My visit to an Edhi jail – by Shazia Nawaz
It started out as a great visit. The building was beautiful; new, huge, sparkling clean, and had an armed guard sitting at the door. I requested for the tour of the facility. Tour began at a locked door which was locked from outside. The woman who decided to give me a tour opened the lock and a twenty year old girl welcomed us inside.
There was a huge compound inside the locked door; a big open playground in the middle and several rooms around that playground. There was a prayer room, a kitchen, a small school, and several bedrooms. I met a lot of little girls there, all those unfortunate ones who had to leave home and live there with each other. They seemed very friendly with each other. The girl who gave us the tour was the oldest. I was very happy to see all this.
Right before I left, I asked the woman if girls went out sometimes. She said, “We take younger girls out sometimes but the ones twelve or older stay inside once they join us.” I was told that once a girl comes in, she does not leave those four walls of the compound until her family comes and gets her. The twenty year old teenager who gave us the tour told me that she joined the compound two years ago and had not left those four walls since. When she said that she had tears in her eyes. They can not even go to the main door to the guard or to the offices. That shocked me and broke my heart. It was not an Edhi home at all, it was an Edhi jail. Those girls were in prison with out committing a crime. I spoke with several Pakistanis on that issue after that, a typical Pakistani’s opinion is that this is the right way to do it, “Those girls are safer that way. If they got out, they can get pregnant.” This type of mentality is shocking. Imagine if all girls’ hostels were like jails just because if girls got out, they might get pregnant? Imagine the purposeless life of an adult twenty year old girl with all those little girls, every single day for two years, and God knows for how long more?
I know people don’t like to hear criticism on Edhi Sahib, but I have to say it; if he has taken a responsibility, he must fulfill it properly. Those girls must be given freedom: they must be sent to regular schools, they should be taken out at least three times a week for shopping or outing. It is a crime to jail young girls. Interestingly, the woman who showed me the facility said, ” well, we are afraid they would run away if we took them out.” Now that itself has an answer in it, of course they would run away given an opportunity to run away from that jail. Women are humans just like men. They like open air and freedom to walk on an open road just as much. I wonder how a boys’ orphanage is run by Edhi Sahib? Can boys go out in form of groups? If these girls were allowed to go out in form of groups, why would they run away? And if a couple of them ran away, should that make you jail rest of them? Would you care so much if a boy ran away from an orphanage? Boys are molested and abused a lot more than girls in Pakistan. But I guess their honor is not in their private parts. You don’t make a boy’s potential molestation an excuse to jail him, why do it to a girl?
