Confronting the factories of terrorism – by Khalid Wasti


غیر قانونی اسلحہ کا کاروبار: داتا دربار پر دہشت گردی کے حوالے سے

ذات ، برادری ، فرقوں وغیرہ میں بٹی ہوئی قوم کےہر گروہ ، ہر فرقے اور ہر فرد کی زندگی کو دہشت گردی کی کاروائیوں کے ذریعےخطرات سے دوچار کرکے ایک ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ ہر فرد ، ہر گروہ اور ہر فرقہ ،نہ چاہتے ہوئے بھی ، محض اپنی جان کی حفاطت کے لیئے اسلحہ کا حصول ناگزیر سمجھے

اسلحہ جب ایک دفعہ حاصل ہو گیا تو پھر استعمال یہ خود بخود ہوتا رہے گا اور کاروبار چلتا رہے گا
اس لیئے کہ اس کے استعمال کے اسباب ” بڑی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ” معاشرے کے اندر قبل ازیں پھیلائے جا چکے ہیں

ایک وقت تھا کہ کسی پاکستانی کو ایک پستول لینے کے لیئے درہ آدم خیل جانا پڑتا تھا – پھر بندوقیں اور مشین گنیں بھی ملنا شروع ہو گئیں – پھر کلاشنکوف ، بارودی سرنگیں اور راکٹ لا نچر – پھر ان ” جہادی آلات ” کو ملک کے کسی بھی کونے تک پہنچا نے کی سروس بھی مہیا کر دی گئی – آج تازہ ترین اسلحہ یعنی جیکٹس اور خودکش بمبار بھی بآسانی مل رہے ہیں – گولیاں ، بندوقیں ، بم اور خود کش بمبار، بغیر جیکٹ اور مع جیکٹ تیار ہیں اور سپلا ئی آپ کے گھر کی دہلیز تک دستیاب ہے

ایک فیکڑی میں گولی ، بندوق ، گرنیڈ اور راکٹ لانچر تیار ہو رہے ہیں اور دوسری فیکٹری میں خود کش بمبار – خود کش بمباروں اور دہشت گردوں کی فیکٹریاں چالو رکھنے کے لیئے جہاد کے نام پر ان کے جواز کے “اشتہار” بھی حاصل کیئے اور میڈیا پر چلائے جارہے ہیں – یہ “اشتہار” بھی مختلف نوعیت کے ہیں – بعض فوری طور پر سمجھ آ جانے والے اور بعض صرف دلوں ذہنوں اور لاشعور پر اثر انداز ہونے والے – بعض واضح اور بعض “اگر مگر” کی تاویلات کے ساتھ – بعض نائین الیون کے بعد امریکی کاروائیوں کے رد عمل کے طور پر اور بعض عراق ، افغانستان ، فلسطین اور کشمیرمیں ہونے والے مظالم کے عذر کے طور پر

یہ سارے “اشتہارات ” قوم کو فریب دینے اور حقیقی دشمن سے توجہ ہٹانے کے لیئے چلائے جاتے ہیں
ایک ناقابل یقین قوت کا حامل مافیا ہے جو اس کاروبار میں ملوث ہے اور ان گنت لوگ ہیں جو بغیر جانے بوجھے ، بغیر سوچے سمجھے ، بھیڑ چال کی صورت ، محض اپنی سادگی یا انتہا پسندانہ اور جذباتی سوچ کی بنیاد پراس مافیا کے آلہءکار بنے ہوئے ہیں

دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان کی ابتدا اس غیرقانونی اسلحہ کے کاروبار کو چلانے والے تمام “اشتہارات ” کی فوری بندش ہے – “اشتہارات ” سے مراد وہ تمام بیانات ہیں جو بظاہر اور بعض اوقات مجبوراً دہشت گردی کی مذمت کے حوالے سے دیئے جاتے ہیں لیکن ان بیانات کے اندر ” اگر مگر” کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو دہشت گردوں سے نفرت پیدا کرنے کی بجائے عوام الناس کے دلوں میں ان کاروائیوں کا جواز پیدا کرتے ہیں اور یہی بیانات دینے والوں کا مقصد ہوتا ہے – یہ بیانات قاضی حسین احمد کے ہوں ، حمید گل کے یا عمران خان کے ، کھلے اور دو ٹوک لفظوں میں دہشت گردوں کی مذمت پر مشتمل ہونے چاہیئں اور ان میں کسی ” اگر مگر ” یا ابہام کا کوئی پہلو نہیں ہونا چاہیئے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Akhtar
    -
  3. Akhtar
    -
  4. Sarah Khan
    -
  5. Humayun
    -
  6. Naim Naqvi
    -