The Myths of Economic Development- by Ayaz Gul

پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کے دعوﺅں کی حقیقت

ورلڈ بینک اور وزارتِ خزانہ کے مابین اتفاقِ رائے

ایاز گُل

17 جولائی 2010ء تک کے اخبارات کے مطابق ”ورلڈ بینک نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو سراہتے ہوئے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے رضا مندی کا اظہار کیا ہے اور اس امر کا یقین دلایا ہے کہ عالمی بینک پاکستانی معیشت کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کرتا رہے گا“….

پاکستان کے کڑوڑوں غریب عوام کے لیے ورلڈ بینک کی طرف سے پاکستانی معیشت میں بہتری کی خبر بیک وقت حوصلہ افزا بھی ہے اور قابلِ فکر بھی۔ خبر میں تشویش کاپہلو یہ ہے کہ حیران کن حد تک عالمی بینک کی سربراہ ازابیل گوٹریرو اور پاکستانی وزیر خزانہ پاکستان کو ایک ہی عینک سے دیکھتے ہیں، پاکستان کی وزارتِ خزانہ اور عالمی بینک دونوں کو یقین ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری آرہی ہے اسی لیے ورلڈ بینک توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہا ہے۔

پاکستان کے دورے پر آئی عالمی بینک کی سربراہ نے اپنے وفد کے ہمراہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی۔ صدر مملکت نے اس ملاقات میں دہشت گردی اور عسکریت کے خلاف جنگ کو پاکستانی معیشت کے لیے ایک بوجھ قرار دیا اور عالمی بینک سمیت دوست ممالک پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، صدر کا مطالبہ تھا کہ پاکستانی مصنوعات کے لیے امریکی اور یورپی منڈیوں تک رسائی فراہم کی جانی چاہیے، صدر مملکت نے ورلڈ بینک پر زور دیا کہ عالمی بینک پاکستان میں توانائی اور آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے تعاون فراہم کرے کیونکہ پاکستان کو توانائی کی قلت اور آبی وسائل کے بحران کا سامنا ہے، جن کی وجہ سے معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستانی معیشت کے تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے لیے عالمی بینک کے سربراہ اور صدر زرداری کے درمیان ملاقات خاصی اہمیت کی حامل رہی اور توقع یہ کی جارہی تھی کہ یہ ملاقات زمینی حقائق کی روشنی میں پاکستانی معیشت کے مسائل کے حل کے لیے مثبت پیش رفت کی بنیاد رکھے گی۔ صدر زداری نے بجا طور پر توانائی اور آبی وسائل کے بحران میں پاکستان کی معاونت کا سوال اٹھایا، مگر مبصرین کو حیرانی یہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور عالمی بینک کی سربراہ کے درمیان ملاقات میں آخر کن اشاریوں (Indicators) کی بنیاد پر پاکستان کی” اقتصادی ترقی“ اور ”معیشت میں بہتری“ کے دعوے کیے گئے، ممکن ہے وزارتِ خزانہ اور عالمی بینک کے ریکارڈ میں ایسے کئی جواز موجود ہوں جن کی بنیاد پر پاکستانی معیشت میں بہتری اور اقتصادی ترقی کے دعوے کیے جاسکتے ہوں۔ ایسا نہیں کہ وفاقی وزیر نے صرف ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ دینے پر اکتفا کیا ہو، عالمی بینک کی سربراہ سے ملاقات کے دوران وزیر خزانہ نے پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کا بھی ذکر کیا۔ عبدالحفیظ شیخ کے مطابق افرطِ زر کا دباؤ، توانائی کی کمی اور circular debt پاکستانی معیشت کے بڑے مسائل ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے عالمی بینک کے تعاون کی ضرورت ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ یہی ایک حوصلہ افزا امر تھا کہ کم ازکم عالمی بینک کی طرف سے ”معیشت میں بہتری کا سرٹیفیکٹ“ حاصل کرنے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ توانائی کے شعبے میں ورلڈ بینک کی طرف سے سرمایہ کاری میں دلچسپی کو مہمیز دینے میں کامیاب ٹھہرے۔

