“تلوار اور خون کے گیت” فاطمہ بھٹو ۱۵ مئی ۲۰۱۰ – by kashif Naseer

پچھلے کچھ دنوں سے بھٹو خاندان کی شہزادی فاطمہ بھٹو کی نئی کتاب ’’سونگ اوف بلڈ اینڈ سورڈ‘‘ میرے زیر مطالعہ ہے۔ میرا طرز مطالعہ یہ ہے کہ اول تو پوری کتاب کی ورق گردانی کرکر کچھ اہم مضامین پر نظر ڈالتا ہوں اور پھر ترتیب وار پوری کتاب پڑھتا چلا جاتا ہوں۔ کتاب جتنی متاثر کن ہوتی ہے اتنے ہی طویل عرصے میرے زیر مطالعہ رہتی ہے، ہاں ایک بار پر اکتفا نہ ہو تو کئی بار ختم کرتا ہوں اورقراءت کے بعد جن باتوں کو ضروری سمجھتا ہوں افتباسات کی شکل میں اپنی نوٹ بوک میں زیر قلم کر لیتا ہوں۔ مطالعہ اور قراءت کا یہ اسلوب میں نے والد مرحوم سے سیکھا تھا اور سختی سے اس پر قائم ہوں۔


بات فاطمہ بھٹو کی کتاب سے شروع ہوئی تھی اور آج میں فاطمہ کے طرز تحریر اور انکی زیر نظر کتاب پر ہی کچھ لکھنے کا قصد کرچکا ہوں۔ فاظمہ بھٹو سے کئی برس قبل شہید بھٹو گروپ کے کچھ دوستوں کی وساکت سے ستر کلفٹن میں انکی رہائش گاہ میں ملاقات کا موقع ملا تھا۔ وہ زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والی ایک شوخ خاتون ہیں اور قائدانہ صلاحیتیں انہیں اپنے اجداد سے وراثت میں ملی ہیں ۔ ان کی شخصیت میں شوخی اور اعتماد بھی ہے اور وہ مکر بھی جو بھٹو خاندان کے حوالے سے مشہور ہے۔ وہ انگریزی زبان و ادب میں ماہر ہیں اور اس زبان میں کلام کا انہیں خاص ملکہ حاصل ہے۔ زبان میں روانی اور تسلسل کے ساتھ ساتھ ٹھراو اور ربط بھی موجود ہے۔ ساتھ ہی اردو زبان و ادب کا بھی انہوں نے بقدر ضرورت مطالعہ کررکھا ہے ۔


.مجموعی طور پر وہ ایک اچھی لکھاری ہیں البتہ انکے قلم میں کاٹ اور شدت بھی ہے جسے وہ مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہوئے زرا بھی لحاظ روا نہیں رکھتیں۔ راقم کو محسوس ہوا ہے کہ کچھ معاملات میں وہ انصاف سے کام نہیں لیتی ہیں۔


زیر نظر کتاب جو بقول انکے، انکے مرحوم والد میر مرتضی بھٹو کی سوانح عمری ہے کہ ہر باب میں آپ کو انکے اس ہی اسلوب کی جھلک نظر آئے گی۔ کتاب کہ کسی بھی باب میں انہوں نے اپنی’’وڈی بوا ‘‘ بے نظیر بھٹو اور انکے خاوند آصف علی زرداری کو زیست کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ کو اپنی پھوپھو سے سخت عداوت ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس عداوت کو دل میں مخفی نہیں رکھتیں بلکہ کھلے عام اسکا اظہار کرتی ہیں۔ انکے نزدیک انکی پھوپھو نے انکے دادا کے خون پر سودے بازی کی، اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنے بھائیوں کو دھوکہ دیا ، اپنے دور حکومت میں کرپشن اور بدعنوانی کو دوام بخشا، کراچی میں بے گناہوں کا قتل عام کرایا ، یہاں تک کہ وہ میر مرتضی کے قتل کی سازش جو فاطمہ کے بقول آصف علی زرداری نے تیار کی تھی کا بھی علم رکھتی تھیں اور وہ ساری زندگی بدی کا آلہ کار بنی رہیں اور آخری بار بھی وہ پرویز مشرف سے سودے بازی کرکے ہی میدان میں اتری تھیں۔ مجھے فاطمہ کی کچھ باتوں سے اتفاق ہے لیکن جس انداز اور جن شہادتوں کی بنیاد پر انہوں نے یہ الزامات اپنے بڑوں پر لگائے ہیں مجھے اس انداز اور اس اسلوب پر بہرصورت بہت سخت اشکالات ہیں۔ فاطمہ اپنے قلم کی رو میں بہتے ہوئے اکژ یہ بھول جاتی ہیں کہ زولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی فی الحقیقت انکی بھانسی کے ساتھ ہی ختم ہوچکی تھی اور سترہ سالہ جلا وطنی ختم کرکے جب انکے والد وطن واپس آئے تو ملک میں بے نظیر کی پیپلز پارٹی تھی جو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر قائم کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بے نظیر کبھی سوشلسٹ اور سوشلسٹ اسلام جیسی فلاسفی سے متاثر نہ تھیں اور نہ ہی وہ بھٹو کا ویزن اور اپروچ رکھتی تھیں البتہ ان میں اور بہت سی اچھائیاں ضرور تھیں جن کا فاطمہ کو تزکرہ کرنا چاہئے تھا۔ ایک خامی البتہ دختر مشرق میں بکثرت اتم موجود تھی کہ وہ اپنے والد کے ’’نام‘‘ کی تجارت کرتی تھیں جس میں ناصرف انہوں نے بلکہ ان کی پوری جماعت نے خوب نفع حاصل کیا۔ فاطمہ نے بلاشبہ انتہائی موثر انداز میں اس نقطہ کی وضاحت کی ہے۔ وہ کہتی ہیں بھٹو صاحب کی افکار اور اپروچ کے صحیح وارث انکے والد اور چچا تھے اور اب اس ہی سوچ کی صحیح ترجمانی انکی سوتیلی والدہ غنوا کررہی ہیں اور’’ بھٹو کے نام‘‘ کی سیاست کے بجائے انکے’’ تصورات اور افکار‘‘ کی سیاست ہونی چاہئے۔ وہ آصف علی زرداری کو قاتل اور مکار قرار دیتی ہیں اور بے نظیر کا خون بھی انہی کے ہاتھ تلاش کرتی ہیں۔


