پاکستان میں ہندو اقلیت کے چیلنجز- تحقیقی رپورٹ

علی ظیف

( یہ تحریر ہندو لڑکی رنکل کماری کے جبرئ تبدیلی مذہب کے واقعہ کے میڈیا پر نمایاں ہونے کے بعد ایک قومی روزنامہ کے لیے قلم زد کی گئی تھی لیکن مدیران کی جانب سے اسے اس بنا پر شائع کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ اس سے بنیاد پرست مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔اب میں اسے اپنے بلاگ پر شائع کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ میری اس کاوش کو سراہیں گے ۔)
آج سے ہزاروں برس قبل ہندو دیوتا رام کے بیٹوں لوّا اور کشا کے نام پر بسائے گئے شہروں لاہور اور قصور میں ہندو خاندانوں کی تعداد محض چند سو تک محدود ہوگئی ہے۔ کبھی لاہور ہندو تہذیب و تمدن کا ایک اہم مرکز تصور کیا جاتا تھا،لیکن آج ایک محتاط اندازے کے مطابق لاہور میں ہندو خاندانوں کی تعداد 24ہے جبکہ پاکستان ہندو کونسل کے مطابق یہ تعداد 4,821ہے۔ ہندو تہذیب و ثقافت کچھ یوں معدوم ہوئی کہ شہر کی اہم شاہراؤں اور علاقوں کے نام بھی تبدیل کر دیئے گئے۔ اب لاہور پر عرب تہذیب کے رنگ زیادہ نمایاں ہیں۔
1947ء میں تقسیم کے وقت پنجاب آگ کے شعلوں میں جل اٹھا تھا، نفرت کے سایے گہرے ہوتے چلے گئے۔مسلمان، ہندو اور سکھ آپس میںیوں دست و گریباں ہوئے کہ ریل کی پٹریاں اور دریائے راوی وچناب لہو رنگ ہوگیا۔ لاہور ریڈیو پر امرتاپریتم کی مدھر آواز اب سنائی نہیں دیتی تھی لیکن ان کا یہ نوحہ آج بھی اس وقت ہونے والے ظلم و ستم کی یاد دلاتا ہے:
اَج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اَج کتابِ عشق داکوئی اگلا ورقہ پھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھِ لکھ مارے وین
اَج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمندیاں دیا دردیا اُٹھ تک اپنا پنجاب
اَج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ لاہور میں کوئی ہندو مندر نہیں تھا، کوئی شمسان گھاٹ نہیں تھا۔ بعدازاں نئے ہزاریے کے اوائل میں لاہور میں کرشنا مندر قائم کیا گیا لیکن بعض ہندو رہنماؤں کے دعوؤں کے مؤجب اس مندر کے متولی منور چند ہندو نہیں بلکہ مسیحی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت لاہور میں ہندوؤں کی حالتِ زار کیا ہوگی؟ دراصل نوّے کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان میں بھارتی مسجد کی شہادت کے بعد پاکستان میں بڑی تعداد میں مندروں کو مسمار کیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کی 8اگست 1992ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ مسلمان مظاہرین نے پاکستان بھر میں 30ہندو مندروں پر حملے کیے۔‘‘ رپورٹ میں مزید لکھا تھا ’’ لاہور میں ہزاروں مظاہرین نے بلڈوزر کے ذریعے ایک خالی ہندو مندر کو مسمار کر دیا۔ مظاہرین نے چھ دیگر مندروں کو بھی نذر آتش کیا اور ایئر انڈیا کے دفتر پر پتھراؤ کیا۔‘‘
1947ء میں تقسیم کے وقت پاکستان میں ہندوؤں کا تناسب 15سے 20فی صد تک تھا لیکن آزادی کے 65برس بعد یہ تناسب 2فی صد رہ گیا ہے۔ 1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کا تناسب 1.6فی صد تھا ، سندھ میں یہ تناسب 6.6فی صد تھا۔ پاکستانی مردم شماری میں شیڈول ذاتوں کو ہندوؤں سے الگ شمار کیا گیا تھا اور ان کا تناسب 0.25فی صد تھا لیکن غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوؤں کی آبادی سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان ہندو کونسل نے اپنے طور پر ہندوؤں کی مردم شماری کی تھی جس کے مطابق ہندو ملکی آبادی کا تقریباً 5.5فی صد ہیں اور یہ تعداد تقریباً70لاکھ بنتی ہے۔ پاکستان ہندو کونسل کی رپورٹ کے مطابق ہندو بنیادی طور پر صوبہ سندھ کے شہری علاقوں اور بھارتی ریاست سے متصل شہر تھرپارکر میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں میں سے 93.33فی صد سندھ دھرتی کے باسی ہیں۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش کمار کا کہنا ہے:’’1998ء کی مردم شماری میں ہندوؤں نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھا تھا، چنانچہ 2005ء میں پاکستان ہندو کونسل نے اپنے طور پر سندھ اور بلوچستان میں مردم شماری کی جس کے نتائج یکسر مختلف تھے۔‘‘
پاکستانی ہندوؤں کو اس وقت چند اہم مسائل درپیش ہیں جن میں جبری تبدیلئ مذہب، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کے مسائل شامل ہیں، علاوہ ازیں ہندوؤں میں موجود ذات پات کا مسئلہ بھی ان کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد بھیل،بالمیکی اور دیگر ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے جنہیں عرفِ عام میں دلت یا ’اچھوت‘ تصور کیا جاتا ہے۔ برہمن اور اعلیٰ ذاتوں کے ہندو نچلی ذاتوں کے ہندوؤں میں شادی نہیں کرتے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُن کا آپس میں میل جول نہیں ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی رہنماء پنڈت راجیش کمار کہتے ہیں ’’ بھگوان نے ذات پات کی تقسیم نہیں بنائی بلکہ یہ ہماری اپنی بنائی ہوئی ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی عقیدے کے مطابق بھگوان نے سب کو یکساں پیدا کیا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ ذات پات کے اس نظام کے باعث مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور بہت سے دِلت اپنا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سب کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔‘‘ پنڈت راجیش کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ برہمن ایک ذات نہیں بلکہ کوئی بھی مذہبی پیشوا برہمن کہلائے گا جب کہ سماجی طور پر ناپسندیدہ تصور کیے جانے والے کام کرنے والے ہندو دِلت کہلائیں گے۔ ‘‘پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش کمار کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی ہندوؤں میں ذات پات کا مسئلہ موجود ہے ، جیسا کہ اعلیٰ ذاتوں کے ہندوؤں کی اسمبلیوں تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے جب کہ نچلی ذات کے ہندو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’نچلی ذات کے ہندوؤں میں تبدیلئ مذہب کا عمل جاری ہے اور انہوں نے اسلام یا مسیحیت اختیار کی ہے۔ تبدیلئ مذہب کا یہ عمل گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اور اب تک ہزاروں خاندانوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے لیکن ہم اس کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ہم جبری تبدیلئ مذہب کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘

چند ماہ قبل میرپور ماتھیلو کی ایک لڑکی رنکل کماری کے اغواء اور پھر زبردستی تبدیلئ مذہب یا پسند کی شادی کے حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی، اس دوران پیپلز پارٹی کے ایک رُکن قومی اسمبلی میاں عبدالحق کا نام بہت زیادہ نمایاں ہوا جن پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے رنکل کو زبردستی مسلمان کیا تھا۔ بعدازاں یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت رہا جہاں رنکل نے یہ کہا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے لیکن اُس کے ورثا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ میاں عبدالحق المعروف میاں مٹھو کے خلاف انکوائری کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس حوالے سے جب ہم نے مذکورہ رکنِ قومی اسمبلی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا: ’’ میرے اوپر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ اگر کوئی شخص میرے پاس آئے اور وہ یہ کہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے اور میں اسے مسلمان نہ کروں تو پھر میں اسلام سے خارج تصور ہوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ میرے گھر میں دو ہندو خواتین کام کرتی ہیں، اگر میں نے زبردستی ہی مسلمان کرنا ہوتا تو پہلے میں انہیں مسلمان کرتا۔ وہ مسلمان کیوں کر نہیں ہوئیں؟ ‘‘ انہوں نے یہ تاثر رَد کیا کہ سندھ میں کہیں پر بھی جبری تبدیلئ مذہب کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ رنکل کماری کے ورثا نے انہیں دو کروڑ روپے کی پیش کش کی تھی کہ ہم اسے اس کے والدین کے ہمراہ جانے دیں لیکن جب وہ لڑکی ہی اسلام قبول کرنا چاہتی تھی تو اس صورت میں ہم اسے اس کے والدین کے ساتھ کیسے بھیج سکتے تھے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارے پاس جب بھی ایسا کوئی کیس آتا ہے تو ہم پہلے والدین کو بلاتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں۔‘‘ انہوں نے اس تاثر کو بھی رَد کیا کہ محض لڑکیاں ہی مسلمان ہو رہی ہیں بلکہ انہوں نے کہا کہ’’لڑکے اور حتیٰ کہ پورے پورے خاندان مسلمان ہو رہے ہیں۔‘‘ اس بارے میں بات کرتے ہوئے جامعہ نعیمیہ کے مہتمم مفتی راغب نعیمی نے واضح طو رپر کہا کہ ’’اسلام میں زبردستی مسلمان کرنے کی اجازت نہیں ہے اور دنیا میں اسلام مسلمانوں کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے باعث پھیلا ہے لیکن اگر کہیں پر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ قابلِ مذمت ہے۔‘‘
ذات پات کی تفریق کے باعث اس دھرتی پر بسنے والے ہندوؤں کی اکثریت مسائل کا شکار ہے۔ بالمیکی ہندوؤں کی نمائندہ تنظیم گُرمکھ سبھا کے صدر راجیو ٹھاکر کے مطابق ’’ بالمیکی ہندوؤں کو اس وقت درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مندروں پر قبضہ ہے جب کہ ہمیں فنڈز بھی نہیں دیئے جا رہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ قومی و صوبائی اسمبلی میں ہمارا کوئی نمائندہ نہیں ہے ۔ راجیو ٹھاکر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں بسنے والے 40فیصد ہندو بالمیکی ہیں۔‘‘ گُرمکھ سبھا کے مطابق نوشہرہ میں اس وقت 3سو ہندو خاندان آباد ہیں جب کہ پنڈی میں 30، پشاور میں 700اور کوہاٹ میں بالمیکی ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
تقسیمِ ہند کے وقت غربت کے باعث بالمیکی ہندوؤں نے ہجرت نہیں کی اور وہ اس دھرتی پر ہی قیام پذیر رہے۔ انہوں نے خود کو ذلتوں کی گہرائی سے نکال کر تعلیم حاصل کی اور یوں اپنا سماجی مرتبہ بہتر کیا۔ راجیو ٹھاکر کہتے ہیں کہ ’’ بالمیکی ہندوؤں کی پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے کیونکہ وہ اعلیٰ ذاتوں سے تعلق نہیں رکھتے لیکن اب بالمیکی ہندوؤں نے اپنے سماجی حالات بہتر بنائے ہیں، جیسا کہ جے جے وشنو ایڈووکیٹ نے اقوامِ متحدہ میں بالمیکی ہندوؤں کی نمائندگی کی ۔‘‘راجیو ٹھاکر نے بالمیکی ہندوؤں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ ملک کے شمالی علاقوں میں مذہبی شدت پسندی میں اضافے کے باعث ہمیں اپنی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ بالمیکی ہندوؤں میں بھی جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات ہورہے ہیں لیکن ان کی شرح کم ہے ۔