The story of a sharif judge – by Kashif Naseer

First published at: Kashif Naseer ka blog

کہانی ایک شریف جج کی

ہمارے یہاں جو لوگ مقام قضاء پر فائز کئے جاتے ہیں، اکثر قاضی بن کر بھی اپنے ماضی میں گم رہتے ہیں۔ طلبہ یونین سے لیکر بار ایسوسیشن کی سیاست کے تمام مدارج انکے زہن میں ایسے رچ بس جاتے ہیں کہ وہ کمرا عدالت کو بھی کوئی پولنگ اسٹیشن سمجھنے لگتے ہیں اورچونکہ ہماری سیاست مکر اور فریب کا دوسرا نام ہیں اس لئے یہ عدالتیں بھی اسی رنگ میں رنگ جاتی ہیں، واقفان حال جانتے ہیں کہ اکثر سیاسی وفادریاں اور زاتی و نظریاتی دشمنیاں بھی عدالتی فیصلوں اور انصاف کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ مانا کہ سیاست اور سیاسی سوچ رکھنا ہرانسان کا بنیادی اور انسانی حق ہے، لیکن جج صاحبان نے ریاست اور اسکی عوام سے بلا تفرئق وفاداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے اسلئے سیاسی جماعتوں کی نوکری انہیں زیب نہیں دیتی۔ صاحب اب اگر وہ ضیاوں، شریفوں، زرداریوں اور پریزوں کے خادم بن جائیں اور عدالتی قتل سے لے کر سیاسی نااہلی اورآئینی ترامیم تک کے فیصلے کرنے لگیں تو قاضی اور افسر شاہی نہیں چپراسی رہ جاتے ہیں، گھٹیا اور رشوت خورمڈل پاس چپراسی۔ پھر لوگ صحیح تو کہتے ہیں کہ فیصلہ چاہیے تو وکیل کیوں کرتے ہو کوئی جج کرلو، صاحب جج نہیں چپراسی، گھٹیا اور رشوت خور مڈل پاس چراسی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے حکمران جو ہمیشہ عقل و فہم کے ماخذ رہے ہیں نے وکلا کی زحمت کم ہی اٹھائی اور ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں ہمیشہ جج ہی کئے۔ پچھلے دو عشروں میں لاہورکے میاں صاحب سب سے آگے رہے کہ اپنے دنوں عہد حکومت میں جی بھر کی شیر بھرتی کئے مگر پیپلز پارٹی بھی کب پیچھے رہتی ہے۔ ڈکٹیٹر تو ڈکٹیٹر ہوتا ہے وہ کیا جانے سیاست کی باریکیوں کو، سو جب ڈکٹیڑہوتے ہیں تو جج صاحبان کی مشکلات اور آسان ہوجاتی ہے کہ ادھر لکھے لکھائے فیصلوں کو پڑھتے ہیں اورادھر عبوری آئینی احکامات ،1973 کے دستورسے ہم آہنگ اور مقبول ترین قومی لیڈر پھانسی کی کال کوٹھری میں پہنچ جاتا ہے۔ عام طور پرججوں کی یہ خدمات کوچہ سیاست میں اثر سے زیادہ اقدار کے ایوانوں میں گزر بسر مشروط سے ہوا کرتی ہیں۔

کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ وکالت جھوٹ کا کالک دھندہ ہے اور بڑا وکیل وہ مانا جاتا ہے جو ناقابل شکست رہا ہو، ہاں ہمارے یہاں یہی حقیقت ہے۔ وہ جنہیں وکیل کہتے ہیں کاغذ کے چند درجن نوٹوں کے بدلے چوروں اور ڈاکوں کے ہوجاتے ہیں اوراپنی چرب زبانی سے چھوٹ کوسچ اور سچ کو جھوٹ بناکر مظلوموں کو اندر اور مجرموں کو باہر کرادیتے ہیں۔ پھر یہی وکیل جج بنتے ہیں۔ گوسب وکیل ایسے نہیں ہوتے اور گو سب جج ایسے نہیں ہوتے لیکن سچ اور حق یہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں اکثر جھوٹ اورظلم ہی کی تجارت ہوتی تھی اورآج بھی ہوتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک ناانصافی اور ظلم کی تاریکی میں ایک روشنی کی کرن کی طرح نمودار ہوئی اور یقینا اس کے نتیجے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں نظر آئیں۔ لیکن آج بھی ماتحت اور چھوٹی عدالتوں کی صورتحال قابو سے باہر ہیں اوربڑی اور اعلی عدلیہ کے کچھ جج اور اکثر وکیل بھی پرانے ڈھنگ پر چل رہے ہیں۔ جسٹس خواجہ محمد شریف بھی ان بے ڈھنگے ججوں میں سے ایک ہیں۔ البتہ اوروں کے مقابلے میں خواجہ شریف مختلف ہیں کہ صرف وہ سیاست ہی نہیں کرتے بولتے بھی بہت زیادہ ہیں جیسے انہیں اخبارات اور میڈیا میں زندا رہنے کا بہت شوق ہو، انکے اس ڈھنگ نے انہیں آج پاکستان کا سب سے متنازعہ جج بنادیا ہے۔ اتنا متنازعہ کہ وہ پوری آزاد عدلیہ کہ وجود پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی حکومت نے انکے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا ہے اور میرے نزدیک بلکل صحیح دائر کیا ہے۔

