مصیبتوں نے اس ملک کی راہ دیکھ لی ہے – by Kashif Naseer

Pyar Ali was PSF Activist in KU. He died in the incident of Air Blue Crash in Margalla Hills

یوں لگتا ہے کہ مصیبتوں نے اس ملک کی راہ دیکھ لی ہے، ایک سانحہ کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کہ گویا سانحات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا. کبھی قدرتی آفات، کبھی ناگہانی حادثات، کبھی انسانیت سوز واقعات، کبھی خودکشیوں کی نت نئی حرکات اور کبھی جنگ جدال و فسادات. اوپر سے مصائب کے پہاڑ ہیں کہ سر ہوتے نہیں اور مشکلات کے انبار ہیں کہ نمٹتے نہیں. لیکن افسوس صد افسوس کہ ارباب اختیار و احبابِ منتظر اقتدار کے مسئلے کل بھی کچھ اور تھے اور آج بھی انکی گوٹھیاں کہیں اور پھنسی ہیں. ہم میں بھی کیا بے حسی کم ہے، ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر ایک اپنے پیٹ اور اپنی کٹیا کے غم میں ہلکان ہوا جارہا ہے. جب تک اپنا آنگن اشکوں سے گیلا نہ ہوجائے ہم دوسروں کے آنسووں کو نہیں سمجھتے اور جب تک خود کسی حادثہ کا شکار نہ ہوں جائیں کسی دوسرے کا درد محسوس نہیں ہوتا. ٹی وی پر بری سے بری خبریں سن کر ہم چینل ایسے بدلتے ہیں جیسے تھوڑی دیر پہلے کسی مووی کا ٹریلر دیکھا ہو. ہاں ہمارے لئے یہ ٹریلر ہی تو ہے کہ علاقہ غیر میں آپریشن ہوا،لوگ مارے گئے، ڈرون سے میزائل برسا لوگ مارے گئے،خود کش بمبار پھٹ پڑا لوگ مارے گئے، ٹارگیٹ کیلرنکل آئے لوگ مارے گئے، کسی نے تعصب کی آگ بھڑکائی لوگ مارے گئے، بارش ہوئی لوگ مارے گئے، سیلاب آیا لوگ مارے گئے، زمین نے ہچکولے لئے، لوگ مارے گئے، بس کھائی میں جاگری لوگ مارے گئے، اور جہاز کریش ہوگیا لوگ مارے گئے، سینے تو وہاں جلتے ہیں جہاں سے جنازے اٹھتے ہیں اور جہاں لوگ جیتے جی مرجاتے ہیں. کل ہم سے کسی نے پوچھا کہ آخر کیوں اور آخر کب تک؟ ہمارے اندر سے بے ساختہ آواز نکلی کہ یقینا ہم سب سے من حیث القوم ایسا کوئی بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے کے یوں رہ رہ کے سزائیں مل رہی ہیں، خدا ہم سب سے سخت ناراض ہے، دہرتی کے بدترین لوگ حکمران بنا کر مسلط کردئے گئے ہیں اور دعائیں آسمان کی دہلیز تک پہنچ کر واپس لوٹ رہی ہیں، توبہ اجتماعی توبہ اور بے لوث قیادت. ہاں نگاہِ مومن کسی خضر راہ کی متلاشی ہے، مگر آج کون اس ڈوپتی کشتی کو پار لگائے گا، مگر آج کون اس بھٹکتی اور منتشر قوم کو نشان راہ دیکھائے گا، اے کاش کوئی ایسا چارہ گر آئے کہ اس پریشان حال خلقت کے دکھوں کا کوئی مداوا ہو، توبہ کی کوئی منادی ہو، تبدیلی کی کوئی صدا ہو اور خوشی کی کوئی گپتا ہو. لیکن کیا صرف چاہنے سے چاہت مل جاتی ہے، گتھیاں سلجھ جاتی ہے اور تن کی پیاس بجھ جاتی ہے. نہیں نہیں اٹھنا تو پڑے گا، بولنا تو پڑے گا، جاگنے اور جگانے کی گیت گانے تو پڑے گے، عقل کی دیب اور دانش کے چراغ جلانے تو پڑیں گے، تئیس سالہ بلال جامعی بھی تو یہی کہتا تھا، اسکا وجود جہاز سے کریش ہوگیا اسکی سوچ تو کریش نہیں ہوئی نہ.

