Hamid Mir recycles PMLN-ASWJ’s propaganda against PPP – by Ada Khakwani

capitaltalk

There are quite a few misstatements and misrepresentations in the following article written by Hamid Mir in daily Jang (25 Feb 2013). In essence:

1. Mir equates ASWJ-LeJ terrorists with Shia Muslims, and questions PPP’s alliance with Shia political parties, comparing that with PML-N’s alliance with ASWJ-LeJ.

2. He describes Malik Ishaq as a leader of LeJ while omitting the fact that he is currently also a vice president of ASWJ.

3. Mir claims that LeJ came into being because a group in Sipah-e-Sahaba Pakistan (now ASWJ) was opposed to SSP’s alliance with PPP.

4. Mir uncritically recycles the PMLN-ASWJ propaganda about PPP’s support to and cooperation with ASWJ terrorists and leaders.

5. Mir completely wipes out Pakistan army’s dirty role in making, nurturing and protecting of Deobandi militants of ASWJ-LeJ and other Jihado-sectarian outfits.

6. Mir also wipes out or underplays PMLN’s dirty role in providing free hand to ASWJ-LeJ in the Punjab province in the last five years.

It may be noted that a group of pro-establishment fake liberals (also known as PPP Shahbaz Sharif Group) has been promoting Hamid Mir as an anti-establishment journalist. The promotion of such pro-ISI-ASWJ thugs is indeed aimed at creating fake heroes in order to repair their dented image and also help them in peddling the Deep State’s discourses.

By all means PPP must be held to account for its inaction and indirect complicity in Shia genocide in Quetta, Karachi etc, however, giving a clean chit to PMLN, army and equating ASWJ-LeJ with Shia Muslims is an insult to Waris Mir’s legacy of professional and independent journalism.

پیپلز پارٹی کی اصل طاقت؟؟؟…قلم کمان …حامد میر

ایک زمانے میں کائرہ صاحب کی پہچان ان کا سیاسی نظریہ اور سیاسی کردار ہوا کرتا تھا۔ اب ان کی پہچان یہ ہے کہ ایک دن پریس کانفرنس میں ڈاکٹر طاہر القادری کی نقلیں اتارتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں اگلے دن اسی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔ ایک دن اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں لیکن جب طالبان نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کو ضامن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں،1993ء میں پیپلز پارٹی نے فاروق لغاری کو صدر بنوانا تھا تو مولانا اعظم طارق کی محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات کروائی گئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد مولانا اعظم طارق نے کلاشنکوفوں کے ایک درجن لائسنس حاصل کئے تھے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی اور متحدہ دینی محاذ کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا جس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے فاروق لغاری، آصف زرداری اور شیرپاؤ کے دستخط تھے جبکہ دینی محاذ کی طرف سے مولانا سمیع الحق، مولانا شہید احمد اور مولانا اعظم طارق کے دستخط تھے ۔ اس معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں ناموس صحابہ بل کی حمایت کا وعدہ کیا اور پنجاب میں سپاہ صحابہ کے رکن صوبائی اسمبلی ریاض حشمت جنجوعہ کو وزیر اعلیٰ منظور وٹو کا مشیر بنایا گیا۔ جب پیپلز پارٹی نے وٹو کو نکال کر سردار عارف نکئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنوایا تو سپاہ صحابہ کے شیخ حاکم علی کو پنجاب میں وزیر بنادیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور سپاہ صحابہ کے اس سیاسی اتحاد پر سپاہ صحابہ میں بغاوت ہوگئی اور لشکر جھنگوی کا قیام عمل میں آیا

یہی وہ زمانہ تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے افغانستان میں طالبان کی حمایت شروع کردی۔ اسی زمانے میں وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اور ایف آئی ا ے کی سربراہ رحمان ملک نے مجھے اور نصرت جاوید کو طالبان کے حق میں ایک بریفنگ دی اور میری قندھار میں ملا عمر کے ساتھ ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ریاض پیرزادہ پیپلز پارٹی میں تھے۔ ان کے والد میاں شاہنواز کے قتل کے مقدمے میں مولانا اعظم طارق اور مولانا ضیاء الرحمان فاروقی کو گرفتار کرلیا گیا اور یوں سپاہ صحابہ اور پیپلز پارٹی میں فاصلے بڑھ گئے

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی ضرورت کے مطابق کبھی تحریک جعفریہ کے ساتھ ا تحاد کیا کبھی سپاہ صحابہ کے ساتھ اتحاد کیا لیکن پھر بھی خود کو ایک لبرل جماعت کہتی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں پابندی کے بعد نئے ناموں سے کام کررہی ہیں، اگر مسلم لیگ (ن) ان میں سے کسی جماعت کے قریب چلی جا ئے تو قمر زمان کائرہ صاحب شور مچادیتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے دہشتگردوں کے ساتھ اتحاد کررکھا ہے

دو روز قبل لشکر جھنگوی کے ایک رہنما ملک ا سحاق کو رحیم یار خان میں نظر بند کیا گیا کیونکہ ان پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا الزام تھا۔ ملک اسحاق اور ان کے دو بیٹوں سے جو اسلحہ برآمد ہوا اس کے لائسنس پچھلے چار سال میں وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور بلوچستان حکومت کے جاری کردہ ہیں

کائرہ صاحب یہ بھی پتہ کروائیں کہ ملک اسحاق اور ان کے کچھ ساتھیوں کو بڑی بڑی گاڑیوں کے تحفے کس نے دئیے؟یہ تحفے ایک ایسے صاحب نے دئیے جو اپنے سیکرٹ فنڈ کے ذریعہ مسلم لیگ(ن) مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ہم خیال ،تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام کے علاوہ اے این پی کے ارکان اسمبلی کو خرید خرید کر پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Behzad Bugti
    -
  2. Saleem Hazara
    -
  3. KK2
    -
  4. Leberal Pk
    -