پرل وائٹ اور ویلنٹائن ڈے
وہ ویلنٹائن ڈے ہی تو جب میں نے ماسکو کے ریڈ سکوائر سے اس کے لیے سرخ گلابوں کا ایک بوکے لیکر گورکی سٹریٹ کے فلیٹ نمبر 786 کی طرف روانہ ہوا تھا-اس دن میرے دل میں جذبات کا ایک بھانبڑ مچا ہوا تھا-اب کیسے بتاؤں کہ یہ”بھانبڑ “کیا ہوتا ہے-کاش وائٹ پرل تم بھی کوئی سرائیکی تریمت ہوتیں-ایک مرتبہ پھر معذرت اس لفظ “تریمت “پر-تم جس کو ویمن کہتی ہو بس وہی ہماری تریمت ہوتی ہے-اور یہ ہندی کی ناری ہے-اور عربی والوں کی نساء ہے-اور فارسی والوں کی خانم ہے-اور فرنچ میں یہ مادام ہوجاتی ہے-وائٹ پرل کے فلیٹ کی طرف جاتا ہوا میں خیالوں میں اس سے ہم کلام بھی تھا-اس کو سرخ گلاب دے کر اور اس پر “آئی لو یو”لکھ کر بتانا چاہتا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ماسکو کے ایک گھٹیا سے اخبار میں رات دن اپنے دماغ کا سارا عرق خرچ کرتا ہوں-اکثر وعدہ کرکے بھی سنڈے کو بھی اوور ٹائم لگانے بیٹھ جاتا ہوں-اور گذشتہ کرسمس بھی نہیں آسکا تھا اور ایک صد روبل کی لالچ مجھے ماسکو کے مضافات میں لے گئی تھی-اور مجھےیہ بھی یاد ہے کہ پچھلے ویک اینڈ پر میں تم کو بیچ میں اس وقت چھوڑ گیا تھا جب ابھی تمہاری بنائی ہوئی کافی کا ایک سپ لیا تھا کہ مجھے کامریڈ ریڈوسکی کی کال آئی کہ “فلاں چوک ” پہنچو وہاں افتاد گان خاک اپنے حقوق مانگنے اکٹھے ہوئے ہیں-میں سب کچھ چھوڑ کر چلا تو گیا تھا مگر سارے رستے اس ادھوری ملاقات پر ملال میں رہا اور جب وہاں ریاستی پولیس محنت کش مردوں اور عورتوں پل پڑی تھی اور میں نے نتاشا ڈومینکا کو خود لہو ،لہو ہونے کے باوجود وہاں پر ذخمی ہونے والے لڑکوں اور لڑکیوں کے پٹی باندھتے ہوئے دیکھا اور جب ایک لڑکی صوفیہ جو درد اور چوٹوں سے بے جال تھی لیکن نتاشا کے پوچھنے پر کانپتی اور روہانسی سی آواز میں کہنے لگی ۔۔۔۔کامریڈ!میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔تو میں رو پڑا تھا-بعد میں میں نے غور کیا تو مجھے یوں لگا کہ میں تو اصل میں تم سے ادھوری ملاقات کی کسک دل میں لیے آنسوؤں سے شدت فراق کو کم کررہا تھا-اور صرف اس وقت تم ہی منزل ہجر و فراق میں آگ میں نہیں جلتی تھیں-میں بھی جلتا تھا اور سینہ دھواں،دھواں تھا-اور دل تھا کہ کباب بن گیا تھا-تم کو یاد ہوگا کہ ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی عمارت کے سامنے صحن میں ایک بالکل سیدھا درخت تھا اور اس کو بدھا درخت کہا جاتا تھا-اگرچہ یہ لاطینی امریکہ کے جنگلوں سے لایا گیا تھا-اور میں تم کو اس درخت کے نیچے لیکر آیا تھا-اور جب میں نے اس درخت کی چھال پر تمہارا اور اپنا نام کندہ کرنا چاہا تھا تو تم ایک دم تڑپ کرمیرے قریب ہوئیں تھیں اور مجھے کہا تھا کہ یہ ہماری کیسی محبت ہے جو ایک ذندہ وجود کے جسم کی کھال کو ازیت دیکر امر ہونا چاہتی ہے-یہ سانس لیتا خاموش بدھا تم کو روکے گا نہیں مگر اس کے دل پر جو گزرے گی اس کو میں محسوس کرسکتی ہوں”
