سپاہ صحابہ کی تاریخ اور نواز شریف کی پنجاب حکومت کا رویہ
سپاہ صحابہ کی تاریخ اور پنجاب حکومت کا رویہاسلام ٹائمز: گذشتہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ لاہور کے واقعات ان دہشت گردوں پر پوری سختی کے ساتھ ہاتھ ڈالنے کے لئے کافی نہیں ہیں، جن میں پروفیسر سید شبیہ الحسن ہاشمی، ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے کمسن صاحبزادے کو موت کی نید سلا دیا گیا، اس کے علاوہ سید شاکر حسین رضوی ایڈووکیٹ کا قتل بھی پنجاب حکومت کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ آج بھی پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد نام تبدیل کرکے اہل سنت والجماعت کے پلیٹ فارم سے اُسی سابقہ منشور و پرچم کے ساتھ اپنے تنظیمی سرگرمیاں تیزی سے چلا رہے ہیں، ہر شہر کے چوکوں پر پرچم لہرا رہے ہیں، وال چاکنگ اور بینرز آویزاں کیے گئے ہیں، کیا یہ سرگرمیاں پنجاب حکومت کو نظر نہیں آتیں؟ اور کیا آج بھی درجنوں سزائے موت کے لشکر جھنگوی کے قیدی پنجاب کی جیلوں میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ نہیں رہ رہے۔ |
تحریر: ممتاز ملک
محققین کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی میں ملوث عسکری لشکروں کے وجود میں آنے کی زیادہ تر وجہ ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ اور حکومیتں بنیں، بالخصوص جنرل ضیاء الحق دور میں قائم کیے گئے جہادی کیمپ، کلاشنکوف کلچر اور ہیروئین کلچر جیسے تحفے قوم کا مقدر ٹہرے، صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ سے ہی 6 ستمبر 1985ء میں مولانا حق نواز جھنگوی کے زیر قیادت انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ابتداء تھی پاکستان کے اندر دوسرے مسلمہ اسلامی فرقوں کو کافر کہنے اور قتل کرنے کی، اور جسے آج تک روکا نہ جاسکا، بلکہ بدقسمتی سے عقیدے کی بنیاد پر بےگناہوں کو قتل کرنے کی اس تحریک کو منظم انداز میں پروان چڑھایا جاتا رہا۔
جب 1989ء میں USSR کا شیرازہ بکھرا تو افغانستان کے اندر امریکی ڈالر اور سعودی ریال کی مدد سے پاکستانی خفیہ اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے جہادی کیمپوں کے نام نہاد مجاہدین کو بغیر کسی منطقی انجام تک پہنچائے کھلا چھوڑ دیا گیا، جس کا نتیجہ پاکستان میں دہشت گردی کی صورت میں نکلا۔ ان نام نہاد جہادی تنظیموں جن میں تحریک طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور انجمن سپاہ صحابہ کی موجودہ شکل نے جہاں حکومتی اداروں بالخصوص فوج کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا، وہیں اہل تشیع کے ہزاورں افراد عقیدے کی بنیاد پر سپرد خاک ہوگئے۔ 1991ء میں انجمن سپاہ صحابہ کے قائد ضیاالرحمن فاروقی نے اس کا نام تبدیل کرکے سپاہ صحابہ پاکستان رکھا، اور ملک بھر، بالخصوص پنجاب میں انہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا دائرہ کار خطرناک حد تک بڑھا دیا۔
یہی وہ دور تھا جب ریاض بسرا نے دھمکی آمیز خط نواز شریف کو لکھا۔ لاہور میں ہی 19 دسمبر 1990ء میں ایران کے کونصلر جنرل آقائی صادق گنجی کو مال روڈ پر قتل کر دیا گیا۔ پھر اسی طرح قتل پر مبنی پنجاب میں کئی کارروائیاں کی گئیں، اور ان مقدمات میں اشتہاری قرار دیئے گئے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں پر مشتمل افراد نے 1996ء میں SSP کا ایک عسکری ونگ بنایا، جس کا نام لشکر جھنگوی رکھا گیا، جن کا مقصد آل سعود اور حق نواز جھنگوی کی فکر کو طاقت کے بل بوتے پر پھیلانا اور اُس کا تحفظ کرنا تھا۔ اس کے ابتدائی سربراہوں میں اکرم لاہوری، محمد اجمل الیاس، ریاض بسرا، غلام رسول شاہ اور ملک اسحاق شامل تھے۔ مذکورہ افراد نے پنجاب بھر سے نوجوانوں کو باقاعدہ Training کے لئے بھرتی کیا، اور ان سب کو افغانستان کابل کے قریب ساروبی ڈیم کے پاس قاری اسداللہ اور علی پور مظفرگڑھ کے قاری عبدالحئی الیاس کے زیر نگرانی چلنے والے خالد بن ولید کیمپ میں تربیت دی جانے لگی، اور رہی سہی کسر کشمیر کے جہادی کیمپوں نے پوری کردی، جس میں حرکت المجاہدین اور 2000ء میں بنائی جانے والی مولانا مسعود اظہر کی جیش محمد نے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت فراہم کی۔
لشکر ی جھنگوی نے پنجاب کے دو زون بنائے، ایک زون کی قیادت 300 معصوم اہل تشیع کے قتل میں ملوث ریاض بسرا نے سنبھالی، اس زون میں لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور سرگودھا شامل تھے، جبکہ دوسرے زون کی ذمہ داری 102 معصوم اہل تشیع کے قتل میں ملوث ملک اسحاق کو دی گئی، اور ساتھ ہی 2000ء میں افغانستان کے کیمپ میں موجود کمانڈر قاری عبدالحئی اور اُس کے ساتھیوں نے اپنا مرکز کراچی شہر کو بنایا، جنہوں نے صرف 2 سال کے اندر شیعہ مکتب سے تعلق رکھنے والے 70 ڈاکٹرز، 34 وکلاء، جید علماء کرام، اساتذہ، طالب علم اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے سینکڑوں افراد کو بے دردی سے قتل کیا، جو کہ آج تک جاری ہے۔
تو بات ہو رہی ہے پنچاب کی جہاں 15 جنوری 1996ء کو لاہور میں پاکستان کے ہر دل عزیز شاعر محسن نقوی کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ 1996ء میں ہی مومن پورہ کے قبرستان میں قرآن خوانی کرنے والے 25 بچوں اور خواتین کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا، اس کارروائی میں لشکر جھنگوی کے اکرم لاہوری، ریاض بسرا، ہارون منصور، اور عزیز گجر ملوث تھے۔ پھر 1997ء میں ہی مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت کے قریبی عزیز SSP اشرف مارتھ کو گوجرانوالہ میں لشکرجھنگوی کے دہشت گردوں نے قتل کر دیا، کیونکہ اس نے انتہائی جواں مردی کے ساتھ لشکر کے نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس کے بعد گیارہ جنوری 1998ء کو کمشنر سرگودھا تجمل عباس کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی پنجاب کے سابق وزیراعلٰی غلام حیدر وائیں بھی ان دہشت گردوں کی کارروائی کا نشانہ بنے۔
3 جنوری 1999ء کو رائے ونڈ اور لاہور کے درمیان پل کو لشکر جھنگوی نے دھماکے سے اُڑا دیا، جس میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف بال بال بچ گئے، تاہم اس وقت کے وزیر خارجہ صدیق خان کانجو ان دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے، اس کے بعد شریف برداران نے لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا اور پنجاب بھر سے کئی دہشت گرد گرفتار کیے گئے، لیکن اُن کے مقدمات کا فیصلہ سنانے سے عدالتوں کے جج بھی کتراتے نظر آئے، آخر کار خصوصی عدالت کے ایک جج نیر اقبال غوری کو نواز شریف کی طرف سے سکیورٹی کی مکمل یقین دہانی پر اس نے لشکر جھنگوی کے افراد کے خلاف خانہ فراہنگ ایران ملتان کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس بیہمانہ واقعہ میں آقای علی رحیمی اپنے چار پاکستانی ساتھیوں سمیت قتل کر دیئے گئے اور یوں ہمسائے ملک ایران کے ان افراد کا قتل پاکستان کے چہرے پر بدنما داغ بن گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کیس کا فیصلہ سنانے والے جج نیئر اقبال غوری فوراً ہی جان