ہاں ہم سب شیعہ اور ہزارہ ہیں
ہاں ہم سب شیعہ اور ہزارہ ہیں
لیل و نہار /عامر حسینی
کیرانی روڈ کوئٹہ پر ایک مرتبہ پھر بارود کی بارش ہوئی اور 85 انسان موت کی وادی میں جلے گئے-اور 150 سے زیادہ لوگ زرا سخت جان نکلے وہ ابھی تک موت سے لڑرہے ہیں-یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا جب کوئٹہ کے لوگ شہداء علمدار روڈ کے چہلم کی تیاریوں میں مصروف تھے-ایک قیامت ٹوٹ پڑی ہےاور جنازوں کی ایک اور صف سوگواروں کا انتظار کررہی ہے-
پھر سے ہم وہی منظر دیکھ رہے ہیں کہ اسی طرح سے لوگ دھرنے دے رھے ہیں-اور ہوسکتا ہے ایک مرتبہ پھر سے اپنے پیاروں کے جنازوں کو باہر لیکر آیا جائے اور پھر دھرنا دے کر بیٹھا جائے-اس وقت چیف منسٹر اسلم رئیسانی نشانہ بنے تھے اور مقتولین کے ورثاء کو مولوی حضرات نے یہ کہا تھا کہ وہ بلوچستان میں فوج کو کنٹرول دینے کا مطالبہ کریں-سوگواروں اور ان کے حامیوں کے دباؤ پر بلوچستان اسمبلی تحلیل ہوگئی-اور ایف سی ،پولیس کا سپروائزر کورکمانڈر کوئٹہ بن گئے-وہ پہلے ایم آئی کے نگران بھی تھے اور آئی ایس آئی پہلے بھی ان سے تعاون کرتی تھی-
جب یا سب ہورہا تھا
تو میں نے ایک نوٹ میں لکھا تھا
میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اور پھر اب عطّار کے لونڈے سے دوا لینے کا نتیجہ بھی سامنے آگیا ہے-میں نے کہا کہ یہ تو جو ذبح کرے لے ثواب الٹا”والا کام ہوگیا ہے-آپ اس کو کریڈیبل کررہے ہیں جو پہلے ہی ڈس کریڈیبل ہوچکا ہے-فوج کے ایک کور کمانڈر کو نگران بنانا اور اس کے ایک گماشتے کو مسیحا خیال کرنا ایک حماقت تھی-ہم نے اس طرح کے مطالبہ کو رد کردیا تھا-یہ اور بات ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز نہ پہلے کسی نے سنی نہ اب کوئی سنے گا-ہم نے کہا تھا کہ “سیاہ شیعت اور صفوی تشیع”کے صاحبان جبہ و دستار کو شوق سیاست لاحق ہے-وہ اس نسل کشی میں اپنے اعتبار کی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش میں ہیں-اور وہ ایک مظلوم برادری کو اسی وکٹ پر کھلانے کی کوشش کررہے ہیں جس پر لانا ان کے قاتلوں کا مشن بھی ہے-نادان دوست ایک جیتے ہوئے لشکر کو ہارا ہوا اور ذلت سے لتھڑا ہوا کیسے بنادیتے ہیں اس کا اندازہ کرنا ہو تو آج کے اشعریوں کی قیادت اور فیصلے دیکھنے کی ضرورت ہے-میں اپنی نوجوان نسل کو اپنی تشبیہ کے تاریخی پس منظر سے بھی آگاہ کرڈالوں-یہ صفین نامی ایک مقام تھا-جب لشکر ملوکیت سے لشکر انقلاب برسر پیکار تھا اور جیت قریب تھی کہ نیزوں پر قران اٹھائے لشکر ملوکیت نے اپنے خون خوار علم سفید امن کے جھنڈوں میں چھپا لیے-لشکر انقلاب کا امیر کہتا رہا کہ ان پرچموں کی ظاہری سفیدی پر مت جاؤ اور زرا ان کے پیچھے جاکر ان کے خوں خوار چہروں کو دیکھو-لیکن امیر انقلاب کی بات پر کان نہیں دھرے گئے –اور سفید پرچموں پر اعتبار کرلیا گیا-پھر ثالثوں کی بات چلی-تو امیر انقلاب سے پوچھے بغیر ایک سادہ دل انسان کو اپنا ثالث مقرر کرلیا-اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سے ایک جیتی ہوئی جنگ ہاردی گئی-اور ایک بڑی قربانی کے بدلے معمولی سی رعایت جاصل کرکے خیال کیا گیا کہ کامیابی ہوگئی-لیکن اس نادانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود امیر انقلاب بھی ایک زھر بھرے خنجر کا نشانہ بن گئے-لیکن کیا اس نادانی سے کوئی سبق آنے والوں نے سیکھا؟