کیا عورتیں واقعی صاحب آواز ہوگئی ہیں؟
کیا عورتیں واقعی صاحب آواز ہو گئیں ؟
لیل و نہار/عامر حسینی
فروری کے دوسرے ہفتے میں پوری دنیا میں ویمن ڈے منایا جاتا ہے-اور ہمارے ہاں بھی اب یہ بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے-اس دن بہت ساری تقاریب ہوتی ہیں-لیکن کیا ہمارے ہاں اس دن کو منانے کا تزک و احتشام عورتوں کی حالت زار میں کوئی بڑی تبدیلی کو بھی ظاہر کرتا ہے-میرے سامنے ایک اردو اخبار کا 13 فروری کا لکھا اداریہ موجود ہے جو یہ خبر دیتا ہے کہ اس سال سرائیکی خطہ میں عورتوں پر تشدد کی شرح میں گذشتہ سال کی نسبت سے اور زیادہ اضافہ ہوگیا-کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب عورت کے قتل یہ اس پر تیزاب پھینکے جانے کی خبر نہ ملتی ہو-اور یہ سب اس کے باوجود ہورہا ہے کہ ہماری قومی اسمبلی نے عورتوں پر تشدد کے خلاف بہت سارے قوانین منظور کیے ہیں-مظفر گڑھ کی ایک خاتون کو زندہ جلائے جانے کے کیس میں کہتے ہیں کہ اس لیے پیش رفت نہ ہوسکی کہ اس میں خاتون کے شوہر کے بھائی نے دخل اندازی کررکھی ہے جو ایک حساس ادارے کا افسر ہے-عورتوں کی مظلومیت کی ایک تصویر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی تصویریں لیے بیٹھی وہ مائیں اور بہنیں اور بیویاں بھی بنی ہوئی ہیں جن کے پیاروں کو جبری طور پر گم کردیا گیا اور ان کا بھی تک کچھ پتا نہیں ہے-پھر کافی گھرانے ایسے ہیں جن کے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں پہاڑوں پر ملیں اور وہ اب تک ملزموں کو تلاش کررہی ہیں-کیونکہ یہ ساری عورتیں ایسی نسل سے تعلق رکھتی ہیں جو دور دور پہاڑوں اور دشت میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کا اجتجاج اتنا بھی طاقت ور نہیں ہے جتنا شیعہ اقلیت کا تھا تو ان کی آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن گئی ہیں-اب تو سول سوسائٹی بھی خاموش ہے-اخبارات بھی-چینل پر بیٹھے اینکرز بھی-ویمن ڈے پر کسی نے بھی تو ان کو یاد نہیں کیا-ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر بس ایک مضمون نمودار ہوا-یا پھر بلوچ اخبار توار کا ادارتی صفحہ ان کی نوحہ گری میں شریک ہوا-جس کو پنجاب میں تو ویسے بھی کوئی پڑھنے والا نہیں ہے-ویسے پنجابی حکمران طبقے کی تو یہ عادت ہوگئی ہے کہ جب اس کی رعیت میں مظلوم قومیں چیختی چلاتی ہیں تو اس کو کچھ احساس نہیں ہوتا لیکن اگر وہ الگ ہونے کی ٹھان لیں تو پھر لمبے لمبے مرثیے وجود میں آنے لگتے ہیں-بنگالیوں کا کیس اس کی بہترین مثال ہے-میں اکثر کہتا ہوں کہ عافیہ صدیقی کی یاد میں دن رات گریہ کرنے والوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ غریب و مسکین زرینہ بلوچ کہاں ہے؟اس کو آسمان کھاگیا یا زمیں ںگل گئی-وہ زرنیہ بلوچ جس کو منیر بلوچ نے اپنے ساتھ بند دیکھا تھا اور اس کو اغواء کرنے والے منیر بلوچ سے اس کی آبروریزی کرانا چاہتے تھے-اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا-اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں ہے-کتنے لوگ ہیں جن کو ویمن ڈے پر یہ سب یاد رہا ہو؟