Munafiq ki aqeedat – by Ahsan Abbas Shah

Here is an analysis of the cruel role played by Jamat-e-Islami, Tehreek-e-Insaaf and some pro-Taliban journalists in Pakistan’s war on terror. We will keep exposing terrorists and their apologists through our social journalism platform called Let Us Build Pakistan (LUBP)

 پُرانے وقتوں کا قصہ ہے، ایک سید بادشاہ نے دُنیاوی جھمیلوں سے اُکتاکر، اپنے رب سے قُربت کی تلاش ، تقوٰی اور زُہد کی پاداش میں جنگل کا رُخ کیا۔ کسی پیڑ کی گھنی چھاؤں تلے قیام کرتا، عبادت اور تسبیح کرتا، اور کائنات کے حسین نظاروں میں دکھائی دیتی اللہ کی وحدانیت کی حمد کرتا۔ دُنیاوی لذتوں سے دُور بھوک پیاس میں جنگلی پھل اور تالاب کا پانی پی کر گُزارہ کرتا۔ روز و شب اِسی طرح سے گُزرتے رہے اور سید زادے نے اپنا سفر جاری رکھا۔ جنگلوں، میدانوں ، دریاؤں کو عبور کرتا وہ چٹیلے پہاڑی سلسلوں پر جا پہنچا۔عبادت میں گُزرتے روز وشب نے اُس کا دھیان کبھی اِدھر آنے ہی نہیں دیا کہ پہاڑوں کے اس چٹیلے سِلسلوں کو عبورکرنے میں نجانے کتنا وقت درکار ہو اور بھوک پیاس میں کونسا اِنتظام ہوگا۔ساتھ لائے جنگلی پھل ختم ہوئے مگر پہاڑی سِلسلہ ختم نہ ہُوا، عبادت گُزاری اور شُکر مندی کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، کُچھ عرصہ مزید گُزرا تو بھوک اور پیاس کی طلب نے شدت اختیارکی،بھُوک اور پیاس سے بے حال ایک پہاڑ کی چوٹی تک جا پہنچا تاکہ زندگی کے کُچھ آثار دکھائی دیں، کوئی ایسا وسیلہ تلاش ہو جِس سے اُس کی بھوک مِٹ سکے اور پیاس بُجھ سکے۔

رات ڈھلی تو دُور ایک بستی کے جلتی روشنیوں میں زندگی کے اَثرات سُجھائی دئیے۔عبادت اور سفر کو جاری رکھا اور میلوں مُسافت طے کرنے کے بعد اُس بستی میں جا پہنچے، بستی میں پہلے در پر دستک دی ، جو نِکلا اُس سے کُچھ ایسے گویا ہوئے،“میں اللہ کا عبادت گُزار اور سید زادہ ہوں، بُلند چٹیل پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے بھوک اور پیاس کی شِدت نے مجھے نڈھال کر دیا ہے۔ بھُوک سے عبادت بھی نہیں ہو پا رہی۔ مُجھےبھوک مٹانے کے لیے کھانا اور پیاس بُجھانے کے لیے پانی دو۔ اللہ تمہیں اِس کا اَجر دے گا۔“۔ بستی میں بات سُننے والے پہلے شخص نے ہی دروازہ بند کر لیا، سید زادے نے صبر کرتے ہوئے آگے کی راہ لی اور ایک دوسرے دروازے پر جا پہنچا، دروازہ کھٹکھٹایا اور نکلنے والے سے وہی سوال کیا جو پہلے سے کیا تھا، مگر جواب میں دروازہ بند پایا۔ ایسے ہی در در ہوتا ہوا ایک قدرے بڑے اور بہتر در کی جانب آیا ، دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک شخص کو اپنے سامنے پایا جو حُلیے سے قبیلے کا سردار معلوم پڑتا تھا۔ سید زادے نے نحیف لہجے میں اپنا سوال دُہرایا۔“میں اللہ کا عبادت گُزار اور سید زادہ ہوں، بُلند چٹیل پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے بھوک اور پیاس کی شِدت نے مجھے نڈھال کر دیا ہے۔ بھُوک سے عبادت بھی نہیں ہو پا رہی۔ مُجھےبھوک مٹانے کے لیے کھانا اور پیاس بُجھانے کے لیے پانی دو۔ اللہ تمہیں اِس کا اَجر دے گا۔“۔ قبیلے کے سردار نے اُسے خوش آمدید کہا، بٹھایا ۔ طعام کے بندوبست میں لگ گیا، کُچھ ہی دیر میں انواع قسم کے کے کھانے اور مشروبات سید بادشاہ کی خِدمت میں پیش کئے گئے،شُکرِ خُدا بجا لاتے ہوئے سید زادے نے کھانا شروع کیا، بھوک اور پیاس کی شِدت نے جسم کو لاغر کر دیا تھا ، آہستہ آہستہ نعمتِ خداوندی سے سیراب ہُوا اور اپنے رب کا شُکر ادا کیا۔ ساتھ ہی ساتھ قبیلے کے سردار کا بھی شُکریہ ادا کیا۔ قبیلے کے سردار نے دیکھا کہ اب سید زادہ کھا پی چُکا ہے، وہ اندر گیا اور بندوق اُٹھا لایا، اِس سے پہلے کہ سید زادہ کُچھ سمجھ پاتا قبیلے کے سردار نے گولی چلا دی اور سید زادے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