جسٹس خواجہ شریف صرف بولتے ہی نہیں، بے تکا بھی بہت بولتے ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ وہ خود کولیڈراور ہیرو سمجھتے ہیں۔ ہیرو اس لئے کہ وہ اپنی اصول پسندی اور بہادری کا مظاہری کرتے ہوئے پی سی او کے سامنے بندھ باندھ کر کھڑے ہوگئے تھے لیکن صاحب یہ اصول پسندی اور بہادری مشرف کے پہلے پی سی او کے وقت کہاں گھانس کھانے چلی گئی تھی۔ اگر کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کرے توقوم سے پی سی او زدگی پر معافی نہیں مانتے ، غلطی کا اعتراف نہیں کرتے اور کمال ڈھٹائی سے پھراسے نظریہ ضرورے کے قائل ہوجاتے ہیں جسے دفن کرنے کا دعوا کرتے ہیں۔

باسٹھ سالہ خواجہ شریف جنہیں ریٹارمنٹ میں اب صرف ایک آک سال رہ گئے ہیں نے 1971 میں وکالت شروع کی اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ وہ1989 اور1991 میں دو فعہ آئی جے آئی کے حامی وکلا کے ووٹ سے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسیشن کے صدر منتخب ہوئے اور نواز شریف کے منظور نظر بنے۔ اسی منظور نظری کے سہارے وہ پہلے صوبہ پنجاب کے ایڈوکیٹ جرنل اور پھر اکئیس مئی 1998 کو وہ ہائی کورٹ کے جج ہوئے اور 12 اپریل 2009 کو انہیں سنیارٹی کی بنیاد پر صوبہ کا چیف جسٹس بنادیا گیا۔ رواں سال کے آغاز میں حکمران پیپلز پارٹی کو اندازہ ہوا تو کہ اسنے کتنی بڑی انتظامی غلطی کی ہے تو فیصلے کو ان ڈو کرنے کے لئے ایک غیرآئنی نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی غلطی کی اور منہ کی کھنانے کے بعد نوٹیفیکشن کو واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ لیکن جو کام پیپلز پارٹی کی موجودہ ذہین ، فطین اور شاطر قیادت بھی نہیں کرسکی وہ جسٹس خواجہ خود کررہے ہیں۔ اپنے آئے دن کے بیانات اور کچھ مشکوک فیصلوں کی وجہ سے وہ آج کی تاریخ میں پاکستان کے سب سے متنازعہ جج ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ سے انکی رخصتی زیادہ دن کی بات نہیں لگتی اور اگر یہ رخصتی نہیں ہوئی تو لاہور ہائی کورٹ پاکستان کی سب سے متنازعہ کورٹ میں تبدیل ہوجائے گی اور اسکے ہر فیصلے پر انگلیاں اٹھائی جائے گی اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک جس میں بہت سے لوگوں نے قربانیاں دی رائیگاں جائے گی۔

کون نہیں جانتا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری دوسال سے زائد عرصے تک عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے ماخذ تھے۔ اس دوران انہوں نے لاتعداد خطبات کئے لیکن ان لاتعداد خطبات میں کوئی ایک فقرا بھی نہیں ملتا جسے سیاسی قرار دیا جاسکتا ہو۔ پرویز مشرف نے انسے زاتی لڑائی لی اور دو دفعہ طویل مدت کیلئے نطربند کیا، گھر والوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا لیکن وہ کبھی بدلے کی زبان لے کر نہیں بولے، اپنے فیصلوں سے بھی نہیں بولے۔ لیکن جسٹس خواجہ کو بولنے کا بہت شوق ہے فیصلوں سے بھی اور بار ایسوسی ایشن سے بھی۔

جسٹس خواجہ شریف کو اگر بیانات داغنے ، اخبارات میں خبر بنوانے اور تجزیہ نگاری کرنے کا اتنا شوق ہے تو انہیں چاہئے کہ دارالقضاء سے دائمی رخصت لے لیکر سیدھا رائیوند جائیں، ممکن ہے آئندہ سیٹ اپ میں وہ سلمان تاثیر کا متبادل ثابت ہوں، لیکن یہ جج رہ کر اور مقام قضاء پر بیٹھ کر جو کچھ کررہے وہ اس مقام اور منصب کے ہرگز شایان شان نہیں۔ وہ پہلے ہی متنازعہ تھے اور ہر نئے بے تکے بیان کے ساتھ مزید متنازعہ ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے متنازعہ شخص سیاست کے پر خار دریچوں میں نوراکشتی کھیلتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ مانا کہ سیاست اور سیاسی سوچ رکھنا ہرانسان کا بنیادی اور انسانی حق ہے، لیکن جج صاحبان نے ریاست اور اسکی عوام سے بلا تفرئق وفاداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے اسلئے سیاسی جماعتوں کی نوکری انہیں زیب نہیں دیتی۔ صاحب اب اگر وہ ضیاوں، شریفوں، زرداریوں اور پریزوں کے خادم بن جائیں اور عدالتی قتل سے لے کر سیاسی نااہلی اورآئینی ترامیم تک کے فیصلے کرنے لگیں تو قاضی اور افسر شاہی نہیں چپراسی رہ جاتے ہیں، گھٹیا اور رشوت خورمڈل پاس چپراسی۔ پھر لوگ صحیح تو کہتے ہیں کہ فیصلہ چاہیے تو وکیل کیوں کرتے ہو کوئی جج کرلو، صاحب جج نہیں چپراسی، گھٹیا اور رشوت خور مڈل پاس چراسی۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akhtar
    -
  2. Akhtar
    -