میں انتظار کرتا رہا کہ اس دن کسی کو تو بلوچ قوم کی یہ مظلوم بیٹی یاد آجائے اور وہ اس کا نام لے دے-مجھے زرینہ بلوچ جیسے کردار اس لیے بھی شدت سے یاد آئے کہ جے پور ہندوستان میں دنیا بھر سے ادیب اکھٹے ہوئے تو وہاں بھی کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ آج کی لکھاری عورتوں کی کہانیوں میں زرینہ بلوچ جیسی عورتوں کے کردار کیوں نہیں سامنے آرہے-اب تومیں یہ سوچنے لگا ہوں کہ وہ دن کب آئے گا جب کوئی کہانی کار کشمیر کی وادی میں افضل گرو فروٹ فروش کی بیوہ کو اس کی پھانسی کے دو دن بعد اس کی رحم کی اپیل مسترد ہونے کی خبر دینے والی چٹھی ملنے کے واقعہ کو کہانی کے رنگ میں بدلے گا-اس کی بیوہ اور اس کی بیٹیوں پر کیا گزری ہوگی؟اس کو کیسے تخلیق کے رنگ میں ڈھالے گا-مجھے شدت سے اس بات کا احساس اس لیے بھی ہوا کہ ہمارے اندر اب کوئی سعادت حسن منٹو نہیں ہے جو اگر آج ہوتا تو ایسا افسانہ رقم کرتا کہ وہ اس کے افسانے “ٹھنڈا گوشت”سے کہیں آگے کی چیز ہوتا-میں اس حوالے سے ساری باتیں مایوس کن نہیں لکھنا چاہتا-کچھ باتیں امید افزا بھی ہیں-کشور ناھید کی زبانی سن لیجئے-
“میں نے جب شاعری شروع کی تو شاعری کے سارے اظہار اور سارے محاورے مرد کے گرد گھومتے تھے-وہ سارے محاورے غزل میں مرد کی عورت کے بارے میں گفتگو پر مشتمل تھے-تو ایسے میں کون عورت ہوتی جو ان مردوں کے مقابل آتی-خدا کا شکر یہ فہمیدہ ریاض تھیں جو سامنے آئیں”
جی کشور نے ٹھیک کہا کہ یہ فہمیدہ ریاض تھیں جو اس کلیسشے کو توڑنے کے لیے سامنے آگئیں-اور ہم نے ان کی دھماکہ خیز نظم “لاؤ اپنا ہاتھ”پڑھی –جس کے چھپتے ہی مردوں کی لونڈی بن جانے والی شاعری کی سلطنت میں گویا زلزلہ آگیا-کشور کہتی ہیں کہ اس سے مردوں پر سکتہ طاری ہوگیا تھا-ہم میں سے اکثر مرد پروین شاکر کو بہت یاد کرتے ہیں-لیکن ان کی صرف اس شاعری کے زریعہ جس کو ہم نسائی شاعری کا نام دیتے ہیں لیکن ان کی اس شاعری کا تذکرہ بھی نہیں کرتے جو نام نہاد مردانگی کو بے نقاب کرتی ہے-کشور کے بقول اگر عورت شاؤنسٹ اور اینٹی فیمنسٹ باؤنڈری کے اندر رہے تو اس کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا-لیکن اگر وہ سٹیٹس کو کو چیلنچ کرنا شروع کردے تو اس کو گستاخ اور بے راہ رو کہنا شروع کردیا جاتا ہے-ایک زمانہ تھا جب اشراف کی عورتیں بھی نام بدل کر لکھا کرتی تھیں-یہ پابندی اب بھی بہت ساری جگہوں پر موجود ہے-کشور کہتی ہیں کہ”آج بھی زیادہ تر مرد عورتوں پر لکھتے ہوئے اپنی ماؤں کے بارے میں زیادہ لکھتے ہیں-اور وہ ایسا شو کراتے ہیں کہ ان پر اگر کوئی عورت اگر مشہود ہوئی تو وہ صرف ان کی ماں تھی”باقی کے رشتے نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں-فاطمہ حسن جو شاعرہ بھی ہیں اور کہانی کار بھی ٹھیک کہتی ہیں کہ “اللہ بھلا کرے فہمیدہ اور کشور کا کہ انہوں نے عورتوں کو ایک راہ متعین کرنے کا موقعہ فراہم کردیا-زاھدہ حناء نے بھی اس دن کے موقعہ کی مناسبت سے ہمیں 1881 میں بہت بولڈ انداز میں