Aik parliamentarian ke remarks
آج کل صحافت کا ‘دھندہ’ جج صاحبان کے ریمارکس اور پھر ان کی بنیاد پر روزانہ کۓ جانے والے ٹاک شوز پر چل رہا ہے۔
لہذا اب صحافت سے وابستہ افراد تحقیقی صحافت کے کٹھن مراحل سے گزر کر حقیقی عوامی شہری معاملات پر رپورٹنگ کرنے کے لۓ تیار دکھائ نہیں دیتے۔
کیوںکہ اگر اسی سے روٹی روزی چلتی ہے، اور موٹی آمدنی بھی آتی ہے تو الجہنوں میں پڑنے کی کیا ضرورت؟
معزز جج صاحبان جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے حلف اٹھانے کے ساتھ ساتھ فوجی ڈکٹیٹرشپ کو اقتتدار کو قانونی سند فراہم کی تھی، انہوں نے ازخود معافی حاصل کرکے نئ تاریخ رقم کی ہے، بلکہ اب وہ خود کو اٹھارہ کروڑ کانمائندہ بھی تصور کرنے لگے ہیں۔ ان کی اس حوش فہمی کی بازگشت ہمیں ان کے ریمارکس میں بڑے واضع انداز میں نظر آتی ہے۔
اسی طاقت کے بھرم میں عدالت نے عوام کے منتخب آئیںی وزیراعظم کو غیر آئیںی طور پر گھر بھیج دیا، مگردوسری جانب کسی دہشت گرد کو سزا نہ مل سکی، اور ان کو رہائ ملتی رہی۔
جج صاحبان بھی اپنے ریمارکس کو بریکینگ نیوز اور اگلے روز اخبارات میں شہ سرخیوں میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں، لہزا یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی سلسلہ جاری رہے گا۔
عادل عباسی کے پروگرام میں فیصل رضا عابدی نے جج صاحبان کے بارے میں جو ریمارکس دئیے ہیں، وہ عدالت کے لۓ لمحہ فکریہ ہے، اب عدالت کو اپنے کردار کاجائزہ لیتے ہوۓ ان کا جواب دینا ہوگا۔
آئیں دیکھیں فیصل رضا عابدی نے کیا کہا۔
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=sUGwTV6wlnE
Great Hero Faisal live long
I have serious reservations on the caption of this post, I mean when we have our own brilliant comedians like RANGILLA, NANHA, MASTANA then why writer used names of Indian stars. It’s a clear cut violation of our sovereignty.