ورلڈ بینک کی طرف سے ملنے والی ”معاشی بہتری کی ڈگری“ کی تصدیق کے لیے اگر صرف سرکاری اعدادوشمار کا مطالعہ کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ سرٹیفیکٹ زمینی حقائق کی روشنی میں پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں17.2 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 08-2007ء کے مطابق33.8 فیصد افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جبکہ09-2008ء میں یہ شرح36.1 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ گویا6 کروڑ20 لاکھ افراد غربت اور افلاس کی دلدل میں اتر چکے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق10-2009ء کے اختتام پر یہ تعداد ساڑھے سات کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستانی معیشت میں بہتری کا مطلب یہ لیا جانا چاہیے کہ اس ملک کی اکثریتی عوام کو بنیادی ضرور یاتِ زندگی ان کی قوتِ خرید کے مطابق بلاتعطل فراہم ہورہی ہیں اور عوام کی قوتِ خرید کے استحکام کے لیے اس ملک کے ہر شہری کو اس کی اہلیت اور قابلیت کے مطابق روزگار کے یکساں اور بلاامتیاز مواقع حاصل ہیں۔ لوگوں کا روزگار محفوظ ہے۔ سستی اور معیاری خوراک، صحت، تعلیم، کی سہولیات میسر ہیں، رہنے کو گھر اور پہننے کو لباس بھی موجود ہے۔ ہر شہری کی جان و مال اور عزت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن عملاً صورتحال قطعی مختلف دکھائی دیتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2003ء میں اس ملک میں بے روزگاری کی شرح7.80 فیصد، 2004ء میں 7.70 فیصد، 2005ء میں 8.30 فیصد، 2006ء میں 6.60 فیصد، 2007ء میں6.50 فیصد، 2008ء میں5.60 فیصد، 2009ء میں 7.40 فیصد اور 2010ء کے آغاز تک بے روزگاری کی شرح15.20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ معیشت میں بہتری اور اقتصادی ترقی کے سرکاری دعووں کے باوجود پاکستان کے عوام کی اکثریت کو روزگار فراہم کرنے کے لیے صنعتی ترقی کی شرح بھی تشویشناک دکھائی دیتی ہے۔ صنعتی ترقی کے میدان میں پاکستان اس وقت عالمی رینکنگ میں102 ویں نمبر پر ہے۔ ریکارڈ کے مطابق2003ء میں ملکی صنعتی ترقی کی شرح2.40 فیصد اور2004ءمیں7.60 فیصد،2005ءمیں13.10 فیصد،2006ء میں10.70 فیصد، 2007ء میں6.00 فیصد، 2008ء میں8.00 فیصد، 2009ء میں4.60 فیصد اور2010ء میں ملکی صنعتی ترقی کی شرح منفی 3.60 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

صنعتی شعبہ میں ترقی معکوس اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے نتیجے میں پاکستان میں مہنگائی تاریخ کے بدترین اضافے کے ساتھ نام نہاد معاشی بہتری اور اقتصادی ترقی کا منہ چڑاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2003ءمیں مہنگائی کی شرح3.90 فیصد تھی۔ 2004ء میں2.90 فیصد، 2005ء میں4.80 فیصد، 2006ء میں 9.10 فیصد، 2007ء میں7.90 فیصد،2008ء میں7.60 فیصد، 2009ء میں20.30 فیصد اور 2010ء کے اوائل تک ملک میں مہنگائی کی شرح14.20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

پاکستانی معیشت میں بہتری اور اقتصادی ترقی کی خبر رکھنے والوں کے اپنے مرتب کردہ اعدادوشمار کی روشنی میں پاکستانی معیشت کا بیشتر انحصار شعبہ زراعت سے پر ہے۔ اور ملکی آبادی کا60 فیصد سے زائد حصہ اسی شعبے سے وابستہ ہے ۔ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ22 فیصد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پاکستان کا شعبہ زراعت پورے ملک کی اقتصادی ترقی اور معاشی بہتری کی صورتحال پر اثرات مرتب کرتا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جو ملک کو نہ صرف خوراک کی فراہمی کی ذمہ داری پوری کرتا ہے بلکہ زرمبادلہ بھی کما کردیتا ہے۔ نہ جانے ایسا کیوں ہے کہ پاکستان کے ماضی اور حال کے معاشی منصوبہ سازوں کو شعبہ زراعت کی کسمپرسی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ شعبہ زراعت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی70 فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے اور یہی وہ آبادی ہے جو پورے ملک کو خوراک فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کے باوجود غربت اور افلاس کا شکار ہے۔ اگر یہی آبادی غربت کاشکار ہوکر شہروں کی طرف روزگار کی تلاش کے لیے ہجرت پر مجبور ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں غربت میں اضافہ خطرناک حد بھی پار کرچکا ہے اور ملکی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک زرعی معیشت کے دعویدار ملک کو خوراک بھی درآمد کرنا پڑے گی اورظاہر ہے اس کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کی ضرورت پڑے گی۔ ماہرین کے بقول اگر پاکستان صرف شعبہ زراعت میں بڑھتی ہوئی غربت اور کسمپرسی کا علاج دریافت کر لے تو صحیح معنوں میں اس ملک میں معاشی بہتری اور اقتصادی ترقی کے اہداف پورے کیے جاسکتے ہیں۔