‘‘ ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم پر بات کرتے ہوئے راجیو ٹھاکر کا کہنا تھا کہ’’ ہندوستان میں شاید ذات پات کے مسئلے کی نوعیت زیادہ شدید ہو لیکن پاکستان میں اب ایسا نہیں ہے اور ذات پات کی تفریق تقریباًختم ہوگئی ہے۔‘‘کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار پاکستان ہندو سیوا کے سربراہ سنجیش دھانیجہ نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستانی ہندوؤں میں اب ذات پات کی تقریق تقریباً ختم ہوگئی ہے اور کراچی میں بالکل بھی نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا: میرا خیال ہے کہ 25فی صد سے زائد ہندو ذات پات کی اس تقسیم پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘ البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اگر ذات پات کی تفریق نہ ہو اور ہندوؤں میں آپس میں شادیاں ہونے لگیں تو جبری تبدیلئ مذہب کے واقعات یا ملک میں ہندوؤں کے حوالے سے پائے جانے والے تعصب میں کمی آسکتی ہے۔
ماہرین سماجیات اس اَمر پر متفق ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کوملک کی دوسری اقلیتوں کی طرح کئی ایک مسائل کا سامنا ہے لیکن معاشرتی سطح پر ان کے بارے میں پائی جانے والی نفرت کے باعث ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تین سالہ بچی ایمانے ملک کی ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث ہلاکت پر ایک ہندو ڈاکٹر سندیپ کمار کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ہندو ڈاکٹر ہے، چنانچہ اُس نے بھارت راہِ فرار اختیار کر لی ہوگی۔‘‘سابق چیف جسٹس کے اپنے ہی ہم وطن کے حوالے سے یہ نفرت انگیز ریمارکس میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کرسکے لیکن ہندو دشمنی میں وہ ایک قدم مزید آگے بڑھے اور انہوں نے ایک اور موقع پر کہا’’پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والا پیسہ ہندو دے رہے ہیں۔‘‘ جس پر قومی اسمبلی میں خاصا احتجاج بھی کیا گیا۔ ہندو اقلیت کے حوالے سے اس قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار انہیں سماجی طور پر تنہائی کا شکار کرنے کاباعث بنتا ہے۔ بہت سے ماہرین ہندوؤں کے بارے میں پائی جانے والی اس نفرت کا سبب پاکستان کے نصابِ تعلیم کو بھی قرار دیتے ہیں جس میں ہندوؤں کے حوالے سے نفرت انگیز اسباق شامل کیے گئے ہیں۔
ملک کی ہندو اقلیت اس وقت کئی محاذوں پر مشکلات سے دوچار ہے۔ پریتم داس ایک قابل ڈاکٹر ہیں۔ وہ کراچی کے ایک مقامی ہسپتال میں ملازمت کرنے کے علاوہ اپنا نجی کلینک بھی چلاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باعث پاکستان چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ سندھ کے شمالی شہر کشمور سے کراچی آئے تھے اور اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے اَباؤ اجداد صدیوں تک اس دھرتی پر رہے، حتیٰ کہ جب 1947ء میں تقسیم ہوئی ، اس وقت بھی ان کے بڑوں نے سندھ دھرتی میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔ ان کے دادا بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ پر یقین رکھتے تھے کہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گالیکن آزادی کے 65برس گزر جانے کے بعد اب ان کے پوتے یہ محسوس کرتے ہیں کہ کشمور میں زندگی ناقابلِ یقین حد تک مشکل ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر پریتم کہتے ہیں کہ ’’ زندگی دن بدن مشکل ہوتی جار ہی ہے۔‘‘انہوں نے بتایا کہ ’’ اُن کے دو چچاؤں کو تاوان کے لیے اغواء کیا گیا جب کہ اثر و رسوخ کے حامل ہندو خاندان مستقل طور پر خطرے کی زد پر ہیں۔