Apnay lahu ki aag mein jalnay ka waqt hay – by Ahsan Abbas Shah

Blame game always affects our unity as a nation.  5 July 1977 reminds us that how one dictator can divert our national priorities from secularism to terrorism.  Here is an urdu article addressing the blame game:

٥ جولائی ١٩٧٧ کو قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر شب خون مارا گیا۔یہ شب خون صرف جمہوریت یا بھٹو خاندان کے اقِتدار پر ہی نہیں بلکہ یہ انسانیت، مذہبی آزادی اور حقِ رائے پر شب خون تھا۔مذہبی انتہا پسندی، کلاشنکوف کلچر، منشیات فروشی اور صوبائی مُنافرت کے آغاز کا سیاہ باب اِسی روز سے پاکستان میں شروع ہو گیا۔یہ پاکستان میں ایک سیاہ دور کا آغاز تھا اور یہاں سے پاکستان مُسلم لیگ نے پاکستان مسلح لیگ کی طرف اپنا رختِ سفر باندھا۔پاکستان پیپلز پارٹی ہر سال کی طرح اِسے یومِ سیاہ کے طور پر منا ئے گی، اور کیوں نہ ہو یہ یومِ سیاہ، اِس یوم کی بدولت ہی آج ہم اپنے گھر میں غیر محفوظ ہیں، اَسی یوم کی بدولت آج ہمیں میلاد و مجلس کا اہتمام کرنے سے پہلے حفاظتی اِنتظامات کے لیے پولیس اور پرائیوٹ سکیورٹی گارڈز کا مرہونِ منت ہونا پڑتا ہے، اِسی منحوس تاریخ پر بد نصب اور بد کردار ڈکٹیٹڑ نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا اور پاکستان کو آج اِس دوراھے پر لا کھڑا کیا کہ اب نہ ہماری مسجدیں محفوظ رہیں نہ مدرسے، نہ قبرستان اور نہ ہی صوفی بُزرگ اور اؤلیاء کرام کے مزارات۔

کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ پچھلے ٣ روز سے داتا صاحب میں لنگر نہیں بانٹا جا رہا، دہشت گردی کی بد ترین کاروائیوں کی بدولت لاہور جو پاکستان کو حقیقی دِل ہے دھڑکنا بھول گیا ہے، ہر عام انسان ایک ہی سوالیہ نشان ماتھے پر سجائے نظر آتا ہے جس کا جواب نہ حکومتِ وقت کے پاس ہے نہ عدلیہ کے نہ ہی میڈیا کے کسی عاقلہ وزیر کے پاس،یکم جولائی کو ظلم و بر بریت کی جو داستان رقم ہوئی اُس پر بلیم گیم کا سِلسلہ زور و شور سے جاری ہے جو کہ ہر عقیدت مند اور وارثانِ شُہدا کے لیے یقینا`نا قابلِ برداشت ہے۔بلیم گیم کا آغاز خادمِ اعلیٰ نے یہ بیان دے کر کیا کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے حملوں کی پیشگی اطلاعات نہیں ملتی، خادمِ اعلیٰ کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل اِس لیے بھی ہے کیونکہ ان گنت وزارتوں میں سے صو بائی وزیر داخلہ کا قلمدان بھی چھوٹے خادم نے اپنے لیے سنبھالا ہوا ہے۔ جواب میں رحمن ملک نے نہ صرف اِس کی تردید کی کہ انفارمیشن شئیرنگ نہیں ہوئی بلکہ میاں شہباز شریف کو یہ الزام ثابت کردینے یا استعفیٰ دینے کا چیلنج کیا۔ابھی حضرت داتا گنج بخش کے مزارِ اقدس کا فرش شہیدوں کے لہو کی نمی سے سوکھنے بھی نہ پایا ہوگا کہ میاں نوازشریف نےپریس کانفرنس کے پہلے حصے میں بلیم گیم کا حصہ نہ بننے کا کہا مگر دوسرے ہی حصے میں انہوں نے وفاقی حکومت اور اُن کے حکومتی طرزِ عمل پر کڑی تنقید کی،ایک طرف وہ وفاقی وزراء کے تبسم کی وجہ داتا دربار دھماکے کو قرار دیتے ہوئے پائے گئے اور دوسری جانب اِس قومی مسئلے پر آل پاکستان پارٹیز کانفرنس بُلانے کی تجویز بھی رکھ دی۔میاں نوازشریف اِس پریس کانفرنس میں میرے صحافی بھائیوں کے چند تند و تیز سوالات کے جواب میں برہم ہوتے دکھائی دئیے جو کہ انتہائی نا مناسب دکھائی دیا، اگر کوئی صوبائی وزیرِ داخلہ بنایا ہوتا تو میاں صاحب یہ برہمی اور آنکھیں اُس کو دِکھا کے اپنی پاپولیرٹی میں اِضافہ کرلیتے مگر افسوس کی چھوٹے میاں نے فوڈ انسپکٹری سے وزارتِ داخلہ تک سب قلم اپنی قمیض کی جیب میں سجا کر میاں صاحب کو اِس حق سے بھی محروم کر دیا۔