ایدھی ہوم یا ایدھی جیل
پچھلے سال میں جب پاکستان گئی تو میں نے بلقیس ایدھی سینٹر جانے کا فیصلہ کیا . مرے پاس کچھ چیزیں تھیں جو میں ان کو دینا چاہتی تھی . بہت سارے کپڑے اور جوتے. ان کی عیمارت تو بہت خوبصورت اور بڑی تھی. باہر گارڈ بھی تھا اور بہت سرے آفسز. مجھے انھوں نے چیزیں ایک کمرے میں رکھنے کے لئے کہا . اس کمرے میں پہلے ہی بوہت سارے کپڑے اور سامان تھا. میں نے کہا مجھے ٹور تو کروا دیں. ایک خاتون مجھے اندر لے گئیں . اندر جانے کے لئے ان کی تالا کھولنا پڑا . اندر ایک بوہت بڑا برآمدا تھا اور صحن بھی. صحن کے ارد گرد بوہت سارے کمرے تھے. کچھ سونے کے کمرے، ایک کمرہ اسکول کے لئے . ایک مسجد، ایک کچن اور کھیلنے کا کمرہ. کچن میں لڑکیاں مل جل کر کام کر رہی تھیں . میں نے ان سے پوچھا کہ کیا لڑکیاں باہر جاتی ہیں ?خاتوں کہنے لگیں کہ ہم بڑ ی لڑکیوں کو باہر لے کر نہیں جاتے. کہیں وہ بھاگ نہ جائیں. ایک دفع جو لڑکی اندر آتی ہے وہ اندر ہی رہتی ہے جب تک اس کے وارث آ کر اس کو نہ لے جائیں. بیس سال کی لڑکی جس نے دروازہ کھولا تھا، اس نے مجھے بتایا کے وہ اس چار دیواری سے دو سال سے نہیں نکلی. اس کی آنکھوں میں یہ کہتے ہویے آنسو آ گیے . مجھے ایک دم سمجھ آ گئی کہ یہ ایدھی ہوم نہیں بلکہ ایدھی جیل ہے. لڑکیاں باہر والے گیٹ تک بھی نہیں جا سکتیں. مجھے معلو م ہے کہ ھم ایدھی صاحب پر تنقید کرنا کتنا بڑا گناہ سمجھتے ہیں مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ اگر ایدھی صاحب نے ذمے داری لی ہے تو پوری بھی صح طر ہ سے کریں. اگر لڑکیاں لاوارث ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو جیل میں ڈال دیں. اگر لڑکیوں کو اپنی مرضی سے آنے جانے کی آزادی ہو گی تو وہ بھاگیں گی کیوں. کیا ایدھی صاحب لڑکون کا یتیم خا نہ بھی ایسے ہے چلاتے ہیں. ہم سب کو ہی ایدھی صاحب سے بوہت محبت ہے اور ہم ان کی بہت عزت کرتے ہیں مگر ان کو چاہیے کے لڑکیوں کے با ہر جانے کا انتظام کریں. ایک ٹیچر ہو جو ساری لڑکیوں کو ہفتے میں تین چار دفہ باہر لے کر جاے. بڑی لڑکیاں چھوٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر بازار جا سکیں. اگر کوئی لڑکی بھاگ بھی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کے باقی لڑکیوں کو جیل میں دال دیا جا ے . آزادی بہت ہی بڑ ی چیز ہے. لڑکیوں کو بھی لڑکون کی طرح ہی کھلی ہوا پسند ہوتی ہے. وہ بھی باھر گھومنا پھرنا چاہتی ہیں. ان کو بھی عا م اسکول میں بھیجا جا ے . انکو با ہر جاب بھی کرنے دیں. لاوارث لڑکیاں عام لڑکیوں سے بیوقوف نہیں کہ کوئی زیادہ ہی بیوقوفی کے کام کریں گی. لڑکے بھی سڑکوں پر زیادتی کا شکار ہوتے ہیں . اس بات کو بہانہ بنا کر اپ ان کو قید تو نہیں کر دیتے.
کچھ دن پہلے میں یو ٹیوب پر ویڈیو دیکھ رہی تھی اور مجھے پنجاب اسمبلی کا ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا . ویڈیو میں اسمبلی کے اراکین بجٹ پر بحث کر رہے تھے کہ اپس میں جھگڑا شرو ہو گیا. چودہرے علاؤ دین جو کے مسلم لیگی نوں کے ممبر ہیں ایک دم بوھت طش میں آ گیے. کسی خاتون رکن کے ساتھ الجھ گیے. خاتون ان کی ساتھی قانون ساز تھیں. کہنے لگے ” میں جانتا ہوں تم کہاں سے آئی ہو. تم موت کے کنویں میں ناچنے والی عورتیں ہو. مجھے پتا ہے تم لوگوں کی اصلیت کیا ہے” چودہری صاحب نے