‘‘وہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی والدہ کے انکار کے باعث اب تک ہجرت نہیں کرسکے۔ لیکن ڈاکٹر پریتم داس تنہا نہیں ہیں، اُن کی طرح کتنے ہی ہندو خاندان ہجرت کے لیے تیار ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت کرنے سے ہنوز قاصر ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اس صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ اور بلوچستان سے مذہبی اقلیتوں کا انخلاء ریاست کی اپنے شہریوں کو تشدد سے بچانے کے ضمن میں نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔
1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے موقع پر بھی ہندوؤں کی بڑی تعداد نے ہندوستان ہجرت کی تھی لیکن بعدازاں رواں ہزاریے کے اوائل میں وہ وطن واپس آگئے۔ مسلم لیگ (ق) کے رُکنِ قومی اسمبلی کشن چند پروانی کا کہنا تھاکہ’’ درحقیقت ہندوؤں کے مسائل کو حل کرنے والا کوئی نہیں ہے جب نابالغ لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جائے گا یا ہندوؤں کی جائیدادوں پر قبضہ ہوگا تو پھر لوگ بہتر متبادل کی تلاش کریں گے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’وہ اس مسئلہ پر چار برس تک قومی اسمبلی میں آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن کبھی اس معاملے کو سنجیدہ تصور نہیں کیا گیا۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ اگر ہندوؤں کے نمائندے منتخب ہوکر آئیں تو وہ اپنے ہم مذہبوں کے بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں کیونکہ جب کوئی نمائندہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوا ہوگا تو اس کا لوگوں کے ساتھ رابطہ ہوگا اور وہ ان کے لیے آواز بلند کرے گا۔‘‘ کچھ ایسا ہی استدلال پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش کمار بھی پیش کرتے ہیں، اُن کے بقول ’’ پارلیمان کے ہندو اراکین منتخب ہو کر اسمبلیوں تک نہیں پہنچے بلکہ انہیں تعینات کیا گیا ہے، اگر پارلیمان میں ہمارے منتخب نمائندے ہوتے تو وہ ہمارے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتے تھے۔‘‘
پاکستان میں ہندوؤں کی بیرونِ ملک اور خاص طو رپر بھارت ہجرت کا سلسلہ حال ہی میں شروع نہیں ہوا بلکہ یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد بھی سندھ اور دیگر علاقوں سے ہندوؤں نے ہجرت کی تھی۔ایسوسی ایشن آف پاکستانی رفیوجیز(انڈیا)کے اعداد و شمار کے مطابق 1950ء کی دہائی میں ہندوؤں نے پاکستان سے بڑے پیمانے پر ہجرت کی، بعدازاں 65ء اور 71ء کی جنگوں کے بعد تقریباً 80ہزار ہندوؤں نے سرحد عبور کی اور اس کے بعد سے نقل مکانی کا یہ سلسلہ جاری ہے، اگرچہ اب اس کی شدت میں کمی آئی ہے کیونکہ اب سرحد پر باڑ لگا دی گئی ہے جس کے باعث اب واہگہ کے راستے بھارت جانا پڑتا ہے ، علاوہ ازیں ویزے کا حصول بھی آسان نہیں ہے۔‘‘ ایسوسی ایشن آف پاکستانی رفیوجیز کے کنوینئر ہندو سنگھ سودھا کہتے ہیں کہ’’ قبل ازیں پاکستان کے سرحدی ضلع تھرپارکر سے ہجرت عمل میں آئی تھی لیکن اب بالائی سندھ اور جنوبی پنجاب سے بھی ہندو ہجرت کر رہے ہیں اور 1992ء میں بابری مسجد کے سانحہ کے بعد سے اب تک تقریباً17ہزار ہندوؤں نے بھارت نقل مکانی کی ہے۔ ‘‘ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش اس سے یکسر مختلف دعویٰ کرتے ہیں : ’’1992ء میں بھارت ہجرت کرنے والے بہت سے خاندان 2000ء کے اوائل میں پاکستان واپس آگئے تھے۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق:’’ جبری تبدیلئ مذہب کے بہت سے واقعات سامئے نہیں آتے ، ہر ماہ تقریباً ایسے 20واقعات رونما ہو رہے ہیں۔