میں یہ سب سنکر کانپ گیا تھا-اور سوچنے لگا کہ میں نے تو اپنے وسیب کے درختوں کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں تھا-تم نے محبت کا ایسا سبق دیا تھا کہ میں تو بدھا کے درخت کے سامنے آنے سے پہلے اپنے جوتے بھی اتار دیتا تھا-اور تم بھی ایسا ہی کرتی تھیں-اس جگہ سردی میں چمڑے کے موزے بھی کام نہیں دیتے تھے مگر تم اور میں تو یہ سوچتے تھے کہ ہمارے اندر کوئی فیثا غورثی روح حلول کرگئی ہو جو ہمیں زیادہ سے زیادہ اذیت سہنے میں راحت دیتی تھی-ساری یونیورسٹی ہمیں کسی خفیہ شیطانی فرقہ کا پیروکار سمجھنے لگی تھی-اور تمہیں وہ ماسکو خفیہ پولیس والا یاد ہے جو بےچارہ اپنی سائیکل پر ہمارا سارا سارا دن اور رات پیچھا کرتا اور بہت خوار ہوتا-اور ایک دن ہم نے اس سے کہا تھا کہ وہ یوں خوار نہ ہوا کرے –ایک ہوٹل میں وقت گزارے-اور کبھی کبھی ہم اس کو ماسکو تھیٹر لےجاتے اور سینما بھی اور پھر اس کو دن بھر کی ایک رپورتاژ بھی بناکردیتے-ایک دن اس کے افسر نے اس کی رپورٹ پر ہماری فائل داخل دفتر کردی تھی اور یوں ہم زرا آزاد ہوئے تھے-
تم کو چیک ری پبلک کا وہ سفر یاد ہے نا جب دریائے پراگ کے کنارے میں اور تم بیٹھے تھے تو میں نے کیسے تم کو چناب ویسٹ بینک کے ریلوے اسٹیشن کے ایک طرف بنے اپنے دادا اور داری کے کوارٹر میں گزرے رات دنوں کا قصہ سنانے کی کوشش کی تھی اور میں وہاں بیٹ ،ون اور دیگر درختوں کے نام بتاتا تھا-جڑی بوٹیوں کے نام-مگر ان کے انگریزی مترادف نہیں بتاسکا تھا-اور اپنی روہی کا احوال بھی تو تمہیں “خواجہ فرید ” کی زبانی سنایا تھا-وہ سرائیکی کلام تمہاری سمجھ میں تو نہیں آیا مگر لفظوں کا اتار چڑھاؤ تم کو مسحور کیے رکھے ہوئے تھا-اور زاھدہ پروین کی گائی ہوئی کافیاں بھی تو تم کو بہت پسند آئی تھیں-ہماری محبت اس طرح سے پسند سے لگاؤ اور لگاؤ سے آ گے عشق تک ایسے ہی تو آیا تھا-میں حیران ہوتا تھا کل تم کو وائٹ پرل کیوں کہتے ہیں-پھر ایک دن ایک سفید سچا موتی میرے پاس آیا جو میں نے ایک ٹاپس کی شکل میں تمہارے کانوں میں پہنایا تھا-اور دونوں کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ تم اس سے کہیں زیادہ وائٹ اور اس سے کہیں زیادہ پرل ہو-میں پرانے ماسکو کی قدیم گلیوں سے گزرتا جارہا ہوں –یہ وہی گلیاں ہیں جو کبھی کبھی میرے لیے نہ حل ہونے والی پہیلی بن جاتی تھیں اور میں ان گلیوں میں بھٹکتا رہتا تاوقتیکہ تمہارا فون آتا اور تم کہتی کہ بدھا کے بھولے بھگت سامنے چوک پر کھڑے ہوجاؤ-اور تم ایک گلی سے نکل کر اچانک سامنے آ جاتیں-اور مجھے اپنی عقل پر رونا آتا-ایک عرصے تک یہ گورکی سٹریٹ میرے لیے مسئلہ بنی رہی-حالانکہ یہ وہ ماسکو وہ تھا جس کے بارے میں میں نے اپنے کمیونسٹ دادا اور کمیونسٹ کم اور انقلابی شیعہ دادی سے بہت سے قصے سنے تھے-اور مدینہ ،نجف اشرف ،کربلا کے بعد یہ شہر سب سے زیادہ مجھے اپنا اپنا لگتا تھا-تم کو یاد ہوگا کہ میں نے تم سے پہلی ملاقات میں تم کو کس دعوے کے ساتھ کہا تھا کہ یہ شہر میراسایہ ہے-اور پہلی مرتبہ جب میں بھول گیا تو تم نے کہا تھا عامی!تم تو اپنے سایہ کو نہیں ڈھونڈ پاتے مجھ تک کیسے پہنچوگے؟تو میں نے کہا تھا کہ جب روشنی نہیں ہوتی تو کوئی بھی سایہ ڈھونڈ نہیں سکتا-تم روشنی بن جانا تو میرا سایہ میرے سے بھی زیادہ بڑا نظر آؤں گا-اف،،،،،،،،،،،،،،،وہ تمہاری ہنسی اور تمہارے چہرے پر بکھرتے شفق کے سارے رنگ۔۔۔۔