Shaheed Basheer Bilour’s historical speech against Taliban, Al Qaeda and Deobandi mullahs
Here is a historical speech by Shaheed Bashir Ahmed Bilour in the Khyber Pakhtunkhwa Provincial Assembly in which he criticizes Takfiri Deobandi mullahs (clerics) of the JUI, Sipah Sahaba and Taliban.
In particular, Shaheed Bilour boldy names and condmens the Al Qaeda Chief Ayman Al Zwahiri and says it was the Al Qaeda and its supporters in the Taliban, JUI and Sipah Sahaba which introduced the vicious culture of suicide jacket and suicide bombing in Afghanistan and Pakistan, which was later imported into Deobandi seminaries (madrassas by Deobandi mullahs). He furhter says it were the pro-Taliban mullahs of JUI (Fazl-ur-Rehman and Samiul-Haq) and Jamaat Islami (Qazi Hussain Ahmed and Munawar Hasan) who handed over Swat to Taliban militants.
Shaheed Bilour boldly confronts and warns the JUI and other Takfiri Deobandi mullahs to refrain from claiming to represent “all Muslims”. He says these pro-Taliban mullahs represent their own economic and political interests, not all Muslims.
Shaheed says to the pro-Taliban Deobandi mullahs:
itni na barha paaki-e-damaan ki hikayat
daman ko zara daikh, zara band-e-qaba daikh
No wonder Takfiri Deobandi militants of Sipah Sahaba Taliban considered it necessary to kill Bashir Ahmed Bilour. He sacrificed his today for our tomorrow.
Rest in peace, Sir. Pakistan’s Sunni, Shia, Ahmadi, Christian, Pashtun, Punjabi, Baloch, Sindhi, Gilgiti etc offer red salute to you.
“He sacrificed his today for our tomorrow.” Indeed! Salute to brave Pashtun leader Shaheed Bashir Bilour!
Great speech like it.
we know that ssp dogs are afraid In Khaber Pashtoon Kha from such type of people in ANP.
In KPK ANP is the only party that is against the taliban dogs and terrorism .
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے!
Published on 23. Dec, 2012
(اداریہ) :بشیر احمد بلور پشاور میں ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور اب کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ سب ڈرامہ تھا یابلور کے زخم جعلی تھے۔ سرخپوشوں کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے یہ رہنماء اپنے بھائی غلام احمد بلور کی طرح کسی کے سر کی قیمت لگا کر انتہا پسندوں سے زندگی کی امان پا سکتے تھے لیکن انہوں نے الٹا ان کو لکارنے کو ترجیح دی اور امر ہوگئے۔ بشیر بلور، میاں افتخارحسین اور ملالہ یوسفزئی ان پختونوں کے دلیر نمائندے ہیں جو انتہا پسندی کو ناسور سمجھتے ہوئے اس کے خلاف نہتے لیکن با آواز بلند سینہ سپر ہیں۔
بشیر بلورجان کی پرواہ کیے بغیر جس طرح کھل کر شدت پسندوں کی مخالف کرتے تھے وہ ایسے رہنماؤں کے لیے یقیناًشرمندگی کا باعث ہوگا جو پاکستان میں انقلاب کی بات تو کرتے ہیں لیکن انتہا پسندوں کی مذمت کرنے کی بجائے بغلیں جھانکنا شروع کردیتے ہیں اور زبان ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔انہوں نے بھی بشیر بلور کے بھائی کی طرح معاشرے کے ناسوروں سے جان کی امان پائی ہوئی ہے، اور اگر وہ یا ان کے حمایتی یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں آکر وہ شدت پسندی کے اس دیو کو بوتل میں بند کر دینگے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اقتدار سلمان تاثیر، بشیر بلور اور شہباز بھٹی جیسے بہادروں کی حفاظت نہ کرسکا تو ان کی کیسے کر پائے گا مصلحت کوشی جن کا شیوا ہے۔
______________________
ریاست ملالہ کی بندوق یا طالبان کی خوراک: اداریہ
______________________
ملالہ یوسفزئی پر بزدلانہ حملے کے بعدبڑے پیمانے پرجو طالبان مخالف لہر پیدا ہوئی تھی وہ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ(فوجی و سیاسی) کے لیے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا اہم موقع تھا جس میں تاخیر سے دہشتگردوں کے حمایتیوں کو پانی گدلا کرنے کا موقع مل گیا۔لوگ اب حقائق کی بجائے سازشی مفروضوں پر رائے قائم کرتے ہیں، جن کو رحمان ملک جیسے کھوکھلے رہنماء یہ کہہ کر مزید ہوا دیتے ہیں کہ ’بیرونی ہاتھ ملوث‘ ہے۔
احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی، شیعہ نسل کشی، ہیلتھ ورکزر کے قتل اور طالبات پر حملے یہ سب وہ کارروائیاں ہیں جو طالبان کے انتہاپسندانہ نظریات کے عین مطابق ہیں، پھر بھی لوگوں کو بیرونی ہاتھ کی طرف لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا آنکھیں بند کرنے سے بلا ٹل جائے گی یا حقائق بدل جائیں گے؟