اور بھی بڑی بڑی باتیں کیں اور کہا کے وہ سب جانتے ہیں کون کیا کرتی ہے. چودھرے صاحب کے ساتھ بیٹھےداڑھی والے صاحب، عورتوں کی اس “اصلیت کے انکشاف” پر اپنی خوشی کو کابو میں نا لا سکے اور زور زور سے تالی بجانے لگے. چودھرے صاحب کی بات سے مجھے وہ جرنلسٹ بھائی یاد آیے جن سے ایک دفع میری بحث ہو گئ. میں نے کہیں لکھ دیا کے امریکا میں عورتوں کی بڑی عزت کرتے ہیں. انکو اتنا غصہ آیا کے مجھے نا سمجھ کہا اور کہنے لگے کےہمارے ملک میں عورت کی بوھت عزت ہے . خاص طور پر جیسے جیسے عورت کی عمر زیادہ ہوتی ہے ، اس کی عزت بھی بڑھتی جاتی ہے. ہم تو اپنی ماں بہن کی بوھت ہی عزت کرتے ہیں. این گوروں کو کیا پتا عزت کیا ہوتی ہے. میں نے کہا، “بھائی آپ تو اپنی ماں بہن کی بوھت عزت کرتے ہیں مگر وہ گلی کے کونے میں کھڑا لڑکا ان کو چھیڑتا ہے .” اور بلکل یہی ہی بات ہے. پاکستان میں رشتوں کی عزت کی جاتی ہے مگر عورت کی کوئی عزت نہیں کی جاتی. اصل بات یہی ہے کے بوھت سارے پاکستانیوں کو یہ پتا نہیں کے عورت کی عزت کرنے کا کیا مطلب ہے. اب آپ چودہرے علاؤ دین کی ہے مثال لے لیں. بات صرف یہی نہیں کے انہوں نے اسمبلی کی عورتوں کی بے عزتی کرنے کی کوشش کی، بات یہ ہے کے جن معاشروں میں عورت کی عزت کرتے ہیں، ان معاشروں میں ڈانس کرنے والی عورتوں کی بھی عزت کی جاتی ہے. عورت اگر ڈانس کرنے والی بھی ہو، تو کوئی چیخ چیخ کر یہ نہیں کہتا، “او ڈانس کرنے والی.” امریکا اور دوسرے یورپی ملکوں میں تو طوائف کو بھی عزت دی جاتی ہے اور اس کے بھی حقوک ہوتے ہیں. پاکستان میں، خاص کر چھوٹے شہروں میں تو کوئی عورت یا لڑکی گھر سےاکیلی باھر جا ہی نہیں سکتی . ہمیشہ بھائی یا باپ کو ساتھ جانا پڑتا ہے. گلی کے لڑکے آوازیں لگاتے ہیں. گلی میں چلنا مشکل کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو کوئی بڑا ہی بزدل لڑکا دوپٹہ کیچنے کی کوشش بھی کرتا ہے. عزت تو وہ صرف اپنی ماں بہن کی ہے کرتے ہیں. چاہے سات تہیں بھی پہن لو، برقع پہن لو، چھیڑیں گے ضرور. اور یہاں امریکا میں جو مرضی پہنو، کسی کے مجال نہیں کے آپ کو کچھ کہے. آپ پوری آزادی سے پھر سکتے ہیں . پاکستان میں تو میں یہی سمجھتی تھی کہ یہی زندگی گزارنے کا سہی طریقہ ہے کہ گھر میں رہو یا بھائی کے ساتھ باھر جاؤ. اب یہاں امریکا رہ کر پتا چلا کے عورتیں بھی انسان ہیں اور ان کو بھی سڑکوں پر چلنے کی پوری آزادی کسی خوف خطرے کے بغیر ملنی چاہیے. اور معاشرے کے ساری عورتوں کی عزت ہو. اپ کی بہن کی بھی اور کسی دوسرے کی بہن کی بھی جو کے سڑک پر اکیلے جا رہی ھے. ہر قسم کی عورت کی عزت ہو، ڈاکٹر عورت کی بھی اور مزدور عورت کی بھی. ناچنے والی کی بھی عزت کی جایے اور بنک میں کم کرنے والی کی بھی. آپ عزت پر شرطیں نہیں لگا سکتے. اگر نقاب لو گی تو عزت کریں گے. اگر دوپٹے کے بغر نکلو تو عزت نہ ملے گی. امیر عورت سے دب کے کچھ نا کہیں گے اور مڈل کلاس کی لڑکی پر آواز لگانی ہے. یہ سارے غلط طور طریکے ہیں. یہ بات کے کسی عورت کی بے عزتی کرنی ہو تو اسے ناچنے والی کہو ، یہ بڑی ہی جہالت کی بات ہے. اس لئےکہ آپ یہ کہ رہے ہیں کے ناچنے والی بری ہیں. ناچنے والے لوگ فنکار ہیں اور ان کی عزت اور پیار ہی کرنا چاہیے . اگر انڈیا والے اپنی کترینا کی عزت کرتے ہیں تو ہم اپنی دلدار کی عزت کیوں نہیں کر سکتے. اور ناچنے والے دیکھنے والوں سے برے کیسے ہو گیے ؟ اگر میں آپ کو سو روپے دوں ناچنے کے اور پھر خود اچھی بن جاؤں، تو یہ کہاں کا انصاف ہے. مزے کی بات ہے کے وہی کام پیسے والی اور انگرزی بولنے والی کرے تو اس کی عزت ہے. وہ راک ستارہ ہے. .