Bulleh Shah (actually Sultan Bahu) in Germany – by Riaz Ahmed Syed

بلھے شاہ جرمنی میں ….سفارت نامہ…ریاض احمد سید

محترمہ کی خواہش کے احترام میں نام نہیں لکھ رہا ،تاہم راقم انہیں پچھلی چار دہائیوں سے جانتا ہے۔ اندرون شہر صدیوں سے آباد خالص لاہوری خاندان کی یہ چشم و چراغ جامعہ پنجاب میں داخلہ تک ادبی حلقوں میں کسی حد تک پہچانی جانے لگی تھی۔ ماسٹرز تو کسی اور مضمون میں کر رہی تھی مگر پنجابی صوفی شعراء سے گہرا شغف رکھتی تھی پھر نہ جانے کیاہوا کہ موصوفہ یکایک جامعہ سے ہی نہیں ، شہر سے بھی غائب ہو گئی۔

چند برس قبل جرمنی کی ایک وزٹ کے دوران میزبان مجھے مشہور زمانہ کار مرسڈیز کا میوزیم دکھانے لے گئے جو جرمنی کے چھٹے بڑے شہر اسٹٹ گارٹ میں واقع ہے۔ میوزیم کیا ہے، ایک نگار خانہ ہے جہاں اس شہرہ آفاق کار کی پیدائش سے لے کر آج تک کے جدید ترین ماڈلز کو اس دلآویز انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ انسان ایک بار تو دنیا ومافیہا سے ماورا ہو جاتا ہے۔ راقم120برس قبل ایجاد ہونے والی مرسڈیز کے اولین ماڈل ”سلور لائن “ کے پاس کھڑا ،اس کے موجد کی ذہنی اپچ پر غور کر رہا تھا تو دیکھا کہ شلوار قمیض میں ملبوس ایک پاکستانی خاتون بھی اسی ادھیڑ بن میں تھی۔ یکایک ایک کوندا سا لپکا اور مجھ جیسے بھلکڑ کے ذہن میں نہ جانے اس کا نام کیسے ابھر آیا۔ میں نے نام لیکر پکارا اور تصدیق چاہی، جو صحیح نکلی ۔ خاتون کو بھی راقم کو پہچاننے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔ کہنے لگیں، اس علاقے میں ساؤتھ ایشینز ،بالخصوص پاکستانیوں کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔ اور آج کوئی ملا ہے تو وہ بھی ایسا کہ ماضی کے دریچے کھل گئے ہیں۔ وہ کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی جگہ پر رہائش پذیر تھی، جہاں اسکا جرمن نژاد شوہر رچی کیمسٹ کا کام کرتا تھا ۔ بی بی نے شوہر سے ملایا، جو پنجابی زبان میں اچھا بھلا گزارا کر رہا تھا۔

جوڑے نے گھر آنے کی دعوت دی ، تو بھلا لگا، کیونکہ میں خود بھی کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس کے لئے راقم کو چند دن بعد برلن سے خصوصی طور پر آنا پڑا، ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ دونوں کی شادی کو کم و بیش پینتیس برس بیت چکے ، بچے نہیں تھے مگر میں نے آج تک اس قدر مطمئن اور خوش باش جوڑا نہیں دیکھا۔ کم و بیش چالیس برس بعد مل رہے تھے اور اتنے طویل عرصے میں شکلیں بدلتی ہی نہیں، تہہ و بالا ہوجاتی ہیں، مگر میرے میزبان جوڑے پر وقت گویا ٹھہرا ہوا تھا۔ دونوں یقیناً ساٹھ سے اوپر تھے مگر ایسے تروتازہ کہ ناواقف چالیس سے بھی کم کا بتائے۔ کھانا دیکھنے میں پاکستانی تھا اور ذائقہ یورپین ، کھانا ختم ہوا تو کافی کے کپ تھامے ہم مختصر سی لابی میں آبیٹھے اور عرض کی کہ صرف دو سوالوں کا جواب چاہوں گا۔ یہ ”انمل“ جوڑ کیسے ہوا؟ اور اس جواں سال بڑھاپے اور خوش باش زندگی کا راز کیا ہے؟ رچی بولے، ”آپ بھی بہت چالاک ہیں، یہ بتا دیا تو پیچھے کیا رہ جائے گا۔“ اور ساتھ ہی بی بی سے کہا کہ تمہاری زبان زیادہ صاف ہے ، تمہی جواب دو۔

