Quran and national constitution: A food for thought for all Muslims – by Khalid Wasti

========================

خاکسار نے عدلیہ کی بالا دستی کے بارہ میں ایک نوٹ لکھا جس پر ڈاکٹر طاہر صاحب نے یہ ریمارکس دیئے

drtahir
May 23rd, 2010 at 22:28
Quran is supreme and not the man made constitution. In Islam there is no difference between a common man and a king when it is matter of justice. Come what may justice should happen and that is important.
By licking shoes of Zardari , u can fill your pockets but at the same time be sure that you are buying hell for yourself in hereafter.

خاکسار نے جب ان ریمارکس پر تبصرہ کرنا چاہا تو یہ تبصرہ قدرے طویل ہو گیا – مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان معروضات کو ایک علیحدہ نوٹ کی صورت میں پیش کر دوں

————————————–

امت واحدہ کے لیئے لمحہ ء فکریہ


ہر مسلمان کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن ِ کریم سپریم اور آخری آسمانی کتاب ہے

مسلمانوں کے بے شمار فرقے ہیں مثلا َ َ شیعہ ، دیوبندی ، بریلوی ، وہابی ، اہلیحدیث وغیرہ وغیرہ –
اس کے علاوہ ، مختلف تحریکیں اور تنظیمیں بھی ان فرقوں کے اندر موجود ہیں – مثلا َ َ تحریک طالبان پاکستان ، انجمن سپاہ ِ صحابہ ، لشکر طیبہ اور جیش ِ محمد وغیرہ –
یہ تمام فرقے اور تمام تنظیمیں قرآن کریم کو سپریم مانتی ہیں –
مسلمانوں کا ہر فرقہ قرآن ِکریم کو سپریم مانتے ہوئے اور قرآن ِ کریم کی تعلیمات اور احکامات کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے دوسرے فرقے کے خلاف کافر ، مرتد اور دائرہ ء اسلام سے خارج ہونے کا فتوی دے چکا ہے

مسلمان فرقوں کے اندر موجود مختلف تنظیموں کے سربراہ مثلا َ َ اسامہ بن لادن ، مُلاں عمر ،
حکیم اللہ محسود ، صوفی محمد ، مولوی فضل اللہ ، حافظ سعید ، قاضی حسین احمد اور پروفیسر منور حسن وغیرہ بھی قرآنی تعلیمات کو سپریم اور حرف آخر سمجھتے ہیں اور اپنے تمام پروگراموں اور کاروائیوں کو بھی قرآن کے عین مطابق قرار دیتے ہیں – خود کش دھماکوں کے ذریعے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والے اور “مجاہدوں کی طرح سینہ تان کر “ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں نے کبھی یہ بھی کہا ہے کہ ہم جن “ کارناموں“ کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں وہ اسلام اور قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں – ؟
اسامہ بن لادن سے لیکر مولنا مودودی ، مولوی فضل اللہ ، حافظ سعید اور زید حامد (لال ٹوپی والے) تک ، ہر ایک کا فہم ِاسلام اور فہم ِقرآن مختلف ہے


قائد ِ اعظم ان تمام معاملات اور مسائل کا ادراک رکھتے تھے – آپ کے پاس ایک قابل عمل حل بھی
موجود تھا – حل یہ تھا کہ پاکستان کو مُلاں کی ریاست نہیں بنایا جائے گا جو ہمہ وقت ایسے معاملات میں الجھی رہے جن کا نتیجہ انتشار ، افتراق ، فرقہ واریت ، انتہاپسندی اور ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو – قوم لاینحل مسائل میں پھنسی رہے ، ایک دوسرے کو مرتد اور واجب القتل قرار دے کر ایک کے نزدیک شہید اور دوسرے کے نزدیک جہنم واصل کرتی رہے – اس کی بجائے پاکستان کو ایک جدید جمہوری ، سیکولر سٹیٹ بنایا جائے گا جس کے اندر ریاست کو کسی شخص کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہو گا – ہندو مندر میں ، مسلمان مسجد میں اور عیسائی گرجے میں جاکر اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہوگا – اور یوں ترقی پسندی ، روشن خیالی اور علم وآگہی کے رستوں پر چلتے ہوئے ایک نوزائیدہ ملک ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا

افسوس کہ قائد اعظم کی جلد رحلت کے باعث آپ کے نظریاتی دشمن “مُلاں“ کو ریشہ دوانیوں کا موقع مل گیا اور اس نے تمام تر خرابیوں اور بیماریوں کی بنیاد قرارداد مقاصد کو جو قائد کے تصورات کے برعکس تھی اسمبلی سے منظور کروا لیا ، آج تک جو آئین کا حلیہ سدھر نہیں سکا اور ہم ایک قوم کی حیثیت سے جہالت ، ذلت اور بدنامی کی دلدل میں ڈھنستے چلے جا رہے ہیں ، اس کی بنیاد قرارداد مقاصد کی وہ پہلی اینٹ ہے جس پر آگے چل کے مُلائیت کی ایک مضبوط عمارت تعمیر ہو چکی ہے جسے منہدم کیئے بغیر قائد اعظم کے ملک کی بقا کسی صورت ممکن ہی نہیں

قرآن ِ کریم بے شک ہمارے لیئے ایک سپریم اور آخری آسمانی نوشتہ ہے لیکن کسی بن لادن ، کسی محسود، کسی مودودی اور کسی مُلاں ، مولوی کو قران ِ پاک نے یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اس کی امن ، آشتی ، صلح جوئی ،مساوات ، بھائی چارے ، عالمی اخوت ، اور انسانی قدروں کی ترجمان حسین اور خوبصورت تعلیمات کو اپنے گھٹیا اور ادنی سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیئے ایسا بھیانک رنگ دے سکے جو آج کے اس

گلوبل ولیج میں بسنے والی چھ ارب سے زائد آبادی کو اسلام کا گرویدہ کرنے کی بجائے اس سے متنفر اور بیزار کر دے

قرآن ِ کریم کی بالا دستی کا مفہوم کیا ہے اور آنے والے جدید وقت کے زمینی حقائق اور ضروریات کے پیش ِ نظر قرآن ِ پاک کی تعلیمات کی عقلی اور منطقی طور پر قائل کرنے والