خربوزے
کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، اس کا اندازہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ خربوزوں کو اس بات سے اتفاق ہے یا نہیں مگر انسانوں کے متعلق یہ بات بلکل سولہ آنے درست ہے. یقین نہ آئے تو وطن عزیز کا حال ہی دیکھ لیں، ہمارے دوست مجید کی پر خلوص راۓ میں اب ہم کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا غیر سرکاری نام ‘کون بنے گا کروڑ پتی’ رکھ دینا چاہیے کہ یہاں نیچے سے اوپر سب اسی چکر میں لگے ہیں، غالب نے کہا تھا کہ ‘کہاں ہے تمّنا کا دوسرا قدم یا رب’ ہمارے ہاں یہ بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ
:
‘کہاں ہے ہوس کا دوسرا قدم یا رب – ہم نے دشت امکاں کوبھی لوٹا گیا پایا’
جس کا جہاں جتنا بس چلتا ہے لوٹ لیتا ہے، کوئی ابّا جی کے طفیل کروڑ پتی ہے تو کوئی کروڑ پتیوں کے طفیل ابّا جی ہے، کسی کو وردی کی آس ہے اور کسی کو وردی ہی راس ہے، کوئی افسر بن کے کھا رہا ہے تو کوئی افسر بنا کے، کوئی اپنی ہوس کو بھینٹ سینکڑوں انسانوں کو زندہ جلا کر دیتا ہے تو کوئی محسن انسانیت (صلى الله عليه وسلم) کے نام پر جو ملتا ہے لوٹ لے جاتا ہے. نیچے سے اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک یہی چل رہا ہے. ظاہر پر زور ہے اور باطن کمزور ہے، اندر سے جتنے کھوکھلے اور خود غرض انسان ہیں، ظاہر میں اتنے ہی عالیشان ہیں, اونچی دکان اور پھیکے پکوان ہیں. فی مرّبع انچ جتنی لمبی لمبی داڑھیاں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں، اس حساب سے تو وطن عزیز کو ابھی تک ایک خانقاہ بن جانا چاہیے تھا، اس پر بھی طرّہ یہ کہ حالات کی خرابی کی وجہ عام آدمی کے خدا کے نا فرمان ہونے کو ٹھرایا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی بیچارے کے پاس اتنی فرصت ہی کب ہے کہ وہ نا فرمانی تو کیا فرمانبرداری کا بھی سوچ سکے. غربت، بھوک، بیماری اور افراط زر کی چکّی میں پستے مزدوروں اور کسانوں کی زندگی میں اتنا وقت ہے ہی کب کہ وہ خود کو مسلمان تو کجا انسان بھی سمجھیں؟ یہ بیچارے اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ جتنا ان کو وہ لوگ بتاتے ہیں کہ جن پر یہ یقین کرتے ہیں. ہاں چونکہ انسان ہیں اس لئے بے بسی غصّے کا سبب بن جاتی ہے اور یہ غصّہ جب نکلتا ہے تو جو راستے میں ہو اس کو بہا لے جاتا ہے، اب ہمارے ہاں ایسے چالاک بھی پیدا ہو گئے ہیں جن کو بخوبی پتا ہے کہ اس غصّے کا استمعال کیسے کرنا ہے, جذبات کو کیسے اکسانا ہے اور کیسے فائدہ اٹھانا ہے. ہمارے بر سر اقتدار طبقات کی خیر بھی اسی میں ہے کہ عام آدمی ایسی سر پٹھول میں لگا رہے کہ جس سے صرف اسی کا نقصان ہو، باقی جو جہاں مزے کر رہا ہے، کرتا رہے. طبقاتی خلیج جتنی گہری اس وقت پاکستان میں ہے کبھی نہ تھی، پاکستان کے قیام کے وقت کئی لوگوں کا خیال تھا کہ
:
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
سو اہل نظر نے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسایٹی اور اسی قبیل کی بستیاں بسا لیں، تاکہ وہ تو چین سے رہ سکیں, اور ان بستیوں کو ملانے کے لیے فلائی اوور، بائی پاس اور موٹر وے بھی بن گئے. باقی رہا عام آدمی، سو وہ تو یہی دہراتا رہ گیا کہ
انہی پتھروں پے چل کے اگر آ سکو تو آؤ
ہماری ایک صاحب سے بڑی اچھی بات چیت تھی جن کے ایک بھائی فوج میں تھے، دوسرے بھائی سرکاری افسر تھے، یہ خود زمینوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے، بھائی جو فوج میں تھے انہوں نے ایک صاحب جو صنعت کار تھے ان کی بیٹی سے شادی کی ہوئی تھی، خود ان صاحب کی شادی ان کے ماموں کی بیٹی سے ہوئی تھی جو زمیندار ہونے کے ساتھ سیاست دان بھی تھے، ہمارے دوست کا پختہ ارادہ تھا کہ ان کی اولاد میں بھی یہ ساری خوبیاں جمع ہو جائیں تاکہ وطن عزیز کی دیکھ بھال کے لئے ایک ہی گھرانہ کافی ہو. ذرا نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ صاحب اکیلے نہیں بلکے ان کے تمام بھائی بند اسی کوشش میں لگے ہیں. پرانے زمانے میں لوگ باگ جو نظریہ علم سے متعلق رکھتے تھے، وہ تھوڑی تحریف کے ساتھ ان حضرات نے قوت، طاقت اور دولت کے لئے رکھا ہوا ہے :
