Ishq-e-Rasool (saww) or egoism: thoughts of Mehmudul Hasan of Deoband
مولانا محمودالحسن جنہیں شیخ الہند کے نام سے جانا جاتا ہے، دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم اوربعد میں صدرمدرس رہے ہیں، تحریک ریشمی رومال کے مرکزی کردار ہونے کے باعث سعودی عرب کی برطانیہ نواز حکومت نے انہیں مکہ سے گرفتار کرواکر برطانیہ کے حوالے کردیا تھا اور انہیں مالٹا میں انگریز کی قید گزارنی پڑی، ہندوستان واپس آکر وہ اپنے طبقہ علماء سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے افتتاح کے وقت آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے یہ واضح طور پر کہا
“آج مجھے اپنے درد کے غم خوار مدارس ومکاتب میں کم اور کالجز اور یونیورسٹیز میں زیادہ نظر آرہے ہیں
وہ دارالعلوم دیوبند کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ اسے ان کے اساتذہ نے ۱۸۵۷ کی جنگ ازادی میں ناکامی کے بعد جدوجہد آزادی کے نئے مرحلے کی تیاری کے لئے قائم کیا تھا، اسی کے باعث وہ دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کی طرف سے انگریز حکومت سے جاگیر اور مہتمم کے لئے “شمس العلماء” کے خطاب کو قبول کئے جانے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اور انگریز گورنر کے مدرسہ کے دورے پر بھی انہوں نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ زیرنظر اقتباس ان کے شاگر مناظر احسن گیلانی کی کتاب “احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن” سے لیا جارہا ہے جس سے مولانا شیخ الہند کے توازن فکر پر روشنی پڑتی ہے اور ایک اہم مسئلے پر اعتدال کی راہ دکھانے کی کوشش ہے۔ ایڈیٹر،
محبت نبوی میں نفسانیت
بخاری شریف کا سبق ہورہا تھا، مشہور حدیث گزری ” کوئی شخص اس وقت مومن نہیں ہوسکتا، جب تک می اس کے والد، اسکی اولاداور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے نزدیک محبوب نہ ہوجاوَں” حدیث مشہور ہے اور جانی پہچانی جاتی ہے، فقیر ہی نے عرض کیا کہ بحمدللہ عام مسلمان بھی سرکارکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین تو ایک حد تک مسلمان برداشت کرلیتا ہے، زیادہ سے زیادہ گالیوں کے جواب میں گالیون پر اتر آتا ہے لیکن رسالت مآب کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانون کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے۔
سن کر حضرت شیخ الہند نے فرمایا ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمہاری نطر نہیں پہنچی محبت کا اقتضاء یعنی تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کردی جائے، لیکن عام مسلمان کا جو برتاوَ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی مبارک کے ساتھ ہے، وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے، پیغمبر نے ہم سے کیا چاہاتھا اورہم کی کررہے ہیں اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی آپ کی، جو مسلمانون کے لئے ناقابل برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہوسکتی
خاکسار نے عرض کیا، تو آپ ہی فرمائیں اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟ نفسیات انسانی کے اس مبصر حاذق نے فرمایا،
سوچوگے تو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی و توہین میں اپنی سبکی کا غیرشعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے، مسلمانوں کی خودی اور انانیت مجروح ہوتی ہےہم جسے اپنا پیغمبراوررسول مانتے ہیں تم اس کی توہین نہیں کرسکتے،چوٹ درحقیقت اسی ہم پر پڑتی ہے، لیکن مضالطہ یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم محبت نے انتقام پر ان کو آمادہ کیاہے، نفس کا یہ دھوکہ ہے، اپنی جگہ پر ٹھنڈے دل سے جو غور کرے گا، اپنے طرزعمل کے تناقض کے اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے،
بہرحال محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ، اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے موَذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعوی اس کے منہ کس حد تک جچتا ہے۔
بحوالہ احاطہ دارالعلم میں بیتے ہوئے دن، ص ۱۵۳، ۱۵۴
بشکریہ علی ارقم
Thank you, Mustajab, for providing an alternative view.