مجھے تو اس سوال کا جواب نفی میں نظر آتا ہے-اس قدر کامیاب جدوجہد کی گئی اور بے مثال نظم و ضبط کا مظاہرہ ہوا-لیکن اس کا حاصل کیا لیا گیا؟ایک گورنر راج اور اپنے قتل کرنے والوں کے پالنہاروں کے ہاتھ میں مزید اختیارات دے دئے گئے-ایسے اختیارات جو پہلے وہ کسی نوٹیفیکشن کے اجراء کے بنا وہ اپنے استعمال میں لارہے تھے-اور اب اس کو مقتولین کی برادری خود اپنے ہاتھ سے ان کے سپرد کررہی تھی-
میں اس وقت یہ سوال کررہاتھا کہ آخر وہ کون سا میرٹ ہے جس کی بنیاد پر آپ یہ فیصلہ کررہے ہیں کہ یہ کالی اور خاکی وردی والے اور وہ جو ہیں تو وردی والے مگر وردی پہنتے نہیں ہیں-یہ سارے ملکر کیسے اس مظلوم برداری کو بارود اور بیرنگ سے محفوظ کرسکتے ہیں؟
کیا ان کا میرٹ یہ ہے کہ یہ سرحدوں سے لیکر شہروں کے اندر اور باہر آنے والے رستوں پر بنی چیک پوسٹوں پر محض چند ہزار روپوں میں بارود اور بال بیرنگ سے بھری گاڑیوں کو محفوظ رستہ فراہم کرتے ہیں-اور پھر وہ بہت آسانی سے اپنے ھدف تک پہنچ جاتے ہیں-اور اس برادری کے معصوم لوگوں پر اچانک سے یہ سارا بارو اور بال بیرنگ بارش کی طرح برستے ہیں-اور جیتے جاگتے انسان لمحوں میں خون کے لوتھڑوں میں بدل جاتے ہیں-
کیا ان کا میرٹ یہ ہے کہ ایف سی ،ایم آئی اور آئی ایس ائی نے بلوچستان کے اندر بلوچ قوم کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے جند اللہ کے ایک گروپ،طالبان کے ایک گروہ اور لشکر جھنگوی کے پیشہ ور قاتلوں کو ویسے ہی ہائر کیا جیسے ان لوگوں نے بنگالیوں کے خلاف جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو کرائے پر حاصل کیا تھا-اس مرتبہ ان سے صرف بلوچ قوم کے قتل کا کام ہی نہیں لیا گیا بلکہ ان کو پشتون،پنجابی اور ہزارہ لوگوں کے قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا-تاکہ جدوجہد آزادی کی جنگ آپس میں خانہ جنگی میں بدل جائے اور اس قدر خون بہے کہ لوگ آزادی کو بھول جائیں اور قاتلوں سے تحفظ کا مطالبہ کرنے لگیں-
احمد لدھیانوی،اورنگ زیب فاروقی ،ملک اسحاق یہ سارے لوگ آخر کن کی حمایت سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کا ذھر پھیلاتے پھر رہے ہیں؟کون ہے جو ان کو ہیلی کاپٹرز مہیا کرتا ہے؟کون ہے جو ان کو یںضلع کے آغاز اور اس کی حد ختم ہونے تک ہر ضلع کی پولیس کو فل پروٹوکول کی ہدائت کرتا ہے؟وہ کون ہیں جو ایک سول انٹیلی جنس ایجنسی کو ان کی نگرانی سے روک دیتا ہے؟کیا کسی نے آئی بی کے سابق چیف میجر جنرل (ر)شریف خٹک کا بیان غور سے پڑھا تھا جو انہوں نے خفیہ اداروں کی سرکشی بارے سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا؟