(کرپٹ” زرداری اورصادق وامین فرشتوں کی اصل کہانی (5″


پاکستانی آزادعدلیہ کی طرح سوئس عدالت کو “شریف” کرنے کی کاوِش

تحریر: امام بخش

([email protected])

قارئین گرامی! میں نے پچھلی  قِسط میں “صادق و امین فرشتوں”  یعنی شریفوں اور “آزاد”  ججوں کی سوئس کیس کے بارے میں “کرپٹ” آصف علی زرداری کے خلاف  سپریم کورٹ آف پاکستان میں ثابت شدہ واردات  کو پوری طرح کھول کر بیان کیا تھا۔  آج میں آپ کواِسی کیس کے بارے میں شریفوں کی ایک اور کاوِش کے بارے میں بتاؤں گا کہ کس طرح وہ پاکستان کی  عدالتوں کے بعدسوئٹزرلینڈ کی عدالتوں  کوبھی ”شریف” کرنے  چلے تھے۔

13 فروری 2012ء  کو دنیا ٹی وی پرایک صحافی ارشد شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف سوئس کیس کے بارے میں ایک سنسنی خیز پروگرام کیا تھا۔ جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ کس طرح نواز شریف کےدوسرے  دور ِحکومت میں سوئٹزرلینڈ میں پاکستانی سفیر ایس ایم انعام اللہ اور پاکستانی حکومت کے وکیل جیکؤس پاتھن کی اُس جج ڈینیل ڈیوا ؤ سے 25 مارچ 1998ء کو  جنیوا میں انتہائی خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔ جو سوئس کیس کی تفتیش کر رہا تھا اور کس طرح انھوں نے جج(ڈینیل ڈیوا ؤ) پربہت زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ ہر صورت میں بے نظیر بھٹو ،آصف علی زرداری اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف کارروائی کی جائے۔  ارشد شریف کے پاس اس انتہائی خفیہ ملاقات کے خفیہ مِنٹس بھی تھے۔ ارشد شریف نے بتایا کہ اس میٹنگ سے متعلقہ سمری نوٹس سے پتہ چلتا ہے کہ  جج بہت زیادہ خوفزدہ تھا کہ  اگر اس خفیہ ملاقات کا  علم میڈیا کو ہوگیا تواس کے لیے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ سوئس جج نے یہ بھی کہا اس کیس کے حوالے سے شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے اور وہ یہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ وہ ایسی فرد ِجُرم لگا دے جس کے بارے میں وہ ابھی مطمئن نہیں ہے اور نہ ہی جھوٹے الزمات کی بنیاد پر نامزدملزمان بے نظیر بھٹو، زرداری، بیگم بھٹو اور دیگر کو منی لانڈرنگ کے الزمات پر سزا دی جا سکتی ہے۔

ارشد شریف  کے بقول انھوں نے اُس وقت کے پاکستانی حکومت کے وکیل جیکؤس پاتھن سےفون پر جینوا  سے کنفرم کیا کہ واقعی یہ خفیہ میٹنگ ہوئی، جس میں یہ سب گفتگو کی گئی تھی بلکہ اس کے علاوہ اور بھی تفتیشی جج سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں۔ کیونکہ پاکستانی سفیر ایس ایم انعام اللہ کا کہنا تھا کہ ان پر سیف الرحمان کا پریشر تھا کہ وہ سوئس حکام اور ججوں سے ملاقاتیں کریں۔سوئس کیس کا  پاکستانی وکیل جیکؤس پاتھن اس بات پر حیران تھاکہ یہ ملاقات تو خفیہ رکھی جانی تھی اور اس رپورٹر (ارشد شریف)  کو کیسے اس کا علم ہو گیا۔ پروگرام کے دوران ارشد شریف  کی جیکؤس پاتھن سے ٹیلیفونک بات چیت کی ریکارڈنگ بھی سنائی گئی۔

