Why the world is not reacting- by Muhammad Hanif

ہر ایک کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال ہے۔ اس صدی کا سب سے بڑا قدرتی عذاب، دو کروڑ انسان شکار، ستر لاکھ بچے بھوک اور بیماری کا شکار تو دنیا کا دل کیوں نہیں پسیجا۔ عالمی برادری نے گذشتہ سال ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے ہر متاثر کے لئیے اوسطً چار سو پچانوے ڈالر دئیے تھے۔ اسی برادری نے اب تک پاکستان کے سیلاب متاثرین کو فی کس تین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

جواب سننے کے لئیے دل کڑا کرنا پڑے گا لیکن جواب ہے سیدھا سادہ۔عالمی برادری کہتی ہے جو دو ہزار پانچ کے زلزلے میں آپ کو دیا تھا اس کا کیا ہوا؟

امت مسلمہ کے ان ممالک سے کیوں نہیں مانگتے جن سے یک جہتی کے ترانے گاتے نہیں تھکتے۔ برادر ہمسایہ ملکوں ایران اور چین کے آگے جھولی کیوں نہیں پھیلاتے۔ یہاں پاکستان میں لوگ سر ہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جذبہ کہاں گیا جو دو ہزار پانچ کے زلزلے میں نظر آیا تھا جب ہم نے کشمیر اور بالا کوٹ کی پہاڑیاں ریلیف کے ردی مال سے بھر دی تھیں۔

ماہرین کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ دنیا میں ملک کا امیج اتنا خراب ہو چکا ہے کہ پاکستان کا نام سنتے ہی عالمی برادری وہی کہتی ہے جو ہم عادی بھکاریوں کو کہتے ہیں۔ یعنی ابھی تو دیا تھا تو پھر آگیا؟

اندرون ملک جن لوگوں نے دو ہزار پانچ میں دل کھول کر مدد کی تھی وہ گذشتہ پانچ سالوں میں مہنگائی کی چکی میں یوں پسے ہیں کے کچھ دینے کے قابل نہیں رہے۔

باقی بچا پاکستان کا متوسط طبقہ تو اس کی کٹھور دلی کے مناظر ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اگر دو ہزار پانچ میں ان میں سے کچھ کا دل پگھلا تھا تو وہ اس لیے کہ ان میں سے اکثر بچپن میں گرمیوں کی چھٹیاں ان حسین وادیوں میں گزار چکے تھے یا کم از کم ندیم اور شبنم پر فلمائے ہوئے گانے دیکھ چکے تھے۔

اکثر امرا کے گھریلو ملازم بھی اسی علاقے سے آتے ہیں۔ تو یہ لوگ چاہے اپنے ڈرائیور اور خانساماں کو جانوروں کی طرح رکھیں اور کام بھی جانوروں کی طرح ہی لیں لیکن جب ان ملازمین کے گھر اور گھر والے برباد ہوئے تو دل میں کچھ رحم آیا۔

دو ہزار پانچ کے زلزلے اور دو ہزار دس کے سیلاب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ تب پچھتر ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے اور ان میں ایک بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ میڈیا نے سکولوں کے ملبے کے نیچے دبے بچوں کی آہ و پکار لوگوں تک پہنچائی۔ گول مٹول گلابی گالوں والے مرحوم بچوں کی تصویریں دکھائیں، ننھے منے کفن دکھائے تو لوگوں نے اپنی جیبیں ڈھیلی کیں۔

ابھی جو فٹ پاتھوں پر، کیمپوں میں آپ ننگ دھڑنگ بچے دیکھ رہے ہیں کیا ان کی شکلوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ نیلی یونیفارم پہن کر کسی پرائیویٹ سکول میں جیک اینڈ جل گاتے ہونگے؟ کیا یہ نہیں لگتا کہ پہلے بھی یہ بھینس بکریوں کے ساتھ پل رہے تھے اب کوڑے کچرے کے ڈھیر پر پل جائیں گے؟

دو ہزار پانچ اور دو ہزار دس میں فرق یہ ہے کہ اکثر بچے بچ گئے۔ یا یوں کہیں کہ ابھی تک بچے ہوئے ہیں لیکن کب تک؟ یہ بچہ جو آپ اپنی ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے ہیں جس کے چہرے پر مکھیاں بھن بھنا رہی ہیں جو روتے روتے ابھی سوگیا ہے یہ تھوڑی دیر بعد پھر اٹھے گا اور روٹی مانگے گا۔

لیکن یہ بچہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ یہ ابھی زندہ ہے۔ سیلاب سے پہلے بھی روٹی مانگنے والے بہت تھے۔ انہوں نےہمارا کیا بگاڑ لیا۔

اس جیسے ہزاروں بچے جب تک بھوک اور بیماری سے نہیں مریں گے۔ جب تک ہمیں اپنی ٹی وی سکرینوں پر کچی عمر والوں کے اجتماعی جنازے نظر نہیں آئیں گے ہم یونہی سر جھکا کر خداوند سے بہتری کی امید کرتے رہیں گے۔ آخر برکتوں والا مہینہ ہے، عمروں کا موسم ہے، حج کی بکنگ ہو چکی ہے آخر ہم اس فانی دنیا کے جھمیلوں میں کیوں پڑیں۔

مآ خذ: بی بی سی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahsan
    -
  2. کاشف نصیر
    -
  3. David
    -