عبد القادر گیلانی کی جیت اور تھوتھا چنا
Related posts: سپریم کورٹ الیکشن دھاندلی منصوبہ
Judicial coup is the only solution now! – by Ahsan Abbas
Outcome of Multan by-elections and establishment’s next move – by Shaheryar Ali
تحریر: امام بخش
([email protected])
ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کی چھوڑی ہو ئی سِیٹ پر اُن کےبیٹے سید عبدالقادر گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن جیت گئے ہیں۔ دراصل اس حلقے میں بھٹو اور اینٹی بھٹو فریقین کا بھرپورمقابلہ تھا۔ یعنی عبدالقادر گیلانی کے مقابلے میں منافقت کی چلمن کی اوڑھ میں ساری سیاسی جماعتوں مثلا مُسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی وغیرہ اور اُچکی قوتوں کا آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن (سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما سکندر حیات بوسن کے چھوٹے بھائی) کے حق میں کھلم کھلا گٹھ جوڑ تھا۔ کیونکہ ملتان شہر میں جگہ جگہ شوکت حیات بوسن کے حق میں عمران خان، نواز شریف، سیّد منور حسن کی جھنڈیاں، بینرز، پوسٹرز اور ہورڈنگ بورڈز آویزاں ہیں اور تو اور دو بار پی۔سی۔ او کا عظیم معرکہ “غیرت مند” جگرے کے ساتھ سر کرنے والے افتخار چودھری کی تصویریں بھی ایک کثیر تعداد میں آویزاں ہیں- قائم مقام الیکشن کمشنر پی۔سی۔ او یافتہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج شاکر اللہ جان الیکشن کو یقینی طور پر “منصفانہ” بنانے کے لیے “مفیدِ مطلب” نئے انتخابی ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے ساتھ ساتھ بذات خود ملتان تشریف لائےتھے۔ تا کہ کسی بھی “غلطی” کا احتمال نہ رہے۔ یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا کہ میاں شاکر اللہ جان چیف الیکشن کمشنر کی پوسٹ کے لیےمسلم لیگ (ن) کی پہلی چوائس تھے اور” آزاد عدلیہ” کے دل کے بھی چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں کیونکہ ان کی تشریف آوری کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو تند خوئی کے ساتھ تگنی کا ناچ نچانا فوری طور پر بند کردیاتھا۔
آج ایک بار پھر حلقہ این۔اے 151 میں عوام نے طاغوتی و فرعونی طاقتوں کے مکروہ چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ جس کی آواز پورے پاکستان میں گونج رہی ہے۔ ہم کہ سکتے ہے کہ عبدالقادر گیلانی کا نئے دور کی پُرفن ، پاکھنڈی، پُرفریب اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس “آئی۔جے۔آئی” کو ہرانا کوئی معجزے سے کم نہیں۔
یوسف رضا گیلانی عوام کی عدالت میں سرخرو ٹھہرے۔ مگر عوامی شعور کی تذلیل کرنے اور ان کو گھر بھیجنے والی طاقتوں کی بُرمُوہی خود غرضیوں کو عوام نے ایک بار پھر ردّی کی ٹوکری میں اُچھال دیا ہے اور ان جمہوریت دشمنوں کا تاریخ میں بھی وہی حشر ہو گا جو ہمیشہ سے ان کے پیشرَوؤں کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔
میرا دل چاہا رہا ہے کہ آج “تھوتھے چنے” سے احوال پُرسی کرنا چاہیے کیونکہ تقاضائے آئین و دستور جو بھی ہوں، وہ اپنی ذاتی ترجیحات پر مُرکیاں لگاتے اور تانیں اُٹھاتے ہوئے گھنا بجتا ہے۔ آج الیکشن کا نتیجہ دیکھ کرشائد اس کی آنکھیں توضرور مچک رہی ہوں گی۔ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ آج کےعوامی جھٹکے سےاُس تاریک چشم کی آنکھوں پر چھا ئی ہوئی چربی اُتری ہو گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا جبین پر عرقِ ندامت کے چند قطرے نمودار ہوئے ہوں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیااس وقت گھر کے کونے میں چھپ کر اشک فشانی ہورہی ہو گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کیااب آشفتہ سری کے ساتھ آشفتہ بیانی مسدود ہو جائےگی اور آشوب اُٹھنا رک جائیں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ اڑپنج نکالنے کا شغل ضمیر جاگنے کی وجہ سے تھم جائے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ افترا پردازی، اکاذیب اور انارکی کی دکان پر لُوٹ سَیل بند جائے گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بلبل ہزار داستان روِش بھی رک جائے گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیایہ بنئے کے دکان بند ہو گی جہاں ترازو باٹ سُو جھتا ہی نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیاآئین کی موشگافیوں اور بوقلمونی تشریحات سے پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کا گھناؤنا دھندہ رک جائے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر امکان غالب یہی ہے کہ “تھوتھے چنے” کا دائمی آسن بالکل نہیں اُکھڑا ہو گا۔ وہ ہلہ شیری گروپ یعنی”پٹیشن بی”، “نامی” اور “بے نامی” اہلِ شر کی باہمی تجویزیں وصول کر رہا ہو گا۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر بیٹھا ہو گا۔ ابھی بھی اُس پر اپنے دماغی ابرِغلیظ کو پورے پاکستان پر پھیلانے کی دُھن سوارہو گی۔ کیونکہ عوام تو سدا اس جیسی “الٹی کھوپڑی اندھا گیان”والی ہستیوں کے لیے آئینہ داری کے ذریعے ان کی آنکھوں کی فصدیں کھولتی آئی ہے۔ مگر ان کی بھی نِت یہی ضِد اور کوشش رہی ہے کہ”آنکھ نہ ناک بنو چاند سی”۔
