Those who sell hate in the name of religion – by Farhan Q
مسلہ سارا یہ ہے کہ مولویوں نے حقوق کی جنگ کو اسلام کی جنگ بنادیا ،اور حکومت کرنا جو ایک اتظامی معاملہ ہے ،اسے بھی اسلامی بنا دیا
امریکا سے لڑائی چین کی بھی ہے اور روس کی بھی پر ان کی لڑائی خالص دنیا کے لیے ہے- اسی طرح امریکا کا جھگڑا نہ مسلم کا ہے نہ کافر کا اس کی اچھی بری پالیسی اس کے اپنے مفاد کے لیے ہے اور ہمارے ملا کو اپنا دین خطرے میں نظر آتا ہے
اگر کسی ہندو اور مسلمان میں کسی کاروبار میں جھگڑا ہو جائے تو کیا یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہوگی ؟ یہی جھگڑا کشمیر میں ہے اور جھگڑے کی بنیاد حقوق ہیں نہ کہ مذہب – مگر یہ مذہبی انتہا پسند اپنی دکان چمکانے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں
مسلہ مذہب سے نہیں اس کو پیشہ بنانے والوں کا ہے ،حدیثوں میں ہے کے قیامت کے قریب لوگ دین کو پیشہ بنائیں گے ، پر یہ بات کوئی مولوی نہیں کرتا ہے – قاری ،امام ،جہادی ،مدرسے کا منتظم – سب کے سب ایک پیشے کے طور پر کیے جاتے ہیں ،پھر یہی لوگ چاہتے ہیں کے ان کو حکومت بھی دی جائے یہ صرف مال اور جاہ کی محبت ہے اور دین کا نقاب ہے
مذہب ان کا پیشہ ہے
یہ قرآن پڑھتے ہیں اور حفظ کرتے ہیں تا کہ وہ قرآن پڑھا کر پیسے کمائیں
یہ مدرسے جاتے ہیں اس لیے کہ ایک دن ان کو امام کی نوکری ملے گی اور دو وقت کا کھانا اور گھر مفت ملے گا
یا صرف اذان دینے پر آدھی تنخوا ملے گی
اگر مفتی بن گئے تو اور مزے
اگر یہ بھی نہیں ہو سکے تو ایک مدرسہ کھول لیں اور چندے کے نام پر اپنے گھر کا خرچ چلائیں
اگر کچھ بھی نہیں آتا تو مذہبی سیاسی جماعت میں چلے جائیں کیوں کہ اس میں نام بھی ہے اور “اسلامی حکومت ” آنے پر وزیر بننے کے چانس بھی
پر سب سے زیادہ ٹیکا اور مال تو جہادی بننے میں ہے- آگے پیچھے لوگ ،اسلحے کا انبار ،فوجیوں سے تعلق ، دین بھی دنیا بھی
پر یہ سے کیسے ہوگا ،یہ دکان کیسے چلتی رہے گی ؟؟
یہ پیشہ ور مولوی اندر سے کھوکھلے ہیں ،ان کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں – یہ مثبت باتیں کیوں نہیں پھیلاتے ؟ یہ ایمان ،اخلاق ،محبت ،رواداری ،حسن سلوک ،امن ،ایک دوسرے کی عزت اور مدد کی ترغیب کیوں نہیں دیتے ؟
کیوں کہ یہ پیشہ ور مولوی جانتے ہیں کے ان کے پاس کوئی ایسی مثبت باتیں نہیں جو دوسرے کو متاثر کر سکیں اور نہ ہی ان باتوں سے ان کی روزگار چلے گا اور نہ ہی ان کی دکان چمکے گی
ان کی دکان ،روزگار اور کاروبار صرف اور صرف ایک چیز سے چل رہا ہے وہ ہے “نفرت ”