گولی کی آواز سُن کر قبیلے کے بقیہ لوگ بھاگتے چلے آئے، منظر دیکھا توسمجھ گئے کہ سردار نے کِھلا پِلا کر مار دیا ہے۔ سردار سے مِل کر استفسار کیا کہ کھانا بھی کھلا یا اور موت کے گھاٹ بھی اُتار دِیا ایسا کیوں کیا؟ جواب میں سردار نے بڑے عقیدت مندانہ لہجہ اپناتے ہوئے کہا “پہلے شاہ صاحب کے مزار پر دُعا کرنے کو دو سو میل دُور جانا پڑتا تھا، ابھی اِس شاہ صاحب کو اِدھرہی دفنائے گا اور اِدھر ہی چراغ جلاکر دُعا کیا کرے گا “۔


پاکستان کے قیامِ کے بعد ہی کئی ایسے سرداروں کا مافیا قائم کر دیا گیا تاکہ مُملکتِ خداد میں تفرقہ قائم رکھ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، قیامِ پاکستان کی تحریک کے اوائل میں ایسے سرداروں پر مشتمل جتھے نے قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم بھی کہااور پاکستان کی پیدائش کو درندے کے پیدائش سے تشبیہ دی۔ اپنی آنکھوں کے سامنے پاکستان کو خلق ہوتا تو دیکھ لیا مگر کبھی اس کی سالمیت اور بقا کے لئے صدقِ دِل سے دُعا نہیں کی، مُنہ پر عقیدت مندی اور ہمدردی کی تاثرات لیے آج بھی یہ لوگ نظریہ پاکستان کی بقاء کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو کنفیوژ کرنے پر تُلے ہیں۔ در حقیقت ان کے بغل میں چھُری اور منہ پر رام رام ہے، وہ کسی مذہب ، کسی عقیدے ، کسی سیاسی سماجی یا مذہبی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو اگر نہتے عوام کی جانوں سے کھیلنے والوں کے لیےکوئی نرم گوشہ رکھتا ہے تو اُس کا کردار قابلِ مذمت ہے۔مُنافقانہ پالیسی پر عملد درآمد ایسے ہی قبیلے کے کُچھ کالم کار ایسے بحث و مُباحثے کو منعقد کراتے ہیں کہ جس کا کوئی اَنت نہیں،یہ مذہبی انتہا پسندی کو قلم سے پھیلانے میں ہر فورم پر موجود ہیں، مثال کے طور پر پروفیسر اَرتھ مین جیسے کردار جو مذہبی منافرت کو کچھ ایسے انداز میں پھیلاتے ہیں کہ پاکستان سے عقیدت مندی کا عنصر بھی ان کی تحریر میں موجود رہتا ہے مگر در حقیقت ایسی تحریر پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی گھناؤنی سازش ہوتی ہے۔