المیہ یہ ہے کہ شدت پسندوں کے ہاتھوں فوجی جوانوں کی سربریدہ لاشیں ملنے اور اصول پسند سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں پر جان لیوا حملوں کے باوجود پاکستان کا ایک حلقہ پھر بھی انتہا پسندوں کی دہشتگردانہ کارروائیوں کے جواز ڈھونڈتا نظر آتا ہے، کبھی نام نہاد اسلام پسندی کی آڑ میں اور کبھی امریکہ دشمنی میں۔دہشتگردوں نے معاشرے کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور Stockholm Syndrome کا شکار لوگ ان کی صفائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
بشیر بلور ایک بہادر سیاستدان تھے، ایسے سیاستدان جو اب پاکستان میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ قربانیاں رائیگاں جاتی رہیں تو پھر ایسے بااصول لوگوں کی نسل ناپید ہو جائے گی اور گھٹن کا راج ہوگا۔
http://www.topstoryonline.com/bashir-bilour-demise-editorial
’ڈرونز کے مخالف خودکش حملوں کے خلاف کیوں نہیں بولتے‘
آخری وقت اشاعت: منگل 25 دسمبر 2012 , 11:59 GMT 16:59 PST
Facebook
Twitter
دوست کو بھیجیں
پرنٹ کریں
دہشت گردی کاخاتمہ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ لڑائی نظام کی لڑائی ہے: اسفندیار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کی طرح پاکستانی سرزمین پر غیرملکی شدت پسندوں کی موجودگی بھی ملکی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔
منگل کو پشاور میں اپنی جماعت کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان حملوں میں بےگناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں لیکن ان کا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کی مذمت کرنے والے لوگ ملک میں ہونے والے خودکش حملوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔
اسی بارے میں
بشیر بلور کو پشاور میں سپرد خاک کر دیا گیا
سخت سکیورٹی میں بشیر بلور کی نمازِ جنازہ
پشاور: سینئر صوبائی وزیر خود کش حملےمیں ہلاک
متعلقہ عنوانات
پاکستان, خیبر پختونخوا, عوامی نیشنل پارٹی
انہوں نے کہا کہ لوگ ڈرون حملوں کے باعث فضائی خودمختاری کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں لیکن غیر ملکی شدت پسندوں کی وجہ سے پاکستان کی زمینی خودمختاری کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اس پر کیوں نہیں بولتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جو ہزاروں کی تعداد میں ازبک، تاجک، عرب آئے ہیں یہ ہماری سالمیت کی خلاف ورزی نہیں کر رہے اور اگر کر رہے ہیں تو ہم میں کیوں اتنی جرات نہیں کہ ہم ان کی مذمت کریں‘۔
انہوں نےیہ بھی کہا کہ ’خودکش حملہ آور جب آتا ہے اپنے آپ کو اڑاتا ہے اور بےگناہ لوگ مرتے ہیں، اس کی مذمت میں کیوں تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ اگر اس(ڈرون حملوں) کو برا کہنا ہے تو اسے بھی برا کہنا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔’نہ ہمارے بزرگوں نے کبھی سر جھکایا نہ ہم جھکائیں گے‘۔ خیال رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور خیبر پختونخوا کے سینیئر صوبائی وزیر بشیر بلور حال ہی میں خود کش حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
“خودکش حملہ آور جب آتا ہے اپنے آپ کو اڑاتا ہے اور بےگناہ لوگ مرتے ہیں، اس کی مذمت میں کیوں تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ اگر اس(ڈرون حملوں) کو برا کہنا ہے تو اسے(خودکش حملوں کو) بھی برا کہنا ہوگا۔”
اسفندیار ولی
انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات خراب ہیں لیکن انتخابات کا التوا ملک کی تباہی اور بربادی کا باعث ہوگا۔
اسفندیار ولی نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی ریاست کی رٹ تسلیم کرنے والوں اور تشدد ترک کرنے پر آمادہ عناصر سے بات چیت پر تیار ہے لیکن ریاست کی رٹ نہ ماننے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی ہوگی۔
اے این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کاخاتمہ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ لڑائی نظام کی لڑائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اے این پی کے بعد خودکش حملے بند ہوجائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیچھے نہیں ہٹے گی لیکن دہشت گردی کا مقابلہ صرف ان کا کام نہیں یہ جنگ سب کی ہے۔
’ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس کے تدارک کے لیے واضح پالیسی بنانا ہوگی کیونکہ ریاست ہوگی تو سیاست ہوگی اور سیاست ہوگی تو سیاستدان بھی ہوگا‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121225_asfandyar_presser_zs.shtml