‘‘ ہندو رہنماؤں نے بھی اس کی تعداد کچھ اتنی ہی بتائی ہے جب کہ مختلف ہندو تنظیمیں ہجرت کے حوالے سے مختلف دعوے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ پاکستان ہندو سیوا کے سربراہ سنجیش دھانیجہ کہتے ہیں کہ ’’ گزشتہ برس 37خاندانوں نے بیرونِ ملک ہجرت کی تھی جب کہ اب اس تعداد میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوا ہے اور ہر ماہ تقریباً40سے 60خاندان بیرونِ ملک ہجرت کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں جبری تبدیلئ مذہب اور اغواء برائے تاوان کے واقعات شامل ہیں۔‘‘پاکستان منیارٹی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران اڑھائی ہزار ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنایا گیا ہے۔
بی بی سی اُردو نے اس بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا :’’پاکستان میں اور پھر سندھ میں ہندو ہونا اور ہوکر رہنا کوئی آسان زندگی نہیں۔ بچپن میں ہوش سنبھالنے سے لے کر زندگی کی آخری گھڑیوں تک ہندو کو پاکستان میں رہنے کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔‘‘انسانی حقوق کے کارکن وجاہت مسعود اس تاثر کی توثیق کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ امتیازی قوانین و سیاسی حرکیات کے باعث مساوات ممکن نہیں۔ ملک کا آئینی، قانونی اور سیاسی ڈھانچہ ایسا ہے جس کے باعث کوئی شہری محفوظ نہیں۔ سب سے پہلے یہودی گئے، پھر اینگلو انڈین چلے گئے اور اب ہندو ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جبری تبدیلئ مذہب کے درست اعداد و شمار کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن یہ تعداد سینکڑوں میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں ریاستی رٹ نہیں ہے۔ قبل ازیں پنجاب سے بڑے پیمانے پر ہندوؤں نے نقل مکانی کی لیکن ہم نے اسے اہم تصور نہیں کیا اور یکسر نظرانداز کر دیا۔‘‘
ایک وہ دور تھا جب ہندو خاندان ڈیرہ بگٹی میں پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن جب بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں میں شدت آئی تو بہت سے ہندو خاندانوں نے سندھ کی جانب نقل مکانی کی۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران بلوچستان کے مختلف حصوں سے 300افراد کو اغواء کیا گیا جن میں سے 50سے زائد ہندو اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ بلوچستان میں ہندوؤں کی آبادی محض 30ہزار تھی جس کے باعث اغواء کی ان وارداتوں سے ہندو اقلیت میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق بلوچستان سے 150سے زائد ہندو خاندانوں نے کینیڈا اور بھارت نقل مکانی کی۔ یہ وہ بلوچستان ہے جو ہندو اقلیت کے لیے جنت تصور ہوتا تھا، اب شاید ہی بلوچستان میں کوئی ہند وخاندان بچا ہو۔ ڈاکٹر رامیش کمار کا کہنا ہے کہ ’’سندھ اور بلوچستان میں بسنے والے ہندو اپنے سرداروں سے منسوب تھے اور یہ سردار ہی ان کا تحفظ یقینی بناتے تھے لیکن صوبے میں جرائم بڑھنے کے باعث اب حالات پہلے سے نہیں رہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ ہم رات گیارہ بجے نکلتے اور صبح چار بجے بلوچستان میں یاترا کے لیے پہنچ جاتے تھے ، لیکن کبھی کوئی واردات نہیں ہوتی تھی۔‘‘