جیکؤس پاتھن نے مزید یہ بھی کہا کہ پاکستانی سپریم کورٹ کا جو مرضی فیصلہ آئے مگر سوئس حکام، قوانین اور انٹرنیشنل لاء اس  بات کی اجازت کی نہیں دیتے  کہ صدر مملکت کے خلاف کیسز کو دوبارہ کھولاجا سکے۔

ارشد شریف نے اپنے پروگرام میں ایس جی ایس کوٹیکنا کیس کو ختم کرنے کےسوئس عدالت کے آرڈرز کے اہم نکات کو بھی ڈِسکس کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایس جی ایس کوٹیکنا سے کنٹریکٹ کی تفصیلی ٹرمز  نومبر 1993ء سے پہلےفائنل ہوئیں جب نوازشریف کی حکومت تھی۔ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بعد میں آئی۔دوسر ی بات یہ کہ سوئس عدالت نے اپنے حتمی فیصلے میں لکھا ہے کہ ملک قیوم کا خط  (سندھ ہائی کورٹ کے حکم سے) آتا یا نہ آتا ہم اس کے باوجود گواہوں کے بیانات اور غیر ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں اس کیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔  سوئس عدالت کے فیصلےکے بعد پراسیکیوٹر نےلکھا تھا کہ دس دن کے اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل فائل کی جا سکتی ہے اس کے بعد یہ کیس بند تصور کیا جائیگا۔

قارئین گرامی! ارشد شریف نے جب اپنا مندرجہ بالا پروگرام پیش کیا تھا  تو اس وقت آزاد عدلیہ میں سوئیس کیس کی سماعت نصف النہار پر تھی۔ یہ کوئی عام پروگرام نہیں تھا۔ مگر صادق و امین  آزاد عدلیہ کی طرف سےاس چشم کشا پروگرام پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ حالانکہ چیف جسٹس کو “انصاف رسانی” کے لیےجب “آئینی” یوٹرن لینا ہو تو ایک  خاص مقصد کے تحت چھاپی گئی اخباری خبر کو عدالت میں منگوا کر با آواز بلند پڑھایا جاتا ہے۔ اوراگر”راست گو”  گواہ کی ضرورت پڑے تو عمر چیمہ کو عدالت میں بُلا لیا جاتا ہے۔ اور دوسری  طرف  ”شریف” اپنے پیشہ ورنقارچیوں سمیت اِس پروگرام پر خاموش رہے۔

یاد رہے کہ ایس جی ایس  اور کوٹیکنا نامی دونوں یورپی کمپنیاں جو  درآمد کردہ سامان کی مالیت طے کرنے اور اس حساب سے ٹیکس وصول کرنے کی سفارشات کا کام کرتی ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں  کے ساتھوزیراعظم کی حیثیت  سے نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت سے پہلے 1992ء میں تجارت کے عالمی معاہدےکے تحت دستخط کر چکے تھے  تاہم ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ سے وہ اسے ایوارڈ نہیں کر سکے تھے۔ اُس وقت کے چیف کسٹم کلکٹرخلیل احمدکے بقول نوازشریف کی حکومت نے ایس جی ایس کو کہہ دیا تھا کہ وہ 16 اپریل 1992ء سے اپنا کام شروع کر دیں۔ WTO کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو  نے  1994ء میں اِس بنیاد پر دونوں کمپنیوں کو پری شپمینٹ انسپیکشن کے(نوازشریف کے کیے ہوئے) کنٹریکٹ دیئےکیونکہ بعض پاکستانی درآمد کنندہ درآمد کردہ اشیاء پر ٹیکس سے بچنے کے لیے ان کی قیمتیں کم ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔

پاکستانی عوام حیران ہے کہ ایک منتخب وزیرِاعظم  کو غیر آئینی طور پر فارغ کرنے کے بعد اور  جھوٹا کیس بنانے کے واضح شواہدکے باوجود سوئس کیس کو چلائے رکھنےمیں آزاد عدلیہ کے مزید کیا  عزائم ہیں۔۔۔۔؟؟؟  کیا خود ستائی کی ماری ہوئی آزاد عدلیہ  نے اخباری ہیڈنگز بنانے  اور کھڑکی توڑ ” خط کہانی”  فلم  چلانے کے علاوہ راولپنڈی کی احتساب عدالت2  کے فیصلے سمیت اٹھارہ گواہوں کے بیانات  اورمتعلقہ ریکارڈ  کودرخورِ اِعتنا سمجھا ہے؟ جس میں حقائق چیخ چیخ کر سچ بتا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ اِسی کیس میں 15 اپریل 1999ء کو ججوں اور شریفوں نے   اپنی متعفن ملی بھگت سےمحترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری  کو سزا دِلوائی تھی (اگر ثبوت ٹھوس ہوتے تو ملی بھگت کی کیا ضرورت تھی؟)  اور اس کے بعد یہ مِلی بھگت ثابت ہونے پر آزاد عدلیہ نے خود 6 اپریل2001ء کو15 اپریل 1999ء کو سنائی جانے والی سزا کڑوی گولی نگلتے ہوئے کالعدم قراردی تھی۔

اب آزاد عدلیہ نے 7 نومبر2012ء کو  سوئس حکام کو خط بھیجواکرعوام کو تاثر دیا ہے جیسے وہ راولپنڈی کی احتساب عدالت2 کے30 جولائی 2011ء کو  دیئے جانے والے فیصلےکو بالکل پسِ پردہ ڈال رہی ہے۔ جس میں عدالت نے ایس جی ایس  اور کوٹیکنا کیس خارج کرتے ہوئے واضح طور پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ عدالت کوبے نظیر بھٹو یا آصف زرداری کے خلاف اس کنٹریکٹ میں کرپشن یا کمیشن لینے کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا  بلکہ اس کنٹریکٹ سے پاکستان کو سالانہ58ارب روپے کا فائدہ پہنچا تھا۔ جس کی تصدیق ایک آڈٹ فرم بھی کر چکی ہے۔

سوئس کیس کے اہم گواہ اوربرسوں  انکوائری  کرنے والے افسر طارق پرویز کو  راولپنڈی کی احتساب عدالت2میں تسلیم کرنا پڑا کہ یہ مقدمہ نواز شریف  کے دوسرے دور میں سیف الرحمن نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بنا یا تھا۔ طارق پرویز کو یہ بھی ماننا پڑا کہ  تحقیقات کے دوران ریفرنس میں جمع کرائی گئیدستاویزات کی قانون میں دئیے گئے طریقہ کار کے مطابق تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ اِس کے سینیئرز کی طرف سے فوٹو کاپیاں دی گئی تھیں۔ جن پر اوریجنل دستخط اور سٹیمپس موجود نہیں تھیں اور اسے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے دستخط کر کے ان کی تصدیق کر دے جو اس نے کر دی تھی۔  طارق پرویز نے یہ بھی بتایا کہ اس ریفرنس میں کوئی ایک بھی ایسی دستاویز نہیں لگائی گئی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا کہ جینوا میں کسی عدالت کے سامنے یہ کیس چلا تھا۔ سوئس مجسٹریٹ کے سامنے محض تحقیق کے لئے کاروائی ہوئی تھی جس کی کوئی عدالتی اہمیت نہیں تھی اور اسے بھی بعد میں ختم کر دیا گیاتھا۔ طارق پرویز کے بقول مجسڑیٹ کے سامنے بھی تحقیقات اس خط کے بعد ہوئیں تھیں جو اٹارنی جنرل محمد فاروق نے سوئس حکومت کو لکھا تھا اور ان تحقیقات کو بھی بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔ طارق نے یہ بھی عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ اس انکوائری کے دوران اس کے سامنے کوئی ایسا ثبوت نہیں مِلا جس سے ثابت ہوتا کہ ملزمان نے کمیشن کھایا تھا، منی لانڈرنگ کی تھی یا پھرکمپنی کو غیر قانونی مراعات دی تھیں۔

