آج میں جس تجربے کی بات کرنے جا رہا ہوں وہ تیسری یا چوتھی جماعت کے بچے کے طور پر اسلامیات کے اسباق پڑھنا ہے ۔۔
ہماری اسلامیات کی کتاب کے سرورق پر لکھا تھا
یہ کتاب فقہ جعفریہ کے طلبا کے لیے نہیں ہے_
اس سوال کا جواب میں نے کبھی تلاش نہیں کیا کیونکہ اس وقت میری عمر محض سات یا آٹھ برس کی تھی اور میرے فرشتوں کو بھی اندازہ نہ تھا کہ فقہ جعفریہ کیا ہوتا ہے ۔ لیکن کچھ اسباق ایسے تھے جنہون نے میرے ذہن پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کس غزوہ / جنگ کی بات ہو رہی تھی لیکن ایک سبق میں دو کمسن بھائیوں کا ذکر تھا جن کے نام معوذ اور معاذ بتائے گئے تھے ۔ سبق میں لکھا تھا کہ دونوں بھائی جنگ میں حصہ لینے کے لیے اس قدر بیتاب تھے کہ انہوں نے بھرتی کے وقت اپنی عمروں کے بارے میں جھوٹ بولا اور مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے ۔ ان میں سے ایک بھائی کا بازو لڑائی کے دوران کٹ گیا لیکن جسم سے علیحدہ نہیں ہوا ۔ اس بچے نے اس لٹکتے ہوئے بازو پر ایک پاوں رکھا اور زور لگا کر اسے اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا کیونکہ اس کی وجہ سے اسے لڑنے میں دشواری پیش آ رہی تھی ۔ان دو بھائیوں کی کہانی نے میرے دل پر عجیب اثر کیا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے دل میں ای تڑپ سی پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی نبی کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا اور ان پر اپنی جان قربان کر کے فورا جنت کا حقدار بن جاتا ۔ یہ کہانی جس انداز سے بیان کی گئی تھی کچھ عجب نہیں کہ اگر اس وقت میرے بس میں ہوتا تو میں کوئی کافر تلاش کر کے اسے اپنے نبی کی محبت میں ہلاک کر دیتا ۔۔۔۔۔۔
اب اگر کبھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں مجھے ایسی کہانیاں پڑھائے جانے کا مقصد کیا تھا ۔۔ جب اپنے اردگرد پھیلے ہوئے جہالت کا مجسمہ بنے پاکستانی نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو یہ وجہ بھی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ یہ نوجوان جن سے بات تو ہوتی نہیں لیکن ماں بہن کی گالیاں اور قتل کی دھمکیاں گویا ان کی زبان کی نوک پر دھری ہوتی ہیں_
اب کبھی جب خودکش بمبار بنے کمسن بچوں کی کوئی کہانی سنتا ہوں تو بھی وہ وقت یاد آتا ہے ۔ اگر اس وقت میری زندگی میں کوئی کردار ایسا آ جاتا جو مجھے بتاتا کہ میں پیغمراسلام کی خوشنودی کس طرح حاصل کرسکتا ہوں اور کیسے جنت کا فوری حقدار بن سکتا ہوں تو کوئی بڑی بات نہیں میں بھی اس زمانے کے حالات کے مطابق کوئی احمقانہ کام کر چکا ہوتا ۔۔بچپن کی اسی یاد کا نتیجہ ہے کہ جب یہ سنتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کس طرح ورغلا کر خودکش بمبار بننے پر تیار کیا جاتا ہے تو ذرا حیرت نہیں ہوتی ۔ اس قسم کی داستانیں اور ان داستانوں کو سنانے کا انداز شاید جوانعمر لوگوں کو بھی پل میں ”مجاہد” بننے کے لیے تیار کر لے بچوں کی تو کچھ حیثیت ہی نہیں
via facebook:
آج میں جس تجربے کی بات کرنے جا رہا ہوں وہ تیسری یا چوتھی جماعت کے بچے کے طور پر اسلامیات کے اسباق پڑھنا ہے ۔۔
ہماری اسلامیات کی کتاب کے سرورق پر لکھا تھا
یہ کتاب فقہ جعفریہ کے طلبا کے لیے نہیں ہے_
اس سوال کا جواب میں نے کبھی تلاش نہیں کیا کیونکہ اس وقت میری عمر محض سات یا آٹھ برس کی تھی اور میرے فرشتوں کو بھی اندازہ نہ تھا کہ فقہ جعفریہ کیا ہوتا ہے ۔ لیکن کچھ اسباق ایسے تھے جنہون نے میرے ذہن پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کس غزوہ / جنگ کی بات ہو رہی تھی لیکن ایک سبق میں دو کمسن بھائیوں کا ذکر تھا جن کے نام معوذ اور معاذ بتائے گئے تھے ۔ سبق میں لکھا تھا کہ دونوں بھائی جنگ میں حصہ لینے کے لیے اس قدر بیتاب تھے کہ انہوں نے بھرتی کے وقت اپنی عمروں کے بارے میں جھوٹ بولا اور مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے ۔ ان میں سے ایک بھائی کا بازو لڑائی کے دوران کٹ گیا لیکن جسم سے علیحدہ نہیں ہوا ۔ اس بچے نے اس لٹکتے ہوئے بازو پر ایک پاوں رکھا اور زور لگا کر اسے اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا کیونکہ اس کی وجہ سے اسے لڑنے میں دشواری پیش آ رہی تھی ۔ان دو بھائیوں کی کہانی نے میرے دل پر عجیب اثر کیا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے دل میں ای تڑپ سی پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی نبی کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا اور ان پر اپنی جان قربان کر کے فورا جنت کا حقدار بن جاتا ۔ یہ کہانی جس انداز سے بیان کی گئی تھی کچھ عجب نہیں کہ اگر اس وقت میرے بس میں ہوتا تو میں کوئی کافر تلاش کر کے اسے اپنے نبی کی محبت میں ہلاک کر دیتا ۔۔۔۔۔۔
اب اگر کبھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں مجھے ایسی کہانیاں پڑھائے جانے کا مقصد کیا تھا ۔۔ جب اپنے اردگرد پھیلے ہوئے جہالت کا مجسمہ بنے پاکستانی نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو یہ وجہ بھی کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ یہ نوجوان جن سے بات تو ہوتی نہیں لیکن ماں بہن کی گالیاں اور قتل کی دھمکیاں گویا ان کی زبان کی نوک پر دھری ہوتی ہیں_
اب کبھی جب خودکش بمبار بنے کمسن بچوں کی کوئی کہانی سنتا ہوں تو بھی وہ وقت یاد آتا ہے ۔ اگر اس وقت میری زندگی میں کوئی کردار ایسا آ جاتا جو مجھے بتاتا کہ میں پیغمراسلام کی خوشنودی کس طرح حاصل کرسکتا ہوں اور کیسے جنت کا فوری حقدار بن سکتا ہوں تو کوئی بڑی بات نہیں میں بھی اس زمانے کے حالات کے مطابق کوئی احمقانہ کام کر چکا ہوتا ۔۔بچپن کی اسی یاد کا نتیجہ ہے کہ جب یہ سنتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کس طرح ورغلا کر خودکش بمبار بننے پر تیار کیا جاتا ہے تو ذرا حیرت نہیں ہوتی ۔ اس قسم کی داستانیں اور ان داستانوں کو سنانے کا انداز شاید جوانعمر لوگوں کو بھی پل میں ”مجاہد” بننے کے لیے تیار کر لے بچوں کی تو کچھ حیثیت ہی نہیں
Ayzee Kashmiri