کسی کو خبر ہے کہ عسکری قیادت کی پراکسی وار بلوچستان میں کیا ہے؟اور یہاں اس پراکسی وار کے لیے بلیدان کون بنا ہے؟اور پارا چنار میں کون ہے؟سوات میں کون تھا؟کسی نے غور کیا تھا کہ “لال مسجد ڈرامہ “کس پراکسی وار کا نتیجہ تھا؟اگر ان سوالوں پر غور کیا ہوتا تو صاف صاف نظر آجاتا کہ فوج کو بلانے اور گورنر راج لگانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا-جب محافظوں کے شجرے قاتلوں سے ملنے لگیں تو ایسے محافظوں کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ طبعی موت مرا جائے-دھشت گردی کے پیچھے صرف وردی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے اس خطہ میں بڑی طاقتوں کا کھیل بھی ہے جس سب سے بڑی قیمت شیعہ برادری ادا کررہی ہے-اور اس نسل کشی کے خلاف ایک بڑے فرنٹ کی تشکیل کی ضرورت ہے-اور یہ فرنٹ گلی گلی ،محلے محلے اس وردی کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس تکفیری گروہ کو بھی بے نقاب کرے جو “تحفظ صحابہ “کے نام پر اور اہل سنت کے لیبل کے ساتھ سنی نوجوانوں کو دھوکہ دے رہا ہے-جو سنی نوجوانوں کو تکفیری بموں میں بدلنا چاہتا ہے-اور وہ پاکستان کے اندر سنی اور شیعہ آبادی کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی خواہش رکھتا ہے-وہ اپنے ایجنڈے کی خاطر عسکری اسٹیبلشمنٹ سے مل گیا ہے-بلوچوں کو سدا غلام رکھنے کے لیے اس اسٹبلشمنٹ کو تکفیری ٹولہ بہت کارآمد لگا ہے-اس لیس اس کے ناذ اٹھائے جارہے ہیں-یہ وہ سچ ہے جس کو پھیپھڑوں کی پوری طاقت لگا کر لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے-اور بے باک قلم کے ساتھ اس کو لکھنے کی ضرورت ہے-کیا اس بے باکی کے ساتھ کوئی آگے آئے گا؟کیا ہم میں اپنے قاتلوں کو پہچاننے کی صلاحیت ہے؟اور ان قاتل پتلیوں کی ڈور جن کے ہاتھ میں ہے کیا ہم ان کو شناخت کرسکتے ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات پر ہماری نجات کا انحصار ہے-
سردست ہمیں یہ کہنا ہے کہ وہ لوگ جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں-وہ جو روشن گری پر ایمان رکھنے والے ہیں-وہ جو ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل کہتے ہیں –ان کو ان انسانوں کے قتل کے خلاف زبانی جمع خرچ سے آگے آنا چاہئے اور آگے بڑھ کر قاتلوں کو للکارنا چاہئے-اور اس مظلوم برادری کی آواز کے ساتھ آواز ملاکر کہیں کہ “یاد رکھو!ہم سب شیعہ اور سب ہزارہ ہیں-تم کتنے چراغوں کی روشنی گل کروگے-نہ یہ چراغ کم ہونے والے ہیں اور نہ ان کی روشنی-
Comments
Latest Comments
es ka pehla solution yeh hai k shia army walay Army se baghawat karne ki dhamki dain….ek Shia Army walay ka mashwara tha k log lashkar banaye main ne kahan haan hum lashkar banate hain aur tum maali baan kar cantts main darakhtoon ko pani diya karo aur siachen ma chappati khaya karo.