بھارت پاکستان میں اقلیتوں کی حالتِ زار پر بارہا تشویش کا اظہار کر چکا ہے لیکن سفارتی عوامل کے باعث ہمسایہ ملک نے کبھی کھل کر اپنا مؤقف نہیں ظاہر نہیں کیا کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، تاہم بھارت کی قانون ساز اسمبلی میں اس موضوع پر وقتا فوقتا بحث ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ رواں برس مئی کے دوسرے ہفتے میں ہمسایہ ملک کے وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ’’یہ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے، خاص طو رپر وہ شہری جو اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کی رہنماء ماروی میمن اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں’’ پاکستان کی ہندو کمیونٹی پُرامن ہے…کیا یہ ایک گناہ ہے ؟ وہ ایک ایسی دھرتی پر اقلیت میں ہیں جہاں قانون کی عملداری نہیں ہے۔ اغواء کی وارداتوں کو روکنے کے لیے صرف سیاسی عزم کی ضرورت ہے، ایسے واقعات رُک جائیں گے اور ہندو بھارت کا رُخ کرنا چھوڑ دیں گے۔‘‘ لیکن کیا کِیا جائے کہ قائداعظم کا پاکستان کو ایک جدید جمہوری اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
ہندو اقلیت کے بنیادی مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ملک کی آزادی کے 65برس گزرنے کے باوجود ہندو فیملی لاز تشکیل نہیں پاسکے۔ ہندو رہنماؤں کی جانب سے اسے بھی ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلئ مذہب کی ایک اہم وجہ تصور کیا جا رہا ہے۔ اقلیتوں کو جبری طور پر مسلمان بنانے کی روک تھام اور ان کی شادیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے قوانین کے مسودے قومی اسمبلی میں پیش کیے جاچکے ہیں لیکن گزشتہ کئی برسوں سے مختلف وجوہات کے باعث یہ منظور نہیں ہوسکے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اقلیتوں کی وزارت صوبوں کو منتقل ہوگئی تھی جس کے بعد قومی ہم آہنگی کی نئی وزارت تشکیل دی گئی اور یہ دونوں مسودے ایک پار پھر زیرِ بحث آئے۔ مجوزہ قانون میں سفارش کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے جس میں وکلاء، انسانی حقوق و اقلیتی کارکن اور متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو شامل کیا جائے اور جبری تبدیلئ مذہب کا شکار ہونے والی خاتون کو 21روز تک تنہائی میں رکھنے کے بعد یہ کمیشن اس کا بیان ریکارڈ کرے اور اگر معاملہ ثابت ہوجائے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ہندو سدھار سبھا پاکستان کے سربراہ عائلی قوانین کے نفاذ کو ہندو اقلیت کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ بھارت میں رائج عائلی قوانین کا پاکستان میں نفاذ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں زمینداروں کے کھیتوں پر کام کرنے والے ہندو مزارع اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں ہی شادی کر دیتے ہیں لیکن ان کے پاس ایسی کوئی دستاویز نہیں ہوتی جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرسکیں کہ اُن کی بیٹی شادی شدہ ہے کیوں کہ ان کی شادی سرکاری طو رپر رجسٹر نہیں ہوتی ۔‘‘ انہوں نے کہا’’ عائلی قوانین نہ ہونے کے باعث جائیداد اور طلاق وغیرہ کے امور میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ کم عمری میں ہونے والی شادیوں میں جب لڑکی بالغ ہوتی ہے تو وہ اپنے خاوند کے ساتھ رہنے سے انکار کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شناختی کارڈ بنوانے کے حوالے سے بھی خاصی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ تاہے۔‘‘