جیسا کے میں نے کہا، پاکستان میں عورت کی عزت نھی. یا تو رشتوں کی ہے اور یا پھر پیسے کی. افسوس کی بات یہ ہے کے پاکستان مسلم لیگ نوں کی عورتوں نے چودھرے علا ہ و دین کا ساتھ دیا اور ان عورتوں کا نہیں جن کو چودھرے نے ناچنے والی کہا. یہ بھی پاکستان کے کلچر کی بڑی ہی گندی بات ہے کہ زیادہ عورتیں ایک دوسرے کی بے عزتی پرخوش ہوتی ہیں. مگر پھر آخر ایک دن آ ہی جاتا ہے جب کوئی ان کو ناچنے والی یا طوائف کہ کر بلاتا ہے. جب تک پاکستانی عورتیں ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گی. پاکستانی مرد ان کی عزت نہیں کریں گے .
Well done, Bibi! Maulana Sahib should pay attention to this very genuine point and help solve it. Pakistan has evolved into such an intolerant society that issues of inequality and maltreatment of women-folk have gone into oblivion.
@Shazia Nawaz
Doubtless they would say it was for the girls’ own protection…?
Interesting, isn’t it, how the culture of deference pervades everything in Pakistan. Edhi has a near Saint-like status so no `bold and Azad’ journalist ever picked up on what you evidently witnessed and found appalling.
I know little of Edhi. However a few months back a senior
British journo, very much on the side of Islamism, penned an article where he made Edhi out to be a Saintlier figure than the Blessed Mother Teresa.
Well done for raising a tabooed topic!
Asma bint Marwan
No offense to Mother Teresa and I pray to God we have more like her and I am no one to judge on the comparison of Edhi and Mother Teressa. However, with this disclaimer, anyone and I repeat any historian, journalist, human being, a Pakistani (especially someone from Karachi) who’s seen Edhi and followed him from day one and watch his way of life and heard him today cannot find a parallel in modern history. He’s just a pakistani who is not interested in the world so he’s not a known celebrity but we’ve seen him, the places he’s worked and good he’s done, a 100s of bullets that somehow did not hit him, a tons of blood and human flesh that’s poured over him as he carried the injured or dead.
But with that said, this treatment of woman is wrong and saint or no saint, Edhi needs to address this issue.
Could the author please mention the exact location.
thanks!
It is easy to criticze any body and Edhi Sahib is one human. You come out of a foreign country and spend a few moments with these girls and feel their life inside a prison. Well take an initiative and invite some of these girls to your home and take them around onece a week and take responsibility. May be Edhi Sahib will have no objection to this. But come to think of this jungle where we live. Will you send your children out with someone untrustworthy these days in Pakistan. With the volutures who are around every where in this society they are lloking for easy prey and these girls have already sufferred once to be here. So take the initiative and take responsibility and may be become an Edhi vounteer. Edhi is already 90+ and he will not live forever even with all our prayers.
Regards