ایک دوسرے گواہ کسٹم کلکٹرخلیل احمدنے راولپنڈی کی احتساب عدالت2میں ہی بیان دیا تھا کہ اسے جنیوا میں سوئس مجسٹریٹ کی عدالت میں منی لانڈرنگ کے کیس سلسلے میں پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا۔ جہاں اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بیان کے بعد یہ مقدمہ وہاں بھی ختم کر دیا گیا تھا کیونکہ سوئس مجسٹریٹ کی رپورٹ کے بعد جینوا کے اٹارنی جنرل نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس مقدمے کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا کیونکہ اس میں منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا-

کیا مندرجہ بالا حقیقت”کرپٹ” زرداری  کے مخالف  ”معصوم اور محبِ وطن” سیاست دانوں  سے بھی چھپی ہوئی ہے؟ ان “صادق و امین فرشتوں”  نے “گناہ گار” آصف علی زرداری  پر شدیدسنگباری  کر کے اپنا اولین  مذہبی اور معاشرتی فریضہ ادا کیا ہے۔  خاص طور پر پاکستانی عدلیہ کو “شریف “بنانے کے بعد سوئس عدالت کو ” شریف” بنانے کی کاوِش کرنے والے مکاروں کی دیدہ دلیری  حیرت انگیز  ہے۔ ان کے متوالوں کی نظر میں شاید خود کرتوت فرماکر اور اوپر سے  شور  کرکے سچے، غیرت مند اور محبِ وطن لیڈروں کی اعلیٰ  نشانیوں میں ایک نشانی ہوتی ہے۔

گوئبلز کےسچے پیروکار پاکستانی میڈیا کے بارے میں آگے جا کر میں تفصیلاً لِکھوں گا۔ مگر “کرپٹ”   آصف علی زرداری کے بارے میں  پاکستانی میڈیا کی”راست بازی اورغیرجانبداری” کی ایک جھلک دِکھاتا چلوں۔پاکستانی عدالت  کے  30 جولائی 2011ء کو  دیئے جانے والے فیصلے کی اتنی بڑی خبرکوپاکستانی اخبارات  نے کس طرح رپورٹ کیا؟ کتنی  بڑی ہیڈنگز تھیں؟  ہیڈنگزکے الفاظات کیا تھے؟ اور یہ خبر کن صفحات پر چھاپی گئی؟ قلم کا جہاد کرنے والوں نے کیسے عدالتی فیصلے کو اپنی خواہش کے مطابق  خبر میں ڈھال کر قارئین تک پہنچایا تھا؟  (انتہائی چھوٹے فونٹ میں روزنامہ جنگ کی خبر دیکھنے کے لائق ہے جو اُس نے صفحہ نمبر 40 پر چھاپی تھی۔)

خبروں کے لِنکس مندرجہ ذیل ہیں. تصدیق کے لیے خبروں کے اِمیجز کے آخر میں یوآرایل  موجود ہیں:

http://www.mochigate.com/?attachment_id=1235 (ایکسپریس)

http://www.mochigate.com/?attachment_id=1236 (نوائے وقت)

http://www.mochigate.com/?attachment_id=1237 (جنگ)

قارئین گرامی! یہ تھی تفصیل مشہورومعروف سوئس کیس جسے “کرپٹ”  زرداری کے خلاف  سب کیسز کا باپ کہاجا سکتا ہے۔  اب سوال اُٹھتا ہے کہ کیا  ”کرپٹ”  زرداری  کے خلاف دوسرے  کیسز میں”صادق و امین فرشتوں” کا طریقہ  واردات مختلف رہا ہو گا؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔(جاری ہے)

 پچھلی قسط

Comments

comments