کی امان پانے کیلئے امریکہ روانہ ہوگئے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس نواز عباسی نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔ تاہم کمزور استغاثہ، شہادتوں کی کمی اور گواہوں کی عدم دستیابی کا بہانہ تراش کر سپریم کورٹ نے اس کیس میں ملوث تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ گواہ ہائیکورٹ تک تو آتے رہے، تاہم مسلسل دھمکیوں نے انہیں بھی زندگی چھن جانے کے خوف میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران لشکر جھنگوی کے کئی افراد پولیس مقابلے میں مار دئیے گئے۔ جس کا ماورائے عدالت قتل کا مقدمہ سبزہ زار کالونی کے نام سے شہباز شریف پر بھی چلایا گیا۔ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں نے لاہور میں علامہ غلام حسین نجفی، ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ذوالفقار حسین نقوی ایڈوکیٹ کو اپنی سفاکانہ کارروئیوں کی بھینٹ چڑھایا۔
ملتان میں ہی پاکستان کے انٹرنیشنل پہلوان زاوار حسین ملتانی کو قتل کیا گیا۔ مظفر گڑھ چوک قریشی مسجد میں فائرنگ، کوٹ ادو مجلس عزاء میں فائرنگ، شہر سلطان مسجد میں فائرنگ، خان گڑھ مونڈکا میں رات کو گھر میں سوئے ہوئے افراد پر فائرنگ، خیرپور ٹامے والی بازار میں شیعہ افراد پر فائرنگ، بہاولپور مسجد میں دھماکہ، دوکوٹہ میلسی اور کبیروالا میں فائرنگ، ممبر قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ کے والد شاہ نواز پیرزادہ کا قتل، خانپور رحیم یار خان جلوس میں دھماکہ، 2004میں سیالکوٹ مسجد میں دھماکہ، پھالیہ میں سید اعجاز حسین کا قتل، علی پور میں سید ثقلین عباس نقوی کا قتل، چینوٹ اور جھنگ میں ہر روز قتل عام، روالپنڈی میں ہی یادگار حسین مسجد میں دھماکہ، PTV کے Director سید عون رضوی کا قتل، ایرانی پائلٹس کا قتل، چکوال امام بارہ میں دھماکہ، پنڈی میں ڈھوک سیداں امام بارگاہ میں خودکش دھماکہ، ملہووالی اٹک میں فائرنگ اور اس طرح کی درجنوں واردتوں میں ہزاروں بے گناہ شیعہ افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، لیکن حکومتیں ہر دور میں خاموش تماشائی بنی رہیں۔
لشکر جھنگوی نے ابتداء میں جنوبی پنجاب کے شہر تونسہ اور بھکر کو اپنے اسلحہ اور ایمونیشن کے ڈپو کے طور پر استعمال کیا، جہاں سے دوسرے علاقوں کو فراہمی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مرید کے، شیخوپورہ میں ایک اور کبیروالا میں دو ٹرینگ کیمپ باقاعدگی سے چلتے رہے۔ ان دہشت گردوں نے بعض کارروائیاں پنجاب پولیس کی وردیاں پہن کر بھی کیں، رہزنی اور بنک ڈکتیوں میں بھی ملوث رہے، اور کافی سارے علاقوں میں ان دہشت گردوں نے اپنے ہی مسلک کے لوگوں اور ساتھیوں کو مار کر اپنے اوپر بنائے گے قتل کے مقدمات کو کاؤنڑ کرنے کی کوشش میں بے گناہ پرامن شیعہ افراد کو ان مقدمات میں پھنسایا۔
جس طرح آج کے وزیر داخلہ ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کھل کر حقیقت پر مبنی بیانات دے رہے ہیں، 1996ء میں بھی سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر اور DG ISI جاوید اشرف قاضی نے بھی سپاہ صحابہ اور لشکری جھنگوی کے خلاف واشگاف بیانات سے ان کے کرتوتوں کو آشکار کیا اور انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں کالعدم جماعتیں اپنی عسکری کیڈر میں بھرتی کے لئے جنوبی پنجاب کے زیادہ تر علاقوں کو استعمال کر رہی ہے۔ ان علاقوں میں رحیم یار خاں کے رکن پور، دین پور شریف، ظاہر پیر، سردار گڑھ کے مدراس، بہالپور گھلواں جھنگڑا، جن پور، ٹھل حمزہ، علی پور ضلع مظفر گڑھ میں یاکی والا، تھیم والا، مڑھی کے علاقے شامل ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جامعہ حسینیہ ہیڈپنچند روڈ کے پرنسپل کا بیٹا خودکش حملے میں ہلاک ہوچکا ہے، کوٹ ادو میں تو تین دہشت گردوں کی Dead Bodies بھی آچکی ہیں، جو وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے کی زد میں آکر مارے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے مدارس میں ہر روز صج ایک گھنٹے کی کلاس میں طلباء کو کافر کافر شیعہ کافر کا ورد کرایا جاتا ہے اور ان طلباء کے اذہان کو اس غلیظ زہر سے بھرا جاتا ہے کہ شیعہ دنیا کا بدترین کافر ہے اور جن کا قتل جنت کے درجوں اور حوروں کی فراہمی کا باعث بنتا ہے، ساتھ ہی اُن کے غریب والدین کو معاشی فوائد کا جھانسہ بھی دیا جاتا ہے۔
مذکورہ تمام واقعات اور حقائق کے باوجود پنجاب حکومت کالعدم لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کیخلاف اقدام نہیں کرتی تو واضح ہو جاتا ہے کہ ن لیگ کا ان لشکروں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے، جس کی ابتک ن لیگ کی طرف سے تردید کی جا رہی ہے۔ لیکن مولانا احمد لودھیانوں کے بیان نے واضح کر دیا ہے کہ دونوں جماعتوں میں انتخابات میں ملکر الیکشن لڑنے اور سیٹ ایڈجسمنٹ کیلئے معاہدہ ہوچکا ہے۔ قوم سمجھتی ہے کہ پنچاب حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں، کیا اُس وقت حقیقت کو تسلیم کیا جائے گا جب کوئٹہ کی طرح پنجاب میں بھی سینکڑوں بےگناہ افراد کا قتل عام ہوگا۔
گذشتہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ حالیہ لاہور کے واقعات ان دہشت گردوں پر پوری سختی کے ساتھ ہاتھ ڈالنے کے لئے کافی نہیں ہیں، جن میں پروفیسر سید شبیہ الحسن ہاشمی، ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے کمسن صاحبزادے کو موت کی نید سلا دیا گیا، اس کے علاوہ سید شاکر حسین رضوی ایڈووکیٹ کا قتل بھی پنجاب حکومت کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ آج بھی پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد نام تبدیل کرکے اہل سنت والجماعت کے پلیٹ فارم سے اُسی سابقہ منشور و پرچم کے ساتھ اپنے تنظیمی سرگرمیاں تیزی سے چلا رہے ہیں، ہر شہر کے چوکوں پر پرچم لہرا رہے ہیں، ، وال چاکنگ اور بینرز آویزاں کیے گئے ہیں، کیا یہ سرگرمیاں پنجاب حکومت کو نظر نہیں آتیں؟ اور کیا آج بھی درجنوں سزائے موت کے لشکر جھنگوی کے قیدی پنجاب کی جیلوں میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ نہیں رہ رہے۔
حتی کہ اکتوبر 2009ء جی ایچ کیوپر حملہ، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، میریٹ ہوٹل اور کوئٹہ سے تفتان جانے والی زائرین کی بسوں پر کیے گئے کئی حملے اور کوئٹہ کے حالیہ واقعات جن میں اختر آباد، مستونگ اور سیراب روڈ کے ان واقعات کی ذمہ داری لشکری جھنگوی نے کھلے عام قبول کی ہے اور ان واقعات میں ملوث اکثر دہشت گردوں کا تعلق رحیم یار خان، لاہور اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے ثابت ہوچکا ہے۔ لہذا شریف برادران کو Cosmatic کارروائیوں سے قطع نظر حقیقی معنوں میں آپریشن کرنا ہوگا اور ان کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ 1997ء کے الیکشن میں ن لیگ شیعوں کے ووٹوں سے بھاری مینڈیٹ لیکر کامیاب ہوئی تھی نہ کہ ان مٹھی بھر سفاک دہشت گردوں کی حمایت سے۔
“The day we see the truth and cease to speak is the day we begain to die”
(Martin Lother King)
Source: Islam Times