حبیب بلوچ کے قتل کے دن سول سوسائٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بلوچ سارے نوجوان تھے۔ اس لئے طرح بہ طرح کے نعرے انکے جھاگ نکلتے منہ سے نکل رہے تھے۔ ان کی غصے سے آنکھیں سرخ تھیں۔ کبھی وہ فوج کے خلاف نعرے لگاتے تھے، کبھی ایف سی کے خلاف تو کبھی پاکستان کو بھی مردہ باد کہنے سے گریز نہیں کررہے تھے۔ سول سوسائٹی کے تمام اراکین جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل تھے۔ وہ ان کو بار بار یکجہتی کے نعرے لگانے کے لئے تلقین کرتے۔ وہ جواباً ایجنسیاں مردہ باد کے نعرے لگانے لگتے اس وقت ان کے غیظ و غضب اور کسی بات سننے کا حوصلہ نہ رکھنے کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے، ہم تمام بزرگ شخصیتیں وہاں سے قرار داد بغیر پڑھے نکل آئیں۔ اس پر بلوچ طلبا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر انہوں نے اپنے غصے کی جو وجوہات بتائیں۔ ان کو ضبط تحریر میں لانا اس لئے ضروری ہے کہ مجھے ان طلباء و طالبات کے جوش کو دیکھ کر 1971ء میں اقبال ھال کے جلنے اور بعد ازاں بنگال کی یورش کا سارا منظر آنکھوں میں گھوم گیا تھا۔بلوچ نوجوانوں کو بگتی صاحب کے قتل کے زمانے سے شکایت یہ ہے کہ ایف سی اور فوج جب چاہے اور جس کو چاہے دن دہاڑے اٹھا لیتی ہے اس وقت 670 نوجوان لاپتہ ہیں حکومت نے کہنے کو آغاز حقوق بلوچستان کے نام پر چودہ پندرہ نوجوان آزاد کردیئے تھے مگر اس کے بعد وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود، صورتحال بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو رہی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے سینئر رہنما آئی اے رحمان صاحب نے بھی اس شکایت کی
تصدیق کی اور کہا کہ چند ماہ قبل وہ اور ان کے ساتھی انہی معاملات کی چھان پھٹک کرنے کے لئے کوئٹہ گئے تھے۔عام اور خاص سب کو اکٹھا کیا تھا۔ سب کا ایک گلہ تھا، ایک ہی مطالبہ تھا اور ایک ہی شکایت تھی کہ ہمارے نوجوانوں کو کیوں بے وجہ اغوا کیا جا رہا ہے۔
یہی مطالبہ اور شکایت لیکر جب انسانی حقوق کمیشن کے اراکین وزیر اعلیٰ اور گورنر بلوچستان کے پاس پہنچے تو ان کا جواب تھا کہ یہ مسئلہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ فوج اور ایف سی سے اس کا جواب لیں۔ میں نے رحمان صاحب سے پوچھا اگر ہمارے گورنر اور وزیر اعلیٰ اتنے بے بس ہیں تو یا تو اس صورتحال پر استعفیٰ دے کر باہر آجائیں یا پھر باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے، اپنی بے مائیگی کے احساس کو سب کے سامنے لائیں اور یوں با ضمیر ہونے کا احساس کرائیں۔ رحمان صاحب نے کہا اتنے با ضمیر سیاست دان ہوتے تو37 میں سے 36 وزیر بن کر بیٹھے ہوتے اور ایک شخص حزب اختلاف میں نظر آتا۔ ان سب کو قوم سے زیادہ اپنی آسائش محترم ہے۔بلوچ طلبا نے کہا کہ ہمارے اوپر آئی جی نام کے جس شخص کو بٹھایا ہوا ہے وہ فوج کا بندہ ہے۔ چیف سیکریٹری اور دیگر افراد، ایف سی افواج کے سامنے بے بس ہیں۔
جب ان سے گلہ کیا گیا کہ انقلاب ٹارگٹ کلنگ اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے سے نہیں آتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ ہم اپنے ملک کو امریکیوں کے ذریعہ آزاد کراکے، ایک اور دبئی بنائیں گے۔ ہم نے پاکستان کی بہت غلامی کرلی اور بھوکے مرلئے۔ میں نے جب پوچھا کہ بلوچستان کی کل آبادی کا 42% حصہ بلوچی ہیں۔ باقی لوگ تو ہزارہ قبائل اور وہ سیٹلرز ہیں جو سویا ڈیڑھ سو سال پہلے پنجاب اور غیر منقسم ہندوستان سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ان لوگوں کو بھی آپ یہاں سے نکل جانے پہ زور دے رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ میں ہسپانک، کالے، چینی، جاپانی، ہندوستانی اور پاکستانی، آبادی کا 40 فی صد حصہ ہیں۔ ان کو امریکیوں نے برابر کے حقوق، ہر چند بہت جدوجہد کے بعد مگر بہرحال مجبور ہو کر دیئے تو ہیں اس کے جواب میں وہ بہرام داغ کی جدوجہد اور اس اعلان کو سامنے لے آئے کہ ہمیں اپنی آزادی کے لئے چاہے ہمیں ہندوستان سے مدد لینی پڑے تو چاہے امریکہ سے، ہم آزاد بلوچستان بنا کر ہی دم لیں گے۔