بلال جامعی سے یاد آیا کیا بھلا لڑکا ہوتا تھا، مسکراتا چہرا اور پروقار شخصیت میں چھپی اسکی حساس طبیعت، چہرے پر ہلکی سی مگر پروقار ڈاڑھی اور بات کرنے کا دھیما اور شائستہ انداز. جب ہم ابلاغ عامہ میں وارد ہوئے تو ہر طرف اسکے انداز بیان اور جوہر خطابت کی دھوم سنی، دو ایک دفعہ واجبی سی ملاقات ہوئی اور ایک دفعہ سننے کا بھی اتفاق ہوا. شخصیت ایسی تھی کہ کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا. تقریر سنی تو اندازہ ہوا صرف آواز میں گرج اور الفاظ میں نفاست ہی نہیں انداز میں تاثیر بھی ہے، خلوص بھی، ملک و ملت کا غم بھی اور کچھ کردکھانے کا عظم بھی. ابھی عمر ہی کیا تھی، بی ایس سال سوم میں پڑھتا تھا اور اسطرح ہم سے دو سال جونئر تھا لیکن اس کم سنی میں بھی بہت کچھ کرگیا. پہلے جامعہ کی بزم ادب کا جرنل سیکڑری ہوا، پھر ہزاروں امیدواروں میں سے منتخب ہوکر “مجلس شباب” کا رکن اور پھر اسکا شیڈو وزیر اطلاعات. بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھیں اور کچھ شاعری بھی کی. واقفان حال بتاتے ہیں کہ مادر علمی سے ایسی اپنائیت اور وابستگی تھی کہ ناصرف نام کے ساتھ جامعی کا تخلص اختیار کیا اور بلال ناصر کے بجائے بلال جامعی کے نام سے مشہور ہوا بلکہ دوستوں کو یہ وصیت بھی کردی کہ مرجاوں تو مادر علمی کی مٹی اوڑھا کر سلادینا. کیا واقعی موت کی باتیں کرنے والا تین بہنوں کا بڑا بھائی عین عالم شباب میں اپنے ماں باپ کی خوابوں کو چکنا چور کر کر اس بستی سے کوچ کر گیا ہے! آخر جانے کی کیا جلدی تھی ابھی تو روز جزا کو آنے میں بہت تامل ہے، کچھ دیر اور ٹھر جاتا. لیکن اس عالم فانی میں آمد اور رخصتی کب کسی کے بس میں رہی ہے. یہ تو رب العامین کے فیصلے ہوتے ہیں، انسان سوائے صبر کے اور کر کیا سکتا ہے، اسکی مرضی ہے جلدی بلائے یا بدیر. اسکی مرضی ہے یونہی بلالے یا کوئی اسباب پیدا کر دے، وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہے.

دو روز سے ابلاغ عامہ کی فضاء سوگوار ہے، ہر خاص و عام کی زبان پر صرف تین بچوں کے تزکرے ہیں. کوئی بلال جامعی کو ڈسکس کررہا تو کسی کی انکھوں میں پیار علی کی جوان موت کا غم ہے اور کوئی فارغ التحصیل طالبہ عائشہ کو یاد کررہا ہے. بلال کے علاوہ پیار علی اور عائشہ بھی ان 152 بدنصیبوں میں شامل تھے جو ائر بلو کی پرواز202 ED کے ساتھ لقمہ اجل بن گئے. عائشہ آج کل ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ تھیں، کچھ دن قبل شادی ہوئی اور ابھی ہاتھوں سے حنا کی خوشبو بھی ہاتھوں سے نہیں گئیں تھی. پیار علی صرف ہمارا ہم شعبہ ہی نہیں بلکہ ہم جماعت بھی تھا. فرق صرف یہ تھا کہ وہ اردو سیکشن میں تھا اور ہم انگریزی سیکشن میں ہیں، اکثر سلام دعا ہوتی اب آج جب وہ اسطرح بچھڑا ہے تو یقین نہیں آرہا.

کہتے ہیں کہ زمین پر ویسے ہی فیصلے اترتے ہیں جیسے اعمال آسمان پر بھیجے جاتے ہیں. جب ریاکاری، جھوٹ، بغض، دغا اور ناانصافی کے ریکارڈ قائم کئے جائیں گے تو اوپر سے کونسے پھول برسیں گے.یہ سزا جو مختلف صورتوں میں ہم من حیث القوم بھگت رہے ہیں میں جو مرتا ہے وہ خلاصی پاتا ہے اور جو بچ جاتا ہے پر آزمائش اور سخت ہوجاتی ہے. کہتے ہیں کہ اس دنیا میں قدرت کی یہ سزائیں انصاف نہیں صبر، شکر اور آزمائش کے اصولوں پر اترتی ہیں. قدرت ٹریلر دیکھاتی کہ سنبھل جاو، توبہ کرلو، لوٹ آو، لوٹ آو. اپنے ڈھنگ کو بدلو اور اپنے مقصد کو پہنچان لو. سو اے کاش کوئی ایسا چارہ گر آئے کہ اس پریشان حال خلقت کے دکھوں کا کوئی مداوا ہو، توبہ کی کوئی منادی ہو، تبدیلی کی کوئی صدا ہو اور خوشی کی کوئی گپتا ہو. لیکن کیا صرف چاہنے سے چاہت مل جاتی ہے، گتھیاں سلجھ جاتی ہے اور تن کی پیاس بجھ جاتی ہے. نہیں نہیں اٹھنا تو پڑے گا، بولنا تو پڑے گا، جاگنے اور جگانے کی گیت گانے تو پڑے گے، عقل کی دیب اور دانش کے چراغ جلانے تو پڑیں گے، تئیس سالہ بلال جامعی بھی تو یہی کہتا تھا، اسکا وجود جہاز سے کریش ہوگیا اسکی سوچ تو کریش نہیں ہوئی نہ.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Humayun
    -
  2. کاشف نصیر
    -
  3. Humayun
    -
  4. Imran
    -
  5. کاشف نصیر
    -
  6. کاشف نصیر
    -
  7. DIOGO- BRAZIL
    -