دوسری جانب بھارت میں پناہ گزینوں کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے اوریہ ہمسایہ ممالک سے نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ عارضی بندوبست کے تحت نپٹتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت جانے والے ہزاروں پاکستانی ہندوؤں کو ہنوز بھارتی شہریت نہیں مل سکی۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’’ شاید بھارت پاکستانی ہندو پناہ گزینوں کی یہ حیثیت زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رکھ سکے کیونکہ اب پاکستانی ہندوؤں کی بھارت نقل مکانی کے سلسلہ میں شدت آئی ہے جن کا مؤقف ہے کہ انہیں سندھ میں مسلمانوں کے مختلف بنیاد پرست گروہوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستان کے ہندوؤں کو ایک اور اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان کی مقدس عبادت گاہوں، زرعی زمینوں اور کاروباری مراکز پرغیر قانونی طور پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کارروائی نہ کیے جانے کے باعث ہندوؤں کی مقدس عبادت گاہوں کی حالتِ زار انتہائی خراب ہے جب کہ بہت سے مندروں کو سکولوں، ہوٹلوں اور کاروباری مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہندو وقف املاک بورڈ نے اپنی ایک رپورٹ میںیہ انکشاف کیا تھا کہ ’’ ہندوؤں کی تقریباً ایک لاکھ 35ہزار ایکڑ اراضی اس کے زیرِکنٹرول ہے جس میں سے ایک لاکھ 25ہزار ایکڑ زرخیز اور باقی بنجر ہے۔‘‘ پاکستانی ہندو یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ ان کی عبادت گاہوں کو غیر قانونی طو رپر استعمال کیا جارہا ہے ، جیسا کہ ایک قبضہ گروپ نے ایک سات سو سال پرانے مندر پر قبضہ کرنے کے بعد اسے ہوٹل کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رامیش کمار ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی جائیدادوں کو فروخت کیا جارہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ نہرو اکارڈ کے تحت ہندو وقف املاک بورڈ کا سربراہ ایک ہندو کو ہونا چاہیے تھا، تاکہ وہ ہماری جائیدادوں اور عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنا سکتا۔‘‘
اگر یہ حالات برقرار رہتے ہیں تو آنے والے دنوں میں ہندو اقلیت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ذات پات کی تفریق کے باعث وہ خود کو ایک سیاسی قوت کے طو رپر پیش کرنے میں ناکام رہی ہے، جیسا کہ امرناتھ رندھاوا کہتے ہیں:’’ذات پات کی تفریق کے باعث ہندوبہت زیادہ تقسیم کا شکار ہیں، چنانچہ وہ سیاسی طو رپر بھی طاقت حاصل نہیں کرسکے جس کے باعث آج انہیں اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کے جھنڈے میں رنگوں کا چناؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ملک کی ایک چوتھائی آبادی اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن سرکاری طو رپر اب ملک کی محض تین فی صد آبادی ہی اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھتی ہے اور اگر ہندوؤں کی بیرونِ ملک نقل مکانی یوں ہی جاری رہتی ہے تو پھر حکامِ بالا کو پاکستانی جھنڈے کے رنگوں کے چناؤ کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
جیسا کہ پنجابی کے بے مثل شاعر اُستاد دامن نے تقسیم کے موقع پر کہا تھا:
لالی اکھیاں دی ایہو پئی دسدی اے
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں
لیکن شاید یہ آنسو ہماری آنکھوں میں تھم گئے ہیں۔ ہم آج تقسیم کے 65برس گزر جانے کے باوجود ایک قوم بننے کی لاحاصل کوشش کر رہے ہیں کیونکہ آمریت اور نام نہاد جمہوریتوں کے ادوار میں عوامی حقوق نظرانداز کیے جاتے رہے لیکن ایک قوم کا نعرہ کچھ یوں بلند کیاگیا کہ یہ سب حقیقتوں پر حاوی آگیا اور ہم یہ فراموش کر بیٹھے کہ ایک قوم بننے کے لیے ملک میں بسنے والے تمام شہریوں میں مساوات انتہائی اہم ہے جسے قائم کرنے میں ہمارے حکمران بُری طرح ناکام رہے ہیں۔

Source: Pagal Khana

Comments

comments