سوال یہ ہے کہ اس علاقے کی محرومیاں دور کرنے کے لئے کونسی قوتیں کام کررہی ہیں۔ ابھی تک بلوچستان میں بے پناہ معدنیات، سونے کے ذخائر، گیس کے ذخائر ہیں۔ ابھی تک بلوچستان کے صرف چار شہروں اور ان کے ملحقہ علاقوں میں گیس آئی ہے۔ جبکہ وہاں سے نکلنے والی گیس گزشتہ پچاس برس سے پاکستان کے دیگر علاقوں میں سپلائی کی جا رہی ہے۔اب جبکہ جنرل مشرف دوبئی میں 25 ویں فلور پر اپنا دفتر بناکر،39 ویں فلور پر پینٹیم ہاؤس میں رہ رہے ہیں۔ سیاست دانوں جن میں سنا ہے پیر پگاڑا اور حامد ناصر چٹھہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں سیاسی ملاقاتیں بھی دن رات کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے انجام کو سوچے بغیر پھر سیاست میں منہ مارنے کے لئے پاکستان آنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ اگر ہم آپس میں محض ایک پانی کا جھگڑا، صوبوں کے درمیان طے نہیں کرسکتے تو کیا کیانی صاحب کو تین سال کی توسیع ملازمت دینے سے ایسے قضیئے حل ہوسکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو علیحدہ مملکت کی شکل دینے میں پیش پیش ہے اور وہ بھی ہماری فوج کے ذریعہ ہو رہا ہو۔ تو پھر یہ نوجوان چاہے کوئٹہ میں ہوں کہ اسلام آباد میں فوج کے خلاف نبرد آزما کیوں ہیں۔
بلوچ نوجوان کیا چاہتے ہیں…کشور ناہید
حبیب بلوچ کے قتل کے دن سول سوسائٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بلوچ سارے نوجوان تھے۔ اس لئے طرح بہ طرح کے نعرے انکے جھاگ نکلتے منہ سے نکل رہے تھے۔ ان کی غصے سے آنکھیں سرخ تھیں۔ کبھی وہ فوج کے خلاف نعرے لگاتے تھے، کبھی ایف سی کے خلاف تو کبھی پاکستان کو بھی مردہ باد کہنے سے گریز نہیں کررہے تھے۔ سول سوسائٹی کے تمام اراکین جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل تھے۔ وہ ان کو بار بار یکجہتی کے نعرے لگانے کے لئے تلقین کرتے۔ وہ جواباً ایجنسیاں مردہ باد کے نعرے لگانے لگتے اس وقت ان کے غیظ و غضب اور کسی بات سننے کا حوصلہ نہ رکھنے کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے، ہم تمام بزرگ شخصیتیں وہاں سے قرار داد بغیر پڑھے نکل آئیں۔ اس پر بلوچ طلبا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر انہوں نے اپنے غصے کی جو وجوہات بتائیں۔ ان کو ضبط تحریر میں لانا اس لئے ضروری ہے کہ مجھے ان طلباء و طالبات کے جوش کو دیکھ کر 1971ء میں اقبال ھال کے جلنے اور بعد ازاں بنگال کی یورش کا سارا منظر آنکھوں میں گھوم گیا تھا۔بلوچ نوجوانوں کو بگتی صاحب کے قتل کے زمانے سے شکایت یہ ہے کہ ایف سی اور فوج جب چاہے اور جس کو چاہے دن دہاڑے اٹھا لیتی ہے اس وقت 670 نوجوان لاپتہ ہیں حکومت نے کہنے کو آغاز حقوق بلوچستان کے نام پر چودہ پندرہ نوجوان آزاد کردیئے تھے مگر اس کے بعد وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود، صورتحال بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو رہی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے سینئر رہنما آئی اے رحمان صاحب نے بھی اس شکایت کی