کتاب کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد سے حد درجہ متاثر ہیں جو ایک اولاد کے لئے سعادت کی بات ہے۔ اپنے والد کی تعریف کرنا اور انکی زندگی کو بیان کرنا فاطمہ کا حق اور فرض ہے لیکن بات وہاں آکر اٹک جاتی ہے جہاں وہ تعریف و توصیف کے بت اس طرح کھڑا کرتی کہ قاری یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوجائے کہ میر مرتضی  لینین اور موزے تن کے بعد تیسرے سب سے بڑے سوشلسٹ مصلح اور رہنماء ہوں۔ کتاب میں دانستہ طور میر مرتضی کی زندگی کے اس حصہ کا سب سے کم زکر ہے جو انہوں نےبہنوں اور بھائی کے ساتھ گزرا تھا۔ بھائی کا زکر تو اکثر نظر آتا ہے لیکن بہنوں کے زکر خیر سے مصنفہ کو احتراض ہے۔ پوری کتاب میں صرف ایک جگہ صنم بھٹو کا زکر ملتا ہے۔ کتاب کا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جہاں ان لمحات کا زکر کیا گیا ہے جب بھٹو صاحب کے پھانسی سے کچھ دن قبل انکا پورا دربدر خاندان دیار غیر میں جمع ہوا تھا۔ ایک اور الزام جو انہوں نے اپنے چچا کا زکر کرتے ہوئے اپنی “وڈی بوا” پر عائد کیا ہے بھی  قابل توجہ ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ انکی بھوپھو نے فرانسیسی وکیل کو شاہنواز بھتو قتل کیس کو دبانے کا حکم دیا تھا کیونکہ وہ پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرچکی تھیں۔


فاطمہ کی تربیت ان لوگوں کے ہاتھوں ہوئی ہے جو دختر مشرق سے سخت بغض، عداوت اور نفرت رکھتے ہیں، ایسی صورت حال میں ان سے اس ہی نوع کی کتاب کی توقع رکھی جاسکتی ہے ۔بہر حال اگر کوئی غیرجانب دارانہ اور غیرمتعصبانہ اسلوب میں قوی شہادتوں اور دلائل کی بنیاد پر فریق مخالف پر الزامات لگا ئے تو لوگ بات سنتے بھی ہیں اور اہمیت بھی دیتے ہیں البتہ متعصب انداز کلام صرف متعصب لوگوں ہی کو بھاتا ہے اور یہی فاطمہ کا بھی مسئلہ ہے۔


ہمیں امید ہے کہ فاطمہ جو بلا مبالغہ ایک زہین خاتون ہیں ضرور اس شیلف سے باہر نکل آئیں گی جس میں غنوا بھٹو اور مرتضی بھٹو نے انہیں قید کر رکھا ہے اور اپنی آنے والی کتابوں میں ناصرف وہ تنقید کریں گی بلکہ حق تنقید بھی ادا کریں گی۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Aamir Mughal
    -
  2. Mola Baksh Bhutto
    -
  3. TruePakistani
    -
  4. Babar Nadeem
    -