Democratic or Religious State – by Junaid Qaiser


جمہو ر ی یا مذ ہبی ر یا ست      جنید قیصر

سقو ط ڈ ھا کہ جو ہما رے دل پر گز را ہے ۔ اِ س کے جو اند رو نی اور بیر و نی محر کا ت تھے ، سقو ط عرا ق کا المیہ اپنی نوعیت میں اِ س سے مختلف نہیں لگتا ۔

سقو ط ڈ ھا کہ کے اسبا ب میں بھی عا لمی محر کا ت کے علا وہ ایک مخصوص تصو ر قو میت بنیادی اہمیت ر کھتا ہے ۔ آ ج بھی پا کستا ن کے چا رو ں صو بو ں میں اکثر یت مسلما نو ں کی ہے ۔مگر اِ ن کی ز با ن ، ثقا فت اور علا قا ئی طر زِ ز ند گی ایک دوسرے سے مختلف ہے اور پھر اِ س کے علا وہ اِ ن تما م صو بو ں میں مسیحی ، ہند و ، پا ر سی ، سکھ اور دیگر مذاہب کے پیر و کا ر بھی آ با د ہیں ۔ پا کستا ن کے یہ تما م با شند ے الگ الگ ز با ن ، ثقا فت اور عقید ہ ر کھنے کے با و جو د تصو ر قومیت کے حوا لے سے پا کستانی ہیں ، اور کسی بھی مسلم شہر ی سے کسی بھی حوا لے سے کم محب و طن نہیں ہیں ، مگر تصو ر مسلم امہ کے ما ننے وا لو ں کے نز د یک پا کستا ن سمیت تما م دنیا میں ر ہنے والے مسلما ن ایک قو میت رکھتے ہیں ۔ با قی تما م دنیا کے لوگ اِن سے مختلف قو میت کے حا مل ہیں ۔چا ہے اِ ن کے پا سپو ر ٹ اور شنا ختی کا ر ڈ پر پا کستا نی در ج ہو ۔ ڈ ھا کہ میں ر ہنے والے مسلما ن پا کستا نی بھی تھے ، بنگا لی بھی تھے ، اور مسلما ن بھی تھے ، اور آ ج بھی وہ مسلمان اور بنگا لی ہیں ،مگر پا کستا نی نہیں۔

قو میت کی بنیا د و مذ ہب پر نہیں ہو تی ۔بلکہ کسی ملک میں بسنے وا لے تما م لو گ خو اہ کسی مذ ہب یا نسل یا علا قے سے تعلق ر کھتی ہو ں ۔وہ اُ س ملک کی مسا و ی شہر یت اور قو میت رکھتے ہیں ۔ اِ س کی وا ضح سید ھی اور سادہ سی مثا ل یہ بھی ہے کہ کو ئی پا کستا نی مسلما ن تما م عمر سعو د ی عر ب میں ملا ز مت کر تا ر ہے ۔ دیگر امو ر میں بھی شر کت کرے غر ض کچھ بھی کر ے ، اِ سے ہم مذ ہب ہو نے کی بنیا د پر سعو د ی شہر یت نہیں مل سکتی ۔ اگر و ہی مسلما ن ایک ’’ کا فر ‘‘ ملک امر یکہ میں5 سا ل رہا ئش رکھے یاملا ز مت کر ے ، تو اِ سے مسا و ی شہر یت اور حقو ق دے دیئے جا تے ہیں ۔

عر ب نیشنلز م میں نیشنلز م عر بی بو لنے وا لے خوا ہ ، مسلما ن ہو ں ، یا مسیحی وہ سب عر ب قو م سے تعلق ر کھتے ہیں ۔ قا ئد ا عظم نے پا کستا ن کے بنیا د ی مقصدکو پیش نظر ر کھا ، اور سا ر ے اہل و طن کو مذ ہب اور نسل سے با لا تر ہو کر صر ف پا کستا ن بننے کی تلقین کر تے ر ہے ۔ اگر قو م ، فر قو ں ، نسلو ں ، مذ ہبو ں اور زبانو ں میں تقسیم ہو ۔اور امتیا ز ی رو یے اور سما جی تعصبا ت مو جو د ہو ں ، تو تر قی کیسے ممکن ہے ۔؟ بڑ ھتی غر بت ، بے رو ز گا ر ی ، بیر و نی اور مقا می قر ضو ں کا بو جھ ، ما لیا تی خسا ر ے میں اضا فہ سر ما یہ کا ر ی میں کمی ، مسلسل سیا سی تبد یلیا ں ، پا لیسیو ں میں عد م استحکا م ، جمہو ر ی تسلسل کا فقدا ن ، اور نا قص طر ز حکمرا نی ، یہ تما م بیما ر یا ں اسی لئے ہیں ۔ کیو نکہ ہم ایک قو م ہو کر نہیں سوچتے ، انفرا د ی مفا دا ت کے لئے قو می مفا دا ت کو پس پشت ڈا ل دیتے ہیں ۔

