالوں میں خصوصاً تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ کچھ مسلمان ممالکمیں جن میں سعودی عرب اور پاکستان نمایاں ہیں، توہین مذہب کے قوانین کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کے استعمال پر سوال اٹھتے رہے ہیں اور یورپی یونین اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بارہا حکومتِ پاکستان سے اس قانون پر نظرِ ثانی کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
حقوقِ انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ قانون اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر اس کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمے بےبنیاد ہوتے ہیں۔
پاکستان میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات دو سو پچانوے اے، بی اور سی جنہیں عرفِ عام میں توہینِ مذہب یا توہینِ رسالت کے قوانین کہا جاتا ہے ربع صدی سے نافذ ہیں۔
گزشتہ برس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی گاؤں کی رمشا نامی عیسائی بچی پر مبینہ طور پر قرآنی قاعدے کے صفحات نذرِ آتش کرنے پر اسی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ معاملہ ایک عرصے تک شہ سرخیوں میں رہا تھا اور تحقیقات کے بعد عدالت نے اس لڑکی کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ اس قسم کے الزامات لگاتے ہوئے انتہائی احتیاط برتی جانی چاہیے اور کسی مسلم یا غیرمسلم کے خلاف بےبنیاد اور غلط الزامات نہیں لگائے جانے چاہیئیں۔
اس مقدمے کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر توہینِ رسالت کے قوانین میں ترمیم کی بحث چھڑ گئی تھی لیکن ملک میں اس قانون کے تحت مقدمات درج ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سلسلے میں تازہ واقعہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر کے خلاف ملتان میں درج ہونے والا مقدمہ ہے جس میں شیری رحمان کی ایک ٹی وی پروگرام میں بات چیت پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں بطور سفیر تقرر سے قبل بطور رکنِ قومی اسمبلی شیری رحمان نے ایوان میں نجی کارروائی کے دن ذاتی حیثیت میں ایک ترمیمی بل پیش کیا تھا جس میں ناموسِ رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو رکوانے کے لیے تجاویز پیش کی گئی تھیں۔
بعد میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ اس بل کا پارٹی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے کہنے پر شیری رحمان بل واپس لینے پر تیار ہوگئی تھیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/03/130307_blasphemy_un_report_zs.shtml