آخر میں ہم جان کی امان طلب کر تے ہوئےعرض کریں گے کہ حضور آکھلاپن چھوڑیئے۔ اپنی طبیعت پہ کنٹرول کیئجے کیونکہ آپ کےپاس آئین پر میناکاری، گوٹا کناری اور تارے ٹانکنے کا وقت ختم ہو چکا۔ اب بیتُ الحُزن میں تارے گننے کا وقت شروع ہونے والا ہے۔معلوم نہیں کہ وارڈروب میں لٹکے ہوئے کینالی اور بِیرونی برائنڈڈ سوٹ آپ پہن سکیں گےیا نہیں۔ مگر اس ساعت آپ کا آفتاب برسردیوار ہے- اس ضمنی الیکشن کو پیش خیمہ سمجھئَے کیونکہ جنرل الیکشنر بھی آپ کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لائیں گے- اور تِشنگی آرزو سمیت آپ کے اَنت کا سَمے آ پہنچا ہے ۔
From Javed Sahib’s facebook:
سردار: صرف ایک
کیا نام ھے اس کا؟؟
سردار: پیپلز پارٹی–
اور تم کتنے تھے ؟
سردار: نو
کیا نام ھے تمہارا ؟
سردار: مسلم لیگ نواز –تحریک انصاف- جماعت اسلامی تحریک دفاع پاکستان –
JUI – میڈیا لیگ- عدلیہ لیگ- ملا لیگ- اور طالبان
اور —پھر بھی تم ہار گئے ؟ —–در فٹے مونھ——-اس کی سزا تو ملے گی -اور جرور ملے گی ،
ارے سانبھا —-اڑا ذرا ڈرون—اور لگا نشانہ ان کی پیٹھ پر —–
اور سن چھمیا —کچھ ناچ گانا دکھائی دے هم کو —-
Pakistan Peoples Party’s (PPP) Abdul Qadir Gilani won the NA-151 Multan by-elections with 64,628 votes on Thursday, reported Express News. Independent candidate Shaukat Hayat Bosan lost the elections with 60,532 votes, according to unofficial results.
At least 245 polling stations were set-up for the by-polls.
Prime Minister Raja Pervez Ashraf, and Minister Information Qamar Zaman Kaira congratulated Abdul Qadir Gilani on the victory. Ashraf said conducting free and fair by-elections in NA-151 were a good omen for democracy in Pakistan.
President Zardari also felicitated former Prime Minister Yousaf Raza Gilani on his son’s electoral victory.
The NA-151 seat had fallen vacant after former prime minister Yousaf Raza Gilani was disqualified from his post by the Supreme Court in a contempt of court case earlier this year. Gilani’s son Abdul Qadir Gilani was selected by the ruling PPP to contest on the seat.
Malik Ishaq Bucha was also supposed to be running for the seat from Pakistan Muslim League – Nawaz (PML-N), but he left his party to join the Pakistan Peoples Party (PPP) earlier this month. The PML-N then announced its support for Bosan, who is the brother of Sikandar Bosan of Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI).
http://tribune.com.pk/story/410501/na-151-by-elections-conclude/
Haq Ya Ali
Very nice writing
Keep it on
It is a moment of truth and rejoicing the victory. Period. But, I do not think PPP quarters should remain intoxicated with the victory juice. I had wanted the whole bunch of evil forces (PML-N, PTI, judiciary, the extremists and not to forget the ever powerful Establishment) would have sank in the river of jubilation if Bosan was returned to NA. It did not happen.
I have put aside my own jubilation, and am seeing the present and clear danger. The above evil forces have smelt big time that in a fair and free election (which is not too far away) they have no chance against PPP in the present scenario. So they will change the scenario. The Intelligence will forget all about Imran Khan as their pet future PM. There will be definite move to make a great-grand-alliance between all the opposite parties. There will be highly manuevred move to break the cooperation of MQM and ANP with PPP, while judiciary will keep PPP leadership busy in the SC hearings.
So, in all fairness, winning of NA-151 seat is not a good omen for PPP. However, if PPP is defeated by “Engineering” in the next election, any PM and any government would have to pay back with lot of favors to Establishment and that would be beginning of the end of Democracy. Cannot say what will happen to Pakistan.