ایران میں اہلسنت مسلمانوں کی صورت حال اور سپاہ صحابہ کا پراپیگنڈہ

نماز تراویح مسجد جامع مکی زاهدان

Takfiri Deobandis’ and Salafists’ lies and misleading propaganda about the plight of Sunni Muslims in Iran

ہم ایران کی حکومت پر کئی وجوہات کی بنیاد پر تنقید کرتے ہیں مثال کے طور پر انسانی حقوق کی پامالی ، صحافیوں اور سیاستدانوں پر بے جا پابندیاں ، اظہار رائے پر پا بندی ، ہولو کاسٹ میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی تکذیب وغیرہ

اصولی طور پر ہم سیکولر ریاست کے حامی ہیں یعنی کہ مذھب انسان کا پرائویٹ عمل ہے جس کا ریاست کے امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے

لیکن اس کے باوجود ضروری ہے کہ ایران کے خلاف ہونے والے ایسے غلط پراپیگنڈے کا بھی رد کیا جائے جس کو پھیلا کر سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی، طالبان اور دسورے تکفیری دیوبندی سلفی گروہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی رہ ہموار کرتے ہیں

تکفیری دہشت گرد اور ان کے سرپرست حکمران اور مولوی عام طور پر پاکستان، بحرین، سعودی عرب، عراق، شام اور دوسرے ممالک میں موجود شیعہ مسلمانوں کو ایرانی ایجنٹوں کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ایران کی حکومت کی ہر (اصلی یا جعلی) بری بات کو شیعہ مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں – اس طرز عمل کا مقصد شیعہ اور سنی مسلمانوں میں تفرقہ کی خلیج بڑھانا ہے – تکفیری دہشت گرد اس حربے سے اسلام کو مزید تقسیم اور کمزور کرنا چاہتے ہیں

ناصبی ملا مستقل طور پر ایران اور اہل تشیع کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کر کے اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اصل مقصد اسلامی امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ناصبی ملا جھوٹے الزامات لگا تا ہے کہ

ایران/تہران میں کوئی سنی مسجد نہیں ہے۔

پھر یہ الزام لگا تا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس تو سیٹیں ہیں، مگر اہلسنت کے لیے کوئی سیٹ نہیں ہے۔

ایرانی بلوچوں کے پاس اچھی جاب نہیں ہیں۔

ایران میں شیعہ سنی اتحاد اور بھائی چارے پر بہت زور دیا جاتا ہے حال ہی میں آیت الله خامنہ ای نے اصحاب اور ازواج رسول کی توہین کرنے کو ایک حرام عمل قراد دے کر شیطان لوگوں کا راستہ روک دیا ہے

ایرانی آئین کہتا ہے اگر کسی علاقے میں اہل تشیع کی اکثریت ہے، تو وہاں برادرانِ اہلسنت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ شیعہ امام کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اور اگر کسی علاقے میں برادران اہلسنت کی اکثریت ہے تو وہاں اہل تشیع پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت امام کے پیچھے نماز ادا کریں

فاسق فتنہ گر مسلسل یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ ایران میں اہلسنت کو مساجد کھولنے کی اجازت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ:

ایران میں مساجد کی کُل تعداد ستر ہزار ہے۔

ان میں سے دس ہزار مساجد اہلسنت کے پاس ہیں جس میں اہلسنت ائمہ امامت کرواتے ہیں۔

یعنی ہر پانچ سو اہلسنت برادران کے لیے اوسطاً ایک مسجد موجود ہے، جبکہ ہر گیارہ سو اہل تشیع کے لیے اوسطاً ایک مسجد ہے۔

ایران آئین کہتا ہے کہ کوئی مسجد شیعہ اور کوئی مسجد سنی نہیں ہوتی، بلکہ تمام مساجد فقط اللہ کا گھر ہیں۔ جن علاقوں میں برادرانِ اہلسنت کی اکثریت ہے، وہاں اہل تشیع کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر بیٹھ جائیں، بلکہ ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ جا کر اہلسنت امام کے پیچھے نماز ادا کریں (اور اسکا الٹ وہاں پر جہاں اہل تشیع اکثریت میں ہیں)۔

یہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ علاقوں میں کرپشن ہو اور اس اصول کی مکمل طور پر پیروی نہ کی جاتی ہو، مگر دنیا میں کونسی وہ جگہ ہے جو سو فیصد ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہو؟

عموم کی بات کرنی ہے تو وہ یہ ہے کہ اہل تشیع کو ہرگز کوئی پرابلم نہیں ہے کہ وہ جا کر اہلسنت امام کے پیچھے نماز ادا کریں۔ دیکھئیے یہ لنک۔
http://www.jahannews.com/vdcevx8e.jh8epi9bbj.html

مسلمانان ایران 7 درصد اهل سنت را کسر کنیم ،کل جمعیت شیعه بالغ ب
چهارشنبه ۲۱ اسفند ۱۳۸۷ ساعت ۱۲:۲۳

شیعیان ایران کمترین عبادتگاه را برای زیارت و برگزاری نمازو فرائض دینی در مقایسه با اهل سنت و اقلیت های مذهبی دارند.

