تبلیغ میں کیا خرابی ہے؟
ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں ؛ پھر یہ لاکھوں لوگ پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں اور نیکی کی تلقین کرتے ہیں۔ گزشتہ پچیس سے تیس برسوں میں یہ تعداد چند ہزار سے بڑھ کر بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے مگر …..
جی ہاں یہ ایک بہت بڑا مگر ہے۔ مگر پچھلے پچیس، تیس سال میں تبلیغ کے رجحان میں جتنا اضافہ ہوا ہے ، اُتنا ہی پاکستان میں ظلم، جبر ، بے انصافی اور بدعنوانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب تبلیغ کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ (ماسوا اس کے کہ اس کی وجہ بھی امریکہ اور اسرائیل کی سازش میں تلاش کی جائے)۔
مجھے اُ ن کی تبلیغ میں بنیادی خرابی یہ نظر آتی ہے کہ اُن کا سار زور عبادات کی تلقین پر ہوتا ہے ۔ مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے اُن کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی آسان سا جواب ہے :” دین سے دوری” ۔ اور دین سے اُن کی مراد دو،تین باتیں ہیں: نماز پڑھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، داڑھی رکھنا، شلوار ٹخنوں سے اوپر باندھنا وغیرہ۔ (یہاں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ مغربی ممالک میں دین سے دوری کے باوجود اتنی رشوت ستانی کیوں نہیں، وہاں یتیموں اور بیواؤں اور غریبوں کی جائیدادوں پر لوگ قبضے کیوں نہیں کرتے؟)
یہ لوگ عام سیدھے سادے آدمی کو پکڑ کر ان ساری ظاہری چیزوں اور عبادات کے بارے میں تو پڑھا/بتا دیں گے مگر جو لوگ معاشرے میں خرابیاں پھیلا رہے ہیں اُن کے پاس جا کرکوئی تبلیغ نہیں کریں گے۔یہ کبھی کسی ایسے شخص کے پاس وفد لے کر نہیں جائیں گے جس نے کسی یتیم کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہو، نہ کبھی کسی ایسے افسر کے پاس جائیں گے جو بدعنوانی میں ملوث ہو ، یا کسی ایسے شخص کے پاس نہیں جائیں گے جو علاقے میں منشیات کا کاروبار کر رہا ہے۔ پتہ نہیں ایسے سماج دشمن عناصر کو تبلیغ کرنے کی ہمت نہیں یا ضرورت ہی نہیں محسوس کی جاتی۔
لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ عام آدمی کو “خصی” بنا دیتے ہیں یعنی اُسے ایسا کر دیتےہیں کہ وہ ملک و قوم کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ ہر بندے کے ہاتھ میں تسبیح دے کر مسجد میں بٹھا دیتے ہیں ۔ اِس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کو چھوڑو، آخرت کی فکر کرو۔ بھائی کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میری یہ دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ کیا مذہب ہمیں اس دنیا میں ہونے والے ظلم و جبر سے آنکھیں بند کر لینا سکھاتا ہے۔ اگرنہیں تو اس ملک میں روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی قتل و غارت کے خلاف یہ لاکھوں تبلیغیوں نے کیا کیا (شائد بیس بیس لاکھ کے اجتماعات میں رقت انگیز لہجے میں خدا سے دعائیں کی ہوں، مگر کوئی انہیں بتائے کے معاشرے دعاؤں سے نہیں سدھرتےو رنہ حضرت محمدﷺ بھی غار ِ حرا میں بیٹھ کر دعائیں کرتے رہتے ، وہاں سے نیچے آنے کی کیا ضرورت تھی)۔