لکھنے والی خاتون “رشیدۃ النساء “سے واقف کرایا-فاطمہ حسن،خالدہ حسین،بانو قدسیہ،اور دوسری کئی خواتین کا ذکر ہوا-ان میں ہاجرہ مسرور بھی تھیں-یہ سب خواتین وہ ہیں جنہوں نے ادب اور شاعری کی اقلیم کو صرف مردوں کی اقلیم نہ رہنے دیا-میں زرا حیران تھا کہ اس تذکرے میں پارسی ادیبہ بپسی سدھوا کا نام کیوں رہ گیا-اور وہ ہندؤ اور سکھ اور کرسچن خواتین کیوں نہیں زیر بحث آسکیں جنہوں نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا تھا-اب بھی اروں دھتی رائے “گاڈ آف سمال تھنگز” کی مصنفہ اور ان کی مترجم پروین ملک جیسی عورتوں کا نام ہمارے تذکروں میں کم کم آتا ہے-لیکن میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ خواتین لکھاریوں کی اس صف میں عصمت چغتائی جیسا نام آج کیوں نہیں ہے؟کیا وہ مسائل ختم ہوگئے جن کو عصمت نے “لحاف”جیسے افسانوں میں موضوع بنایا تھا-ویسے یہ سوال ہم منٹو کے حوالے سے بھی کرسکتے ہیں-اسی دوران مجھے یہ بھی یاد آگیا کہ انور مقصود نے اپنے ڈرامے “آنگن ٹیڑھا”کو دوبارہ ڈرامائی شکل دی ہے-ان کا کہنا ہے کہ 30 سال پہلے جو آنگن ٹیڑھا تھا آج بھی ٹیڑھا ہے-لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے ٹیڑھے پن میں اور تیس سال پہلے کے ٹیڑھے پن میں جو فرق تھا اس کو کون دکھائے گا؟ایک زمانہ تھا جب اچانک گم ہونے والی عورتوں کی کمی تھی-اور مرد بھی کم گم ہوئے تھے-میری یاد داشت میں محض چند نام ہی ہیں اور میں ان کو ایک درجن سے بھی اوپر نہیں لیجاسکا-مگر اب تو گنتی بہت اوپر جاتی ہے-سانس اکھڑنے لگتی ہے اور فہرست ختم ہونے کا نام نہیں لیتی-ایک اور بھی تبدیلی گزرے سالوں میں آئی ہے-وہ تبدیلی بیان کرتی ہے کہ آج کا ٹیڑھا پن آنگن کا کسقدر خوفناک ہوگیا ہے-آج سے 30 سال پہلے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والی خواتین کو بڑھیا جاب فوری مل جاتی تھی-اور آج بڑھیا جاب تو درکنار ان کو پرائیوٹ ایک نرسری اور پریپ کی کلاسوں کو پڑھانے کی نوکری بھی مشکل سے ملتی ہے-اور جن کو نوکری مل جائے ان کو مردوں کے شاؤنزم کا جس طرح سے سامنا کرنا پڑتا ہے-اس کے بیان کے لیے تو دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہوں گے-انور مقصود صاحب تو اپنےپرانے ڈرامے کی نئی تشکیل کے ساتھ سامنے آگئے-اور اس سے قبل حسینہ معین “تنہائیاں”کی تشکیل جدید کے ساتھ سامنے آئیں-مگر میرا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ “آج کے آنگن ٹیڑھا اور آج کی تنہائیاں”کون تحریر کرے گا-ویسے گلزار صاحب اور بپسی سدھوا کراچی اور لاہور کے “کتاب میلوں”میں شریک ہوں گے-ان کو یہ سوال ضرور اٹھانا چاہئے-ویسے میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری فلم انڈسٹری کو گلزار اور جاوید اختر جیسے لکھاری کیوں نہیں ملتے؟لوجی !میں بھی کس قدر بھولپن کا مظاہرہ کرگیا-ہمارے ادھر “فلم انڈسٹری”نام کی کوئی چیز ہوگی تو ہم گلزار یہ جاوید اختر کے پیدا ہونے کی بات کریں گے-
Comments
Tags: Social justice, Women's rights
Latest Comments
Good Work