بلیم گیم کا یہ سلسلہ بڑھا اور اے این پی کی قیادت کے بھی پنجابی طالبان اور شہباز شریف کا جواب میں پختون طالبان والا بیان سامنے آیا۔ کیا ہی اچھا تھا اگر یہ سلسلہ داتا دربار سے باہر جاری رہتا، مگر پیپلز پارٹی کی فوزیہ وہاب نے داتا گنج شکر کے مزار پر حاضری کے موقع پر پنجاب حکومت مُردہ باد کے نعرے نہ جانے کیا سوچ کر لگوائے، در حقیقت داتا دربار میں موجود زائرین اور عقیدت مندوں کا غم و غُصہ اپنی جگہ بجا تھا جس کے ردِ عمل میں مزار پر حاضری دیتی ہر سیاسی شخصیت کی آمد کے ساتھ ہی نعرہ بازی شروع کر دی جاتی تھی،چاہے اُس شخصیت کا تعلق پنجاب حکومت سے ہوتا یا وفاقی حکومت سے، مگر فوزیہ وہاب کے وہاں پہنچنے پر نعرہ بازی کے جواب میں سیکرٹری اطلاعات کے گرد موجود نعرہ بازوں کا پنجاب حکومت مردہ باد کا نعرہ ایک افسوسناک اَمر تھا۔ سیاسی بلیم گیم اپنے عروج پر پہنچ چُکی تھی، سیاسی چہرے تو کُجا مُفتی منیب الرحمان بھی اِس بلیم گیم میں کُود پڑے اور رحمن ملک کو روٹھے ہوئے اتحادیوں کو منانے پر اپنی میٹھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یکم جولائی سے اب تک تمام اَخبارات، ٹی وی، صحافی ، عوام یہ بھول گئے کہ رانا ثنا ء اللہ صاحب کہاں غائب ہیں؟نہ کوئی تصویر نظر آئی نہ اُن کے مُنہ سے گورنر سلمان تاثیر کے خلاف پھول جھڑیں۔

آج ٥ جولائی کو صدر زرداری نے اپنے پیغام میں قوم کو اَٹھارہویں ترمیم کے بعد آمرانہ آلودگی کے خاتمے کا قابلِ رشک بیان دیا،وزیر اعظم کا بھی آل پارٹیز کانفرنس بُلانے کا احسن فیصلہ سامنے آیا اور طالبان کیخلاف بر سرِ پیکار مُلک کے عظیم جنگجو رحمن ملک کا بھی امن مارچ کے متعلق فیصلہ قابلِ تحسین ٹھہرا، یہی نہیں میاں شہباز شریف نے بھی حالات کو بھانپتے ہوئے سُنی تحریک کے علماء سے مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں رانا ثناء اللہ کی برطرفی کو زیرِ غور لایا گیا اور ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ ہمیں آج ٥ جولائی ١٩٧٧ کو ایک اور عہد کرنا ہوگا، بلیم گیم کی سیاست کو ترک کرنے کا، بالخصوص ایسے غمگین اور اندوناک سانحات پر جہاں شہدا کے خون کے چھینٹے بھی مکمل صاف نہ ہو سکے ہوں مگر کوئی سیاست دان اپنی دُکانداری چمکانے پہنچ جائے۔

ہمیں اپنے ہر عمل سے اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ٥ جولائی ١٩٧٧ پاکستان کی جمہوری تاریخ میںپھر کبھی نہ آنے پائے ، کیوں کہ اگر یہ تاریخ ہمارے کیلنڈر میں سیاہ تاریخ نہ بنتی تو آج ٢٠١٠ میں یکم جولائی بھی سیاہ نہ ہوتی ۔

اِپنے لہو کی آگ میں جلنے کا وقت ہے
اب دامِ تیرگی سے نکلنے کا وقت ہے۔

بیدار ہو کہ صُبح نہ آئے گی لوٹ کر
اٹھو کہ اب گھروں سے نکلنے کا وقت ہے۔

پربت ہو تم، تو کُچھ تو حرارت کا دو ثبوت
لاوا ہو تم اگر تو اُبلنے کا وقت ہے۔

اب تو سروں سے خوف کی چادر اُتاردو
ہوتی ہے شام، دُھوپ کے ڈھلنے کا وقت ہے۔

ہشیار! مرحلہ ہے یہ موت و حیات کا
جو زہر پی چُکے ہو، اُگلنے کا وقت ہے۔

سید احسن عباس رضوی

احسن شاہ

Comments

comments

Latest Comments