به گزارش سرویس اجتماعی جهان نیوز ، نزدیک به 70 هزار مسجد در کشور وجود دارد که از این میزان 60هزار مسجد متعلق به شیعیان و 10 هزار مسجد نیز برای اهل سنت است.

این در حالی است که بنا بر گزارش های رسمی در مورد جمعیت کشور از 72 میلیون نفر ایرانی بیش از 99 درصد مسلمان و 7 درصد آنها نیز از اهل سنت هستند. بر این اساس نزدیک به 5 میلیون سنی در کشور وجود دارد که دارای 10 هزار مسجد هستند و به این ترتیب بطور متوسط برای هر 500 سنی یک مسجد ساخته شده است.

در همین حال اگر از جمعیت مسلمانان ایران 7 درصد اهل سنت را کسر کنیم ،کل جمعیت شیعه بالغ بر 66 میلیون نفر خواهد بود که بطور متوسط برای هر1100 شیعه یک مسجد وجود خواهد داشت.

این در حالی است که مطابق آمار غیر رسمی نزدیک به 40 درصد مساجد شیعیان بدون روحانی و امام جماعت است و بیش از نیمی از این مساجد به بازسازی اساسی نیاز دارد .

از طرفی جمعیت ارامنه کشور قریب به 150 هزار نفر است که دارای 300 کلیسا هستند که به این ترتیب برای هر 500 ارمنی یک کلیسا وجود دارد .

به نظر می رسد مسئولین فرهنگی کشور بایستی اهتمام جدی تری نسبت به ساخت مسجد و نگهداری آن در مناطق شیعه نشین کشور بالاخص مناطق محروم داشته باشند چراکه بی توجهی نسبت به آن می تواند آثار زیانباری داشته باشد

گواہی: ایرانی اہل تشیع حضرات کے برادران اہلسنت کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور وہ انہیں مسلمان بھائی کی نظر سے دیکھتے ہیں

اہل تشیع اور اہلسنت کے تعلقات کے متعلق امریکی مستند ادارے نے ایک سروے کروایا (لنک)۔ اسکے نتائج یہ ہیں:

http://www.terrorfreetomorrow.org/upimagestft/TFT%20Iran%20Survey%20Report%200609.pdf

Iranian Shiite Muslims think favorably of Sunni Muslims, Christians, Americans and others: For Iranian citizens of the Islamic Republic, 87 percent of who in our survey identified themselves as Shiite, views of both Sunni Muslims and Christians were overwhelmingly favorable—with only 8 percent voicing an unfavorable view of Sunnis and 11 percent of Christians. (Opinions on Jews were divided, though more are favorable than unfavorable.) Indeed, Iranian views of Sunnis and Christians, as well as non-Iranians generally, are quite accepting—more so than the corresponding views of their neighbors, such as in Saudi Arabia, according to our TFT survey there. Iranians clearly distinguish between countries and policies they do not like (US and Israel), and people they do like (Christians, Americans, Arabs, Sunni Muslims and Jews). Iranians are favorable to Christians by a 6:1 margin, Sunni Muslims by a 9:1 margin, Americans by a 2:1 margin and Jews by a 5:4 margin. In fact, Iranians are as favorable to Americans as they are to their Arab neighbors. The high favorability of Sunni Muslims among Iranians (higher than for Arabs generally) demonstrates that Shiite/Sunni issues are not the primary force driving a wedge between Iranians and their Arab neighbors.

چنانچہ ایرانی اہل تشیع ہرگز ہرگز برادرانِ اہلسنت سے کوئی عناد نہیں رکھتے، بلکہ یہ صرف اور صرف ناصبی ملا حضرات وہ مخلوق ہے جن کا سارا خمیر عناد، نفرت و دشمنی پر مشتمل ہے۔

ایران آئین اسلام اور مختلف فقہہ کے متعلق

آرٹیکل گیارہ:

In accordance with the sacred verse of the Quran “This your community is a single community, and I am your Lord, so worship Me” [21:92], all Muslims form a single nation, and the government of the Islamic Republic of Iran have the duty of formulating its general policies with a view to cultivating the friendship and unity of all Muslim peoples, and it must constantly strive to bring about the political, economic, and cultural unity of the Islamic world.