نفرت
یہی ہے ان کی اصل بقا
نفرت پر لوگوں کو جمع کرنا اور نفرت کی بنیاد پر اپنی دکان چمکانا اور مشھور ہونا ان کا پیشہ ہے
انڈیا کی نفرت ، شیعہ سے نفرت ،سنی سے نفرت ،امریکا سے نفرت ،بریلوی مخالفت ،فقہ مخالفت ،پریلوی کی بنیاد دیوبندی سے نفرت ،دیوبندی مولوی کی بنیاد بریلوی اور شیعوں سے نفرت ،اہلحدیث کی ساری تقریروں میں حنفیوں کی مذمّت ،شیعوں کی کتابوں میں نفرت .جماعت اسلامی کی دکان امریکا اور اسرایل کی نفرت سے چلتی ہے چاہے ملک میں مسلمان مسلمان کو قتل کرے یہ کتنے ہی اجتمائی زنا کے واقعے ہوں یہ مولوی کچھ نہیں بولتے – بولتے ہیں تو ہزاروں میل دور ہونے والے واقعہ پر جس سے ان کی “مسلمانی ” جاگتی ہو
نوے فیصد پیشہ ور مولویوں کی بنیاد کسی نہ کسی کی مذمت یا نفرت پر ہے ،اور کچھ نہیں تو ان مولویوں کو “اسلامی نظام ” کی نئی بدعت نے متاثر کر دیا ہے ،روزانہ یہ خواب دیکھتے ہیں کے ایک دن ان کی جماعت کا امیر پاکستان کا امیر المومنین بنا ہوگا اسی بنیاد پر یہ ہر حکومت اور سیاسی جماعت کی مخالفت کرتے ہیں
ان مولویوں کے پاس بس نفرت ،گولی ،گالی ،غصہ اور سفاکیت ہے ،کیا ان کو دیکھ کر کوئی کہ سکتا ہے کے یہ ایک ایمان والے مومن کی صفات ہیں ؟ کیہ یہ قرآن میں بیان کی گئی “عباد الرحمن ” کی نشانیوں میں سے کسی ایک پر بھی پورے اترتے ہیں ؟
برصغیر کے کروڑوں لوگ آج جو مسلمان ہیں وہ ایمان اور محبت کے پیغام کو دل سے قبول کرکے مسلمان ہوئے ہیں نہ کہ کسی “اسلامی نظام ” یا کسی کے ڈنڈے کے زور پر ،جب نہ پاکستان تھا ، نہ جہادی نہ پاکستانی “فوج ” اسلام کی حفاظت کے لیے اور اس دور میں اسلام ان بزرگان دین کے ذریے پھلا پھولا
اسلام دل سے قبول کرنے کا نام ہے ،اس کے فائدے روحانی ہیں اور مولوی اس سے دنیا ڈھونڈ رہا ہے اور کاروبار بنا رہا ہے
حدیث میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آخری زمانے میں دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے گا اور جو یہ لوگ کریں گے ان کی زبان شیریں پر دل بھیڑیے کے ہونگے اور الله ان کو ایسے فتنوں میں مبتلا کرے گا کہ عقل والوں کی عقل دنگ رہ جائے گی
Dear sir or madam, very good article, please inform me who is the author of this article becos in title it say “Farhan Q” however in the bottom it say Author: Abdul Nishapuri.
Thank You for good site!
@Rajab, I am only a postman. The article has been written by Farhan Q, a valued member of the LUBP team of authors.