جس سے ملے، ہمی کو ملے، جس قدر ملے
ان حضرات کی وطن عزیز سے وفا داری بھی شک و شبہے سے بالا تر ہے، کیونکہ ان کو اور کہاں ایسا انتظام ملنا ہے کہ محض اپنے حسب و نسب اور تعلقات کی بنا پر وہ سب کچھ حاصل کریں جس کے لئے اوروں کو نا جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں،
اگر فردوس بروئے زمیں است
ہمی است و ہمی است و ہمی است
اسی لئے یہ سب ملک و قوم سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ جتنی جونکوں کو کسی ننگے بدن سے ہو سکتی ہے، مگر یہ جونکوں کی طرح محض چمٹے نہیں رہتے بلکہ جب اکتا جاتے ہیں ، مک سے باہر بھی جاتے ہیں، یہاں سے کماتے ہیں وہاں پہ لگاتے ہیں. اس کا ایک فایدہ یہ بھی ہے کہ اگر خدا نخواستہ ان کے لئے حالات خراب ہوں ( جس کا فالوقت کوئی امکان نہیں) تو مکمل بندوبست ہو، اب ملک تو ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں، انقلاب بھی آتے جاتے رہتے ہیں، خانہ جنگیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، انارکی بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں ہوتی ہی رہتی ہے، اب یہ ضروری تو نہیں ہے نا کہ آپ کسی جگہ کا کباڑا کر کے پھر بھی وہیں رہیں، خاص کر آپ کے بال بچے، ان کا بھلا کیا قصور، عام آدمی کے بچے تو ہیں ہی رلنے مرنے کے لئے اب خواص کے بچے اس لئے تھوڑی پیدا هوئے ہیں کہ اپنے بڑوں کے کیے کی سزا بھگتیں اس لئے ان کو دساور میں جا بسنے اور مزے سے جینے کا حق ہے.
ہمارے ہاں یہ چلن عام ہو گیا ہے کہ ہم حالت کی خرابی کا ذمّہ دار کسی نہ کسی کو ٹھہرا ہی دیتے ہیں، کوئی فوج کا نام لیتا ہے، کوئی سیاست دانوں سے نالاں ہے، کوئی بنیاد پرستی اور مذہبی شدت پسندی کا رونا روتا ہے، کوئی لبرل اور ترقی پسندوں اور ان کی بدولت بڑھتی ہوئی ‘فحاشی اور عریانی’ کو کوستا ہے، اور زیادہ ہمت ہو تو تمام الزام غیرملکی طاقتوں، اسلام کے دشمنوں پر ڈال دیا جاتا ہے. مگر اس سارے چکر میں بڑھتے هوئے طبقاتی تضاد، بلا تخصیص ایک مخصوص طبقے کا تمام ملکی وسائل پر غلبہ، اور نچلے طبقات کی محرومیوں پر سے نظر ہٹا لی جاتی ہے. آپ بتائیں ایسے لوگ جن کے پاس نہ کھانے کو ہے نہ پینے کو، جن کے سروں سے چھت سرکتی جا رہی ہے، جن کو تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیا گیا ہو، جو طاقت کے زور پر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جاتے ہوں، جن کی عزت نفس ہر قدم پر مجروح کی جاتی ہو، جن کو طاقت کو سلام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہو، جو گلی محلوں میں میں غنڈوں بدمعاشوں کے رحم و کرم پر ہوں، جن کے ساتھ ریاستی ادارے بھی کتوں جیسا سلوک کریں، جن کے لئے ریاست سوتیلی ماں کے جیسی ہو، یہ لوگ موقع ملنے پر اپنے اندر پلنے والی محرومی اور بے بسی کا انتقام نہ لیں تو کیا کریں، جو تشدد، ظلم اور زیادتی کو مقدر سمجھیں وہ اسی کو اپنا شیوہ بنا لیں تو کیا عجب ہے؟
پس نوشت: یہاں مقصد تشدد کی حمایت نہیں بلکہ یہ سوال اٹھانا ہے کہ لوگ آخر کیوں روز بروز متشدد اور غصّہ ور ہوتے جا رہے ہیں ؟ محض بنیاد پرستی ہی اس کی وجہ نہیں ہو سکتی بلکہ سماج کا مجموعی رویہ ، طاقتور افراد کا بلا کسی خوف مظالم کرنا اور ریاستی اداروں کی خاموشی ( جو در اصل حوصلہ افزائی ہے) بھی ایک اہم عنصر ہیں، ہم کو روز بروز بڑھتے تشدد کی جڑیں ایک سے زیادہ عناصر میں تلاش کرنا ہونگی .