آرٹیکل بارہ:

The official religion of Iran is Islam and the (official Fiqh is) Twelver Ja’fari school, and this principle will remain eternally immutable. Other Islamic schools are to be accorded full respect, and their followers are free to act in accordance with their own jurisprudence in performing their religious rites. These schools enjoy official status in matters pertaining to religious education, affairs of personal status (marriage, divorce, inheritance, and wills) and related litigation in courts of law. In regions of the country where Muslims following any one of these schools constitute the majority, local regulations, within the bounds of the jurisdiction of local councils, are to be in accordance with the respective school, without infringing upon the rights of the followers of other schools.

آرٹیکل گیارہ اسلام کے متعلق ہے۔ ایران میں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہلسنت کے مذاہب اربعہ سرکاری سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔

آرٹیکل بارہ آفیشل مذاہب اور مذہبی قوانین کے متعلق ہے، جو کہ شیعہ اثناء عشری فقہی قوانین پر مشتمل ہے (صرف اُن علاقوں میں جہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے)۔ جبکہ وہ علاقے، جہاں دیگر اہلسنت مذاہب اربعہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، تو وہاں کا آفیشل مذہب و قوانین اُس فقہ کے قوانین کے مطابق ہوں گے اور وہاں کی شیعہ اقلیت کو اُن اصولوں کی پاسداری کرنا ہو گی۔ یہ کیس ہے ایرانی بلوچستان سیستان علاقے کا کہ جہاں پر اہلسنت کی اکثریت ہے۔

ایران کے شہر زاہدان (بلوچستان) میں اہلسنت کا ایک بہت بڑا مدرسہ موجود ہے دارلعلوم و جامع المکی یہ انکے ادارے کا آفیشل ویب سائیٹ ہے۔

http://english.sunnionline.us/

اور ذیل کے ویڈیو دیکھئیے جہاں مفتی تقی عثمانی (جو پاکستان میں دیوبندی حضرات کے سربراہ ہیں) ایران جا کر لیکچر دے رہے ہیں۔

http://youtu.be/6YLW9O4jIfM

ناصبی ملا حضرات کا جھوٹ کہ ایرانی پارلیمنٹ میں کوئی اہلسنت ممبر موجود نہیں

آپ نے ملاحظہ کیا ناصبی ملا الزام لگا تا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی لیے تو سیٹیں ہیں، مگر اہلسنت کے لیے کوئی سیٹ نہیں۔

یہ اس ناصبی ملا کا کھلم کھلا جھوٹ ہے۔ بی بی سی ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اسی بی بی سی کی آپ یہ خبر پڑھ سکتے ہیں جو بتلا رہی ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں اٹھارہ اہلسنت ممبران موجود ہیں۔
اب آپ اس ناصبی ملا کی کذب بیانی پر کیا کہیں گے ۔

یہودیوں اور عیسائیوں کی ایرانی پارلیمنٹ میں مخصوص نشتیں ہیں کیونکہ انہیں ایران میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ جبکہ برادرانِ اہلسنت ہرگز ہرگز غیر مسلم اقلیت نہیں بلکہ دینی مسلمان بھائی ہیں اور الگ نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایران میں تمام ادیان اور مذھب بشمول اہلسنت اور اہل تشیع اور اس کے علاوہ یہودی، مسیحی و دیگر کو یکساں مقام حاصل ہونا چاہیے –

یہ تو ہو سکتا ہے کہ پرابلمز اور شکایات سامنے آتی رہیں، مگر یہ بہت بڑا جھوٹا الزام ہے کہ کوئی ایرانی پارلیمنٹ میں کوئی اہلسنت ممبر موجود نہیں کیونکہ اُن کے ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔

الزام کہ ایرانی بلوچوں کے پاس اچھی جاب نہیں ہے

بلاشبہ یہ ایک پرابلم ہے کہ ایرانی بلوچ بقیہ علاقوں سے جاب میں پیچھے ہیں۔ مگر اسکی وجہ انکا اہلسنت سے تعلق ہونا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ایران میں بلوچ اور دوسری نسلی اقلیتیں سینکڑوں سال سے محروم اور مظلوم رکھی گئی ہیں – مزید براں مقابلہ بہت سخت ہے اور بقیہ علاقوں کا تعلیمی معیار ایرانی بلوچستان سے آگے ہے۔ ایرانی بلوچستان میں تعلیمی سہولیات پاکستای بلوچستان سے کئی گنا زیادہ ہیں، مگر مقابلہ اس لیے سخت ہو جاتا ہے کیونکہ بقیہ ایران کا تعلیمی معیار بھی بہت بلند ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ایرانی بلوچ بھائیوں کی جایز شکایات وجود نہیں رکھتیں

Source: Adapted from Wilayat

Comments

comments

Latest Comments
  1. Fawad Dar deobandi
    -
  2. Anti Wahabi
    -
  3. Muhammad Muawiyah Jhangvi Deobandi
    -
  4. Ahad
    -
  5. Bilal Raza Qadri
    -
  6. Muhammad Muawiyah Jhangvi Deobandi
    -