تبلیغ نے دراصل عام آدمی کو اپنی دنیاوی ذمہ داریوں سے غافل کر کے اس ملک و قوم کا بیڑہ غرق کر دیا ہےمگر تبلیغیوں کو اپنی تبلیغ میں موجود یہ کھُلا تضاد نظر ہی نہیں آتا۔ یہ لوگ ہر کسی کو اپنے ساتھ تبلیغ پر لے جانے پر بضد ہوتے ہیں۔ خود تو اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہی ہیں، دوسروں کو بھی اس پر مجبور کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا گھر بار، بیوی بچے چھوڑ کر سال بھر، تین ماہ یا چالیس روز کے لئے دوسروں کو سیدھا راستہ دکھانے نکل پڑےاور پیچھے اپنے ہی گھر والے بھٹک جائیں تو آپ نے کیا تیر مارا۔ بیوی بیمار بچے کو لے کرکہاں ماری ماری پھرے گی جسے پتہ ہی نہیں کہ اپنے ہی شہر کا ہسپتال کدھر ہے اور جسے آپ مرد ڈاکٹر سے ملنے بھی نہیں دیتے کہ وہ نامحرم ہے۔ یہ بات کون سمجھے گا اور سمجھائے گا کہ جس شخص پر چار پانچ لاکھ روپے قرضہ ہو وہ اپنی دکان بند کر کے یا نوکری چھوڑ کر تبلیغ پر نہ نکلے بلکہ پہلے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، پھر دوسروں کی اصلاح کرے۔
انضمام الحق اپنے آخری میچ میں آؤٹ ہو کر روتے ہوئے پویلین واپس جا رہے ہیں۔
یہی صورت حال ہم نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں دیکھی۔ جوں جوں کرکٹ ٹیم میں تبلیغ کا رجحان بڑھتا گیا اُن کی کاکردگی کا معیار گرتا چلا گیا۔ کھلاڑیوں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری یعنی کرکٹ کھیلنا (جس کے لئے وہ بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں) چھوڑ کر تبلیغ شروع کر دی۔ چنانچہ ہمارے ایک سٹار بیٹسمین انضمام الحق کو ویسٹ انڈیز میں ہونے والے عالمی کپ میں ایک چھوٹی سی ٹیم سے شکست کے بعد روتے ہوئے میدان چھوڑ کر اسٹیڈیم سے باہر آنا پڑا۔کوئی بتائے کہ کھلاڑی کرکٹ کھیلنے کی غرض سے ویسٹ انڈیز گئے تھے، وہاں جا کر لوگوں کو مسلمان کرنا شروع کر دیا اور کرکٹ کو بھول گئے تواُن کی فیسیں، ٹکٹ اور ویسٹ انڈیز میں قیام پر اٹھنے والے سارے اخراجات حرام نہیں ہوگئے۔ مگر اس ملک میں لوگ حج بھی قوم کے خرچے پر کرتے ہیں، تبلیغ بھی قوم کے خرچے پر۔ قوم کا پیسہ مولوی کے لئے بھی اُتنا ہی حلال ہے جتنا فوجی جرنیل، بیوروکریٹ، جاگیردار، سرمایہ دار اور تاجر کے لئے ہے۔ کوئی قوم کے پیسے سے اِس دنیاء میں پلاٹ خریدتا ہے کوئی قوم کے پیسے سے جنت میں مکان بُک کرا لیتا ہے۔
تبلیغیوں سے آخر پر یہی التجاء کروں گا کہ آپ اپنی تمام تر ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے معاشرے میں موجود ناانصافیوں کے خلاف منظم انداز میں جدوجہد کریں ۔ اس سے بڑھ کر نہ تو آپ دین کی کوئی خدمت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس بڑھ کر کوئی اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے۔ ورنہ خاموشی سے مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ کر تسبیح گھما گھما کر اپنی جنت پکی کرتے رہیں اور باقی لوگوں کو “خصی” نہ کریں، انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کر نے دیں۔
Source: Aaina
Well written article .Tableegh is not enough if it is only restricted to prayers and such stuff and does not teaches us how to live with the fellow citizens.
Good article… we should not be confined to mosques, instead we should rise against these Zardaris and Sharifs (the Yazeed of this era). May Allah guide these people to follow islam fully not partially.