محترمہ بولی کہ گوجرانوالہ میں آباد اسکے چچا ساٹھ کی دہائی میں مزدوری کے لئے جرمنی آئے تھے۔ کچھ عرصہ یہاں رہے۔ رچی کی کسی رشتے دار سے شادی کی اور ہمیشہ کیلئے وطن لوٹ گئے۔
انہی دنوں رچی کسی یوتھ ایکسچینج پروگرام میں پاکستان آئے تو گوجرانوالہ میں اپنی رشتہ دار خاتون کو بھی ملنے چلے آئے۔ وہیں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ چچی کے بارے میں سب کی متفقہ رائے سے رچی کو آگاہ کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ”جرمن خواتین بہترین بیویاں ہوتی ہیں۔

پرسکون زندگیوں کی بات ہوئی تو بی بی بولی یہ راز پانے کیلئے آپ کو ہمارے بیڈ روم تک جانا ہو گا ۔ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے دیوار پر جلی حروف میں لکھے بابا بلھے شاہ کے درج ذیل اشعار جرمن ترجمہ کے ساتھ آویزاں تھے۔

جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں
مدا ڈڈواں مچھیاں
جے رب ملدا جٹاں رکھایاں
ملدا بھیڈاں سسیاں
جے رب ملدا جتیاں ستیاں
ملدا دانداں کھسیاں
بلھے شاہ رب اونہاں نوں ملدا
نیتاں جنہاں دیاں اچھیاں

یعنی اگر رب نہانے دھونے اور صاف ستھرے رہنے سے ملتا، تو مینڈکوں اور مچھلیوں کو ملتا جو ہر وقت پانی میں رہتے ہیں اگر رب لمبے بال رکھنے سے ملتا تو ان بھیڑوں کو ملتا جن کی اون کبھی کاٹی ہی نہیں گئی اور اگر رب جتی ستی لوگوں کو ملتا تو کھسی بیلوں سے بڑھ کر کون حق دار ہو سکتا تھا ۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ بلھے شاہ رب صرف انہیں ملتا ہے۔ جن کی نیتیں اچھی ہوتی ہیں۔

میری میزبان کہنے لگی، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مجھے صوفیاء کے کلام سے ہمیشہ شغف رہا ہے، رچی گو یورپین ہے مگر تصوف کی شدھ بدھ رکھتا ہے۔ شادی کے بعد اسے بلھے شاہ کے ان اشعار کا مفہوم سمجھایا تو اسکی حالت دگرگوں ہو گئی تھی۔ گھنٹوں اسی کیفیت میں رہا۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور زبان سے کہے جا رہا تھا کہ اس سے بڑھ کر سچائی کیا ہو گی ؟ کم از کم میں جس ابدی حقیقت
(Ultimate truth)
کی تلاش میں تھا۔ مجھے تو وہ مل گئی۔“ وہ دن جائے، اسکے بعد سے ہماری زندگیوں میں بہار ہی بہار ہے

Source: Jang, 23 June 2010

Shrine of Sultan Bahu

LUBP Editor’s note: Apparently Riaz Ahmed Syed has attributed the above verses of Sufi poetery to Bulleh Shah in error. The said verses were in fact written by Hazrat Sultan Bahu highlighting the hollowness of the rituals.

Source: Urdu script

English translation:

“If God could be found by bathing in holy waters, frogs and fish would find Him.

If God were realized by cutting off your hair, sheep and goats, which are shorn for their wool, would realize Him too.

If God were found through nightly vigils, bats and owls would find Him.

If God could be found through celibacy, castrated bulls should also discover Him.

God is realized by those, O Bahu, who are pure of heart, noble of intent.”

Source: REVIEWS: The magic of Sufism, Reviewed by Naseer Ahmad. Dawn, November 7, 2004.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Mohammad
    -