میں تو ہوش کھو بیٹھا تھا-بے اختیار تم کو ڈھولن سجن کہہ بیٹھا تھا-تم بعد میں کئی بار پوچھتی رہی کہ یہ ڈھولن سجن کیا ہوتا ہے-اب میں تم کو کیا بتاتا کہ یہ کیا ہوتا ہے-آج ویلنٹائن ڈے پر سارا ماسکو بدلا بدلا لگتا ہے-کیا نوجوان،کیا بوڑھے سب ہی کے ہاتھوں میں سرخ پھولوں کے بوکے ہیں اور اپنے اپنے مقصود کو پیش کرنے سب اپنی اپنی وائٹ پرل کے گھر کی طرف رواں دواں تھے-اور لو میں اپنی منزل کے قریب ہوگیا-اور گورکی سٹریٹ میں داخل ہونے لگا ہوں-اسی سٹریٹ میں روسی ادیب میکسم گورگی کی رہائش گاہ ہے-اور ستم دیکھیے کہ “ماں” جیسے لازوال ناول کا خالق تمہارے علم کا حصہ نہ بن سکا-اور جب میں نے تم کو بتایا تھا کہ اس ناول کے ھیرو کو برصغیر کے اکثر نوجوانوں نے اپنے اندر تخلیق کرنے کی کوشش کی اور ہزاروں لڑکیوں نے ماں کی نتاشا بننے کی کوشش کی –اور لینن کی محبوبہ کروپسکایا بننے کی کوشش تو ہر دوسری عورت کرتی نظر آئی-اور تم یہ سب سنکر میری ذھنی صحت پر شک کرنے لگی تھی-میں ہی تو زبردستی اس میوزیم میں لیکر گیا تھا جہاں لینن کا حنوط شدہ جسم موجود تھا اور روس کا آرتھوڈوکس چرچ اس کو دفن کرنا چاہتا تھا-بقول اس کے اس سے روس پر چھائے نحوست کے بادل چھٹ سکتے تھے-مگر میں اس وقت حیران رہ گیا جب تم نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔اصل نحوست تو یہ پادری ہیں جو روس میں روٹی نایاب کرنے والوں کو نجات کی اسناد بانٹتے ہیں-مجھے لگا تھا کہ لینن وہیں کہیں موجود ہے اور اس کی روح تم پر اس کی روح نے اپنا سایا کرلیا ہے-اور تم نے بہت معصومیت سے کہا تھا”لینن ایک نیک روح تھا جو بھوک و افلاس کا دشمن تھا-روٹی کالی تھی مگر سب کو ملتی تھی-آج سٹور بھرے ہیں سفید روٹی سے مگر کسی کو ملتی نہیں ہے”میں نے اس منزل میں قدم رکھا جس میں تم رہائش پذیر ہو-میں نے بیل دی-تم نے باہر آکر جھانکا-اور میں نے “ہیپی ویلنٹائن ڈے “کہہ کر تم سے گلے ملا تھا ہی کہ ایک دھماکہ ہوا اور میرے دماغ پر تاریکیوں نے ڈیرے پر ڈال دئے-
اوہ مبارک ہو تمہیں ہوش آگیا-اچانک جیسے دھند چھٹ گئی ہو-اور میں خود کو ایک ہسپتال میں پایا-سامنے ایک ڈاکٹر کھڑا تھا-اور میں سفید پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا-ساتھ ہی ایک اور بیڈ پر میری طرح پٹیوں میں لپٹی وائٹ پرل پڑی تھی-مجھے ٹی وی پر چلنے والی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ القاعدہ کے چند مجاہدوں نے اپنے جسم سے بارود باندھ کر “ویلنٹائن ڈے” منانے والے جوڑوں کے درمیان میں آکر خود کو اڑادیا-ہم سب سے اوپر والی منزل میں ہونے کی وجہ سے موت کی گھاٹی میں جانے سے بچ گئے-وائٹ پرل کو نیند کی دوا دی گئی ہے-اور میں اس کے اٹھنے سے پہلے سرخ گلابوں کا ایک اور بوکے منگوا کر اس کے سرہانے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہ جب سوکر اٹھے تو میری محبت کے گلابوں کی خوشبو اس کے جسم وجاں کو معطر کررہی ہو-
Comments
Tags: Valentine's day
Latest Comments
You have reminded me of good old days. Jamatias were somewhat of a problem then, but at least they did not explode themselves, as their younger kins are doing now. Ex-Marxists are reverting to Tashayyat now — they can’t live without dreams of revolutions. Nostalgia.