اب جب کہ پاکستان اس نہج پر پُہنچ چُکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود ہمارے اولیاء کرام کے مزارات محفوظ نہ رہے، ہمیں اِس سوچ کی واضع تصویر اُس طبقے کو بھی دکھانی ہے جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے، وہ طبقہ پاکستان کا اَن پڑھ طبقہ ضرور ہے مگر اُن میں ظالم اور مظلوم میں تفریق کرنے کی حِس موجود ہے۔یہ وہی طبقہ ہے کہ جس کے لیے نہ سکیورٹی گارڈز ہیں نہ ہی بُلٹ پروف گاڑیاں۔ مرنے والوں میں تعداد بھی سب سے زیادہ انہی کی ہے، کبھی یہ مسجد میں نماز پڑھتے شہید کر دیے جاتے ہیں اور کبھی داتا کا لنگر تناول کرتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی ، وکلاء تنظیمیں، صحافی برادری اور سیاسی جماعتیں اِس طبقے سے عقیدت تو بہت رکھتے ہیں مگر اِس مظلوم طبقےکی شہادتوں کے موقع کو اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اِستعمال کرتے ہیں، اُن کی عقیدت کی مثالیں ہر خود کش حملے کے بعد جاری کردہ بیانات ہی تو ہیں ، شہیدوں کو سُنی، شعیہ، بریلوی۔ پنجابی، سندھی ، مہاجر اور پٹھان کے تفرقوں میں ڈال کر کنفیوژ ن پیدا کی جاتی ہے، ایسا مواد لکھا جا تا ہے کہ جس کو پڑھنے سے مذہبی اشتعال انگیزی کو فروغ ملتا ہے۔

حیرت کا اَمر یہی ہے کہ ایسا مُنافقانہ ٹولہ جو مذہبی مُنافرت اور سیاسی بے چینی کا مؤجد ہے اپنے آپ کو پاکستان کا انتہائی ہمدرد اور عقیدت مند ظاہر کرتا ہے، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے اب تک اِس ٹولے نے اپنی مُناققانہ پالیسیوں سے اِس مُلک کی بُنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی ہے، یہ مُنافق سوچ کہیں قلم سے تو کہیں ہمدردانہ بیانات سے طالبان کو ڈھال فراہم کر رہی ہے، کوئی سرکاری پروٹوکول میں ظالموں کو ساتھ بٹھا کر اَن کی ہمت افزائی کرتا ہے تو کوئی ڈرون حملوں کو وجہ قرار دے کے اِن کے درندہ صفت حملوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔ بم اور بندوق سے لیس اِن ظالموں کا مُقابلہ کرنے کے لیے عوام کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار “ووٹ“ ہے جس کو استعمال کرنے کا بائیکاٹ کا اعلان بھی ایسے ہی عوامل کرتے ہیں۔

داتا کی دربار پر ہونے والے حملے پر حیرت زدہ اِس لئے بھی نہیں کیوں کہ جِن کی نسلوں میں سے کسی کے ایسے اوصاف نہ ہوں کہ اُن کا مزار بنایا جاتا اُنہوں نے پاکستان میں مزارات پر بھی حملے کئے، مگر اِن درندوں سے مُذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹنے والی قؤتوں کوآئینہ دکھانا ہوگا۔ عمران خان کے اپنے گھر اگر کوئی لاش آتی تو ٩٠ دِن چھوڑ کر٩٠ منٹ میں مذاکرات کر لیتے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔بالکل ویسے ہی میڈیا اینکرز کو اپنے پروگراموں میں ظالم اور مظلوم کا فرق بتانا چاہیے مگر یہاں بے لگام میڈیا اپنے بنائے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بھی بکھیرتا ہے بلکہ ایسی شہادتوں کے بعد مظلوم عوام کو شیعہ، سُنی اور بریلوی کے گروہوں میں تقسیم کرتا پایا جاتا ہے۔سِتم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ بھی شہیدوں کے ورثاء کو کسی ظالم کے پھانسی چڑھا دینے کی نوید نہیں سناتی بلکہ ظالموں کو ایسے باعزت بری کر دیا جاتا ہے کہ جیسے قاتل مظلوم اور قتل کئے جانے والے ظالم تھے۔

در حقیقت ایسے عوامل طالبان کے خلاف لڑی جانے ولی جنگ میں اِن ظالمان کی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔ایسی عقیدت مندی اور عقیدت مندوں کے شر سے اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے۔

سید احسن عباس رضوی
احسن شاہ

Comments

comments

Latest Comments
  1. irfan urfi
    -
  2. Zul-Jinnah
    -
  3. Ishaq Khan
    -
  4. vilar
    -