اس زخم کابھرنا سہل نہیں…سویرے سویرے…نذیر ناجی
داتا دربار کی مسجد پر حملہ طبل جنگ کے مترادف ہے۔ اگر ہم اسے بھی نہ سن سکے تو اپنی داستان‘ داستانوں میں ڈھونڈا کریں گے۔یہ ایک عہد یا ایک نسل پر حملہ نہیں۔ صدیوں میں پھیلے روحانی اثاثوں اور آنے والی نسلوں کے یقین اور اعتقاد پر حملہ ہے۔ بے شک عوام میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ لیکن روایتی بدنظمی اور عدم اتفاق کی جھلکیوں کے ساتھ۔
شاید اجتماعی طور پر ہم ابھی تک اس صدمے کی تاب نہیں لا سکے۔ یا ہم سکتے کے عالم میں ہیں۔ یا شدت غم سے ہمارے احساسات جامد ہو گئے ہیں۔ یا ہم خطرات کو سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ آخری بات مجھے زیادہ موزوں لگتی ہے۔ جو قوم مشرقی پاکستان کاسانحہ بھلا کر‘ دو مزید آمریتیں برداشت کرسکتی ہے‘ اس سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
ہمیں تو ترجیحات کا تعین کرنا بھی نہیںآ تا۔ ہم بے لباس ہونے کا خطرہ بھول کر اترے ہوئے کپڑوں کے داغ دھبے دھونے میں لگے ہیں۔ مستقبل کو فراموش کر کے ‘ ماضی کی زینت و آرائش پر زور دے رہے ہیں۔ آج کے پوائنٹ سکور کرنے کے لئے‘آنے والے کل کے سوالوں کا جواب ڈھونڈنا بھول چکے ہیں۔ گھاس میں چھپے سانپوں سے نظر ہٹا کر‘ بندروں کی طرح ایک دوسرے کی جوئیں نکال رہے ہیں۔ پاکستان کے قلب میں گہرا گھاؤ لگانے والے ہاتھ کو ڈھونڈنے کے بجائے یہ کہہ کراپنی تسلی کر رہے ہیں کہ اس سانحے میں بیرونی دشمنوں کا ہاتھ ہے۔ کون سے بیرونی دشمن؟ سب کچھ ہمارے ملک کے اندر ہو رہا ہے۔ مارنے والے بھی یہیں کے ہیں اور شہید ہونے والے بھی۔
میں باربار کہتا ہوں جب تک سیاست و اقتدار کے کھیل سے‘ ملائیت کو نہیں نکالا جائے گا‘ ہمارا یہی حشر ہوتا رہے گا بلکہ اس سے بھی برا ہو گا۔ حکومتیں اور علمائے کرام کے درمیان مذاکرات سے کوئی نتیجہ نکلنا معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ کیونکہ بیشتر علمائے کرام اندر ہی اندر اس بات پر خوش ہیں کہ دہشت گردی نے ان کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ حکومت ہر وار کے بعد‘ ان کی نازبرداریوں پر مجبور ہے۔ وہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو اپنے مستقبل کی طاقت تصور کر رہے ہیں۔ کھل کر دہشت گردوں کی مذمت نہیں کرتے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح ان کے مجرمانہ افعال کو غیراسلامی قرار نہیں دیتے۔ ہر بیان اور ہر مشترکہ ردعمل میں وہ درمیانہ موقف اختیار کرتے ہیں۔
باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی
ہو سکتا ہے میرا تاثر غلط ہو‘ مگر بیشتر علمائے کرام دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد ریاست کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی ہمتیں جواب دے رہی ہیں اور وہ بہت جلد ان کی خدمت میں پیش ہو کے‘ ہاتھ جوڑتے ہوئے یہ کہنے والے ہیں کہ ”حضور آپ ہی آگے بڑھیے اور نظام اسلام نافذ کر کے دہشت گردوں کے ہاتھ روکیے۔“ کچھ پتہ نہیں کہ اندر سے کون کون سا مذہبی سیاستدان‘ دہشت گردوں کو خفیہ پیغام بھیج رہا ہو گاکہ ”لگے رہو مجاہدو۔ فتح مبیں قریب ہے۔“جتنے مذہبی سیاستدان‘ علمائے کرام کے روپ میں ارباب اقتدار سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘ وہ یہ بھی جانچتے رہتے ہیں کہ حکمرانوں کے حوصلے کہاں تک پست ہوئے اور ان کی ہمتیں کب تک ان کا ساتھ دیں گی؟
Nazir Naji, Jang, 7 July 2010
I agree with Akhtar