تصدیق کی اور کہا کہ چند ماہ قبل وہ اور ان کے ساتھی انہی معاملات کی چھان پھٹک کرنے کے لئے کوئٹہ گئے تھے۔عام اور خاص سب کو اکٹھا کیا تھا۔ سب کا ایک گلہ تھا، ایک ہی مطالبہ تھا اور ایک ہی شکایت تھی کہ ہمارے نوجوانوں کو کیوں بے وجہ اغوا کیا جا رہا ہے۔
یہی مطالبہ اور شکایت لیکر جب انسانی حقوق کمیشن کے اراکین وزیر اعلیٰ اور گورنر بلوچستان کے پاس پہنچے تو ان کا جواب تھا کہ یہ مسئلہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ فوج اور ایف سی سے اس کا جواب لیں۔ میں نے رحمان صاحب سے پوچھا اگر ہمارے گورنر اور وزیر اعلیٰ اتنے بے بس ہیں تو یا تو اس صورتحال پر استعفیٰ دے کر باہر آجائیں یا پھر باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے، اپنی بے مائیگی کے احساس کو سب کے سامنے لائیں اور یوں با ضمیر ہونے کا احساس کرائیں۔ رحمان صاحب نے کہا اتنے با ضمیر سیاست دان ہوتے تو37 میں سے 36 وزیر بن کر بیٹھے ہوتے اور ایک شخص حزب اختلاف میں نظر آتا۔ ان سب کو قوم سے زیادہ اپنی آسائش محترم ہے۔بلوچ طلبا نے کہا کہ ہمارے اوپر آئی جی نام کے جس شخص کو بٹھایا ہوا ہے وہ فوج کا بندہ ہے۔ چیف سیکریٹری اور دیگر افراد، ایف سی افواج کے سامنے بے بس ہیں۔
جب ان سے گلہ کیا گیا کہ انقلاب ٹارگٹ کلنگ اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے سے نہیں آتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ ہم اپنے ملک کو امریکیوں کے ذریعہ آزاد کراکے، ایک اور دبئی بنائیں گے۔ ہم نے پاکستان کی بہت غلامی کرلی اور بھوکے مرلئے۔ میں نے جب پوچھا کہ بلوچستان کی کل آبادی کا 42% حصہ بلوچی ہیں۔ باقی لوگ تو ہزارہ قبائل اور وہ سیٹلرز ہیں جو سویا ڈیڑھ سو سال پہلے پنجاب اور غیر منقسم ہندوستان سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ان لوگوں کو بھی آپ یہاں سے نکل جانے پہ زور دے رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ میں ہسپانک، کالے، چینی، جاپانی، ہندوستانی اور پاکستانی، آبادی کا 40 فی صد حصہ ہیں۔ ان کو امریکیوں نے برابر کے حقوق، ہر چند بہت جدوجہد کے بعد مگر بہرحال مجبور ہو کر دیئے تو ہیں اس کے جواب میں وہ بہرام داغ کی جدوجہد اور اس اعلان کو سامنے لے آئے کہ ہمیں اپنی آزادی کے لئے چاہے ہمیں ہندوستان سے مدد لینی پڑے تو چاہے امریکہ سے، ہم آزاد بلوچستان بنا کر ہی دم لیں گے۔
سوال یہ ہے کہ اس علاقے کی محرومیاں دور کرنے کے لئے کونسی قوتیں کام کررہی ہیں۔ ابھی تک بلوچستان میں بے پناہ معدنیات، سونے کے ذخائر، گیس کے ذخائر ہیں۔ ابھی تک بلوچستان کے صرف چار شہروں اور ان کے ملحقہ علاقوں میں گیس آئی ہے۔ جبکہ وہاں سے نکلنے والی گیس گزشتہ پچاس برس سے پاکستان کے دیگر علاقوں میں سپلائی کی جا رہی ہے۔اب جبکہ جنرل مشرف دوبئی میں 25 ویں فلور پر اپنا دفتر بناکر،39 ویں فلور پر پینٹیم ہاؤس میں رہ رہے ہیں۔ سیاست دانوں جن میں سنا ہے پیر پگاڑا اور حامد ناصر چٹھہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں سیاسی ملاقاتیں بھی دن رات کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے انجام کو سوچے بغیر پھر سیاست میں منہ مارنے کے لئے پاکستان آنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ اگر ہم آپس میں محض ایک پانی کا جھگڑا، صوبوں کے درمیان طے نہیں کرسکتے تو کیا کیانی صاحب کو تین سال کی توسیع ملازمت دینے سے ایسے قضیئے حل ہوسکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو علیحدہ مملکت کی شکل دینے میں پیش پیش ہے اور وہ بھی ہماری فوج کے ذریعہ ہو رہا ہو۔ تو پھر یہ نوجوان چاہے کوئٹہ میں ہوں کہ اسلام آباد میں فوج کے خلاف نبرد آزما کیوں ہیں۔
Jang, 22 July 2010