موجودہ عالمی تناظر میں ترقی یافتہ ممالک بھی خوراک کی قلت کے خطرے سے دوچار نظر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے شعبہ زراعت کو سبسڈی فراہم کرتے ہیں تاکہ کسان زرعی مداخل کی مہنگائی کا مقابلہ کرتے ہوئے خوراک کی پیداوار کے اہداف حاصل کرسکیں اور فاضل پیداوار کو عالمی منڈی میں مناسب نفع پر فروخت کرسکیں۔ مثال کے طور پر امریکا اپنے زرعی شعبے کو16 ارب ڈالر کی سالانہ سبسڈی دیتا ہے۔یورپی یونین سبسڈی کی مد میں اپنے کسانوں پر48 ارب یورو سالانہ خرچ کرتے ہیں، ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ا پنے شعبہ زراعت میں مختلف مد وں میں تقریباً 3000 کروڑ سالانہ خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں آکر زرعی شعبے میں ہر قسم کی سبسڈی اور ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جارہی ہے۔ صرف11-2010ء کے بجٹ کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ خوراک وزراعت کی ترقی کے اخراجات میں پچھلے بجٹ کی نسبت7127 ملین روپے کم رکھے گئے ہیں، دیہی ترقی کے بجٹ میں362 ملین روپے کم کردیے گئے ہیں، آب پاشی اور بجلی کے ترقیاتی بجٹ میں 18607 ملین روپے، ٹیکسٹائل کے ترقیاتی بجٹ میں345 ملین جبکہ لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلمپنٹ کے شعبے میں پچھلے بجٹ کی نسبت1662ملین روپے کی کمی کردی گئی ہے۔ اس ملک کی دیہی آبادی پیداوار کے اخراجات میںمسلسل مہنگائی سے دلبرداشتہ ہوکر شہروں کا رُخ کررہی ہے۔ جہاں غیر ہنر مند افرادی قوت کے طور پر زندہ رہنا جوئے شیرلانے سے کم نہیں، ملکی دیہی آباد ی اور کسانوں کو پیداواری مداخل میں سبسڈی دیے بغیر ملک میں غربت اور بھوک میں کمی کیسے لائی جاسکتی ہے؟ پاکستان کی زرعی افرادی قوت جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اگر یونہی غربت کی دلدل میں اُترتے رہے تو ملک میں خوراک کی قلت اور مہنگائی کا ایسا طوفان اُٹھنے کا اندیشہ ہے کہ وسیلہ حق، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، سرکاری لنگر خانے اور سستی روٹیوں کے تنوروں سمیت بے روزگار زرعی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سستے ٹریکٹروں کی فراہمی اور زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ کی سکیمیں بے اثر رہیں گی، چونکہ دوسری جانب زرعی سبسڈی کے مکمل خاتمے اور زرعی پیداواری مداخل کی مہنگائی کے سبب زرعی پیداوار کے اہداف پورے کرنا ناممکن ہورہا ہے، جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ10-2009ء کے لیے حکومت نے زرعی شعبے میں اہم اور نقد آور فصلوں کی پیداوار کا ہدف3.5 فیصد طے کیا تھا، جسے0.2 فیصد تک لانا ممکن ہوسکا۔ گزشتہ برس گندم کی پیداوار24.033 ملین ٹن تھی ،جو حالیہ سال میں23.864ملین ٹن حاصل ہوسکی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 26.20ملین ٹن گندم کی ضرورت کے مقابلے میں25 ملین ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اور اس ملک میں ”گندم کی کہانی“ سے کون واقف نہیں۔ ہمارے پاس گندم ذخیرہ کرنے کے وسائل نہیں، پہلے سے کم پیداواری ہدف حاصل کرنے کے باوجود گندم سستے داموں ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور پھر داخلی ضروریات پوری کرنے کے لیے مہنگے داموں امپورٹ کی جاتی ہے۔

زرعی پیداوار کے ادھورے اہداف میں چاول بھی شامل ہے۔ گزشتہ برس6.95 ملین ٹن چاول کی پیداوار حاصل کی گئی تھی جبکہ اس سال6.88 ملین ٹن چاول حاصل ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ سال گنا کی پیداوار50.05 ملین ٹن تھی جو اس سال کم ہوکر49.04 ٹن رہ گئی، بالکل یہی صورتحال دیگر نقد آور اور ضروری فصلوں کی نظرآتی ہے۔

پاکستان کی زرعی معیشت میں ترقی معکوس کے مقابلے میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس میں اعدادوشمار بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی اضافے کو معاشی بہتری اور اقتصادی ترقی کہا جاتا ہے تو صورتحال یوں ہے کہ30 جون1998ء تک51 برسوں میں پاکستان پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حجم2700 ارب روپے تھا۔ اگلے دس برس میں یعنی30 جون2008ءتک3700 ارب کے اضافے کے ساتھ یہ قرض6400 ارب روپے تک جاپہنچا، بعدازاں جولائی2008ءسے دسمبر2009 ءتک18 ماہ کے دوران یہ قرضہ9000 ارب روپے ہوگیا جس سے مراد یہ ہے کہ 30 جون2008ءتک ہم370 ارب روپے کا قرض لے رہے تھے اور آج ہم1750 ارب روپے کا سالانہ قرض لے رہے ہیں۔

ملکی معیشت کی اس دگرگوں صورتحال کے باوجود وفاقی وزیر خزانہ کو معاشی بہتری اور اقتصادی ترقی کا سرٹیفیکیٹ مبارک ہو، وفاقی وزیر کو ورلڈ بینک کی طرف سے ملنے والے اس سرٹیفیکیٹ پر فخر کرنا چاہیے کہ ہم ورلڈ بینک کی رائے پر سوال اُٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔

مآخذ: ہفت روزہ ہم شہری

Comments

comments

Latest Comments
  1. Windy Cicen
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.