اسلا م نے ہمیشہ عا لمگیر عقید ہ ہو نے کا دعویٰ کیا ہے ۔ مگر کیا و جہ ہے کہ اِ س کے ما ننے وا لے اُ سے تصو ر امہّ کے تحت محد و د کرنے کی کو شش کر تے چلے آ ر ہے ہیں ؟ دیوا ر بر لن گر نے کے بعد یو ر پ نے اپنی سر حد و ں کو جو پہلے بھی خا ر دا ر نہیں تھیں اور بھی کشا د ہ کر د یا ہے ۔ یو رو ایک کر نسی کا نا م نہیں ۔ بلکہ ایک طر ز ز ند گی کا نا م ہے ۔ دُ نیا میں تما م مما لک کی سرحدیں نظر یا تی اور آ ئینی ہو تی ہیں ۔ مگر اِ س نظر یے اور آ ئین کا تعلق کسی عقید ے سے نہیں ہو تا ۔ اِ س ملک میں بسنے وا لے باشندو ں کے شہر ی حقو ق سے ہو تا ہے ، یہی قو میت کا تصو ر ہے ۔کسی بھی ملک میں بسنے وا لے انسا نو ں کو اُ ن کی ثقا فت ، زبان ، اد ب اور عقید ے سے جبراً الگ کر نے کا نتیجہ اِ ن کو وطن سے الگ کر نے کی صو ر ت میں ظا ہر ہوتا ہے ۔ اِ نسا نو ں اور مختلف طبقات کو سا تھ ر کھنے کیلئے اِ ن کے جذ با ت عقا ئد اور اقدا ر کو بھی متحد ر کھنا پڑ تا ہے ۔ آ ئین اور قو ا نین میں تما م طبقا ت کو مسا و ی حیثیت اور شہر یت دنیا پڑ تی ہے ، یہی جمہو ر ی طرزِ فکر ہے ۔

انڈ و نیشیا سے مغر بی افر یقہ تک پھیلا ہوا ایک بڑا خطہ ، جہا ں اسلا م بڑا یا غا لب مذ ہب ہے ۔ وہاں جمہو ر یت کے متبا د ل ایک دو سر ی قسم کے نظا م کا تصو ر مو جود ہے اِس تصو ر کو بڑ ھا نے یا تقو یت دینے میں غیر جمہو ر ی قو تو ں کے مفادات دکھا ئی دیتے ہیں ۔ اِ ن گر و ہی مفا دا ت کو مد نظر ر کھ کہ جو دا خلی اور خا ر جی پا لیسا ں تر تیب د ی جا تی ہیں ۔اِ ن کی و جہ سے آج مسلم ور لڈ عا لمی د نیا سے الگ تھلگ ہو چکا ہے افغا نستا ن یا عر ا ق کا یہی المیہ تھا کہ وہ تنہا ئی یا (Isolation )
میں چلے گئے تھے۔

ہما رے ہا ں فحا شی و عر یا نی کے خلا ف جو مہم پشا و ر سے ہو تی ہو ئی ملتا ن اور لا ہو ر تک پہنچی ہے ۔ اِ س نے کئی خدشات اور خو ف کو جنم د یا ہے ۔اسلا م کی ایک مخصو ص اندا ز میں تشر یح کر نے کا عمل جنر ل ضیا الحق نے شر وع کیا تھا ۔ اِ س میں خوا تین کو ایک تحر یص دینے اور جذ با ت بھڑ کا نے وا لی علا مت کے طو ر پر پیش کیا گیا تھا ۔اِ سی کو جوا ز بنا کر خوا تین کی پاکستا ن میں سیا سی ، سما جی ، تعلیمی ، معا شی اور پیشہ ور ا نہ سر گر میو ں پر کئی طر ح کی پا بند یا ں عا ئد کر د ی گئیں تھیں ۔ خوا تین ، اقلیتو ں اور مخا لف نقطہ نظر ر کھنے وا لے لو گو ں کو دیو ا ر کی حد تک پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔اِ سی دو ر میں ہما ر ی یو نیو ر سٹیو ں میں طلبہ و طا لبا ت کو علیحد ہ کر نے کیلئے محض طا لبا ت کی سر گر میو ں پر قر غن لگا ئی گئی تھی ۔اور مسلم اور غیر مسلم کے در میا ن نفر ت پر بنی تقسیم پیدا کر دی گئی تھی۔ بد قسمتی سے یہ مخصو ص اندا ز فکر ابھی تک پا کستا ن کے تعلیمی ادارو ں اور سما ج میں مو جو د ہے ۔

سا تھ ہی طا لبا ن آ ئز یشن کی نئی لہر جو قبا ئلی معا شرو ں سے اُ ٹھ ر ہی ہے ۔ اُ س نے ہما ر ے ملک کو تنہا ئی کی طرف دھکیلنے کے خو ف کو اور گہرا کیا ہے ۔ کیبل نیٹ و ر ک پر پابند ی ، تفریح پر قد غن لگا نا ، مخصو ص لبا س کو سر کا ر ی لبا س قر ا ر د ینا ۔ با ر یش ہو نا ، اِ ن پا لیسو ں سے افغا نستا ن کو کو ئی فا ئد ہ نہیں ہوا ۔ لیکن اِ س کے نقصا نا ت لا تعدا د ہو ئے ۔ طا لبا نکی بنیا د پرست پا لیسیو ں نے نہ صر ف افغا نستا ن کو د نیا سے کا ٹ د یا ۔ بلکہ اپنے سما ج کو کئی سو سا ل پیچھے پہنچا د یا تھا ۔ اگر اِ س طر ح کی پا لیسیا ں پاکستا ن میں بھی جا ر ی ر ہیں ۔ تو پا کستا ن کی قسمت افغا نستا ن سے مختلف نہیں ہو گی ۔ آ ج شد ت پسند اور تنگ نظر پا لیسو ں کی تا ر یخ کی و جہ سے بیر ون ملک مقیم پا کستا نیو ں کے ساتھ جو سلو ک ہو ر ہا ہے ۔ وہ کسی بھی ہو ش مند کے لئے کافی ہے ۔

کو ئی بھی مذ ہبی ر یا ست چا ہے وہ اسلا می ہو ، مسیحی ہو یا ہند و ہو ۔ اِ س کے اپنے مخصو ص قانو ن ضا بطے اور مخصو ص ز ند گی گذ ا ر نے کا لا ئحہ عمل ہوتا ہے ۔ اور ما ضی کے تجربا ت سے ثا بت ہو چکا ہے کہ اِ ن مخصو ص قا نو ن اور ضا بطو ں کے نفا ذ کیلئے جبر اور قو ت کی ضر و ر ت ہے ۔ اور اِ س میں انسا نی ر ضا اور آ ز ا دی کا کو ئی عمل د خل نہیں ہو تا ۔ مگر ایک جمہو ر ی ر یا ست مذ ہبی اعتبا ر سے غیر جا نبدا ر ہو تی ہے ۔ اِس میں ہر شخص کو یہ حق اور آزادی حا صل ہو تی ہے کہ وہ اپنے عقید ے اور مذ ہب پر عمل کر سکے ۔ اور ر یا ست اِ س میں مداخلت نہیں کر سکتی ۔ ایسی صو ر تحا ل میں پا کستا ن یا تو مذ ہبی مملکت بن سکتا ہے ۔ یا پھر ایک جدید جمہو ر ی ر یا ست ۔؟؟؟

ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اسلا می مملکت میں متضا د سیاسی و ثقا فتی روا یا ت ہیں ۔اور دلچسپ با ت یہ ہے کہ اسلا می مما لک میں طر ز حکمرا نی کی معا ملے میں وسیع تضا دا ت ہیں ۔ اور اِ ن میں کو ئی بھی اسلا می ر یا ست کا نما ئند ہ ما ڈ ل بھی نہیں ہیں ۔ یہا ں پر مذ ہب ، معا شر ے اور جمہو ر یت کے پرپیچ تعلق نے اِ ن مما لک کو ایک جمو د میں کھڑا کر د یا ہے ۔جمہو ر یت کو یہا ں سب سے بڑا چیلنج اسلا می بنیا د پر ست سو چ سے ہے ۔آ ج اسلا می ر یا ستو ں کا سب بڑا المیہ آ مر یت اور اِ ن کے مفادات سے وا بستہ مخصو ص نقطہ نظر کو جبراً نا فذ کر نا ہے ۔اِ ن و جو ہا ت کی بنا ء پر یہ ریاستیں ، د نیا کے قا فلے سے کٹ چکی ہیں ، تعصب ، مذ ہبی شد ت پسند ی ، تنگ نظر ی، عد م روادرای اور جہا لت کا دیمک بھی آ مر یت کی و جہ سے ہے ۔ مسلم مما لک میں مقننہ ، عد لیہ ، انتظا میہ اور ذرا ئع ابلا غ کے ادارے بھی غیر نما ئند ہ قو تو ں کی ڈا ئر یکشن پر چلنے پر مجبو ر ہیں ۔یہا ں قو می سلا متی اور مذ ہب کے نا م پر عوا م کو شہر ی سیا سی اور معا شی حقو ق سے محر و م کر د یا گیا ہے۔

مسلم مما لک میں علیحد ہ قو م کے مفر و ضے کی بنیا د پر مسلم مما لک میں مختلف سیا سی طر ز اپنا یا گیا ہے ۔جو آ مر یت کے قر یب اور جمہو ر یت سے دور ہے ۔ یہا ں پر ایک سے زا ئد سیا سی پا ر ٹیا ں تو ہیں ۔ مگر ایک کے سوا ء با قی تما م کو مختلف حیلوں ، بہا نو ں سے غیر مو ثر اور غیر فعا ل بنا د یا جا تا ہے ۔ مخا لف جما عتو ں کور یا ستی جبر و ستم اور انتخا بی دھا ند لیو ں کے ذریعے ، جمہو ر ی عمل میں عملاً شر یک نہیں ہو نے دیا جا تا ۔ یہا ں پر انتخا بی ادار ے آ مرا نہ غلبے کی خا طر نقا ب کا کا م دیتے ہیں ۔ نئے جدید سما جی سیا سی خیا لا ت کو کچل دیا جا تا ہے ، غیر مستحکم جمہو ر ی حکو متو ں کا غیر یقینی صو ر تحا ل میں تختہ اُ لٹ دیا جا تا ہے ۔ یہا ں پر عو ا م کو بنیادی انسا نی حقوق میسر نہیں ہیں۔ میڈ یا پر کئی طر ح کی پا بند یا ں عا ئد ہیں ، او راِ سے عوا م کے حقیقی مفادا ت کے اظہا ر کو مو قف نہیں دیا جا تا ۔ یہا ں پر مذ ہبی اقلیتیں امتیا ز ی قو ا نین کا شکا ر ہیں ۔

یہ درست ہے کہ امر یکہ نے سر د جنگ میں ایک طو یل عر صے تک مسلم دنیا میں قا ئم آ مرا نہ حکومتو ں کی حما یت کی ہے ۔ اور عا لمی قو تو ں خصو صاً امر یکہ کے مسلم مما لک کے آ مر و ں سے بڑ ے د یر ینہ تعلقا ت ر ہے ہیں ۔ مگر اب اِ س کے متضاد اثرا ت برآ مد ہو نے شر و ع ہو گئے ہیں ۔ ۱۱ستمبر کے وا قعہ اور مسلم دنیا کا تصو ر جمہو ر ی قو مو ں کے مد مقا بل ایک علیحد ہ قو م کے طور پر آ یا ہے ۔ آ ج تما م اسلا می مما لک میں اند رو نی اور بیر و نی سطح پر دبا ؤ بڑ ھ ر ہا ہے کہ وہ معا شی اورسما جی طو ر پر ترقی کر یں ۔ مضبو ط سیا سی نما ئند ہ ادار ے بنا ئیں ، اور جمہو ر یت قا ئم کر یں، ریا ست اور معا شر ے میں صحت مندا نہ توا ز ن قا ئم کر تے ہو ئے جمہو ر ی ادا رو ں کو مضبو ط کر یں ۔ اب پو ر ی دنیا کے مما لک کے سا منے ایک ہی انتخا ب با قی ر ہ گیا ہے کہ وہ مذ ہبی ر یا ست کی بجا ئے جمہو ر ی ر یا ست کے قیا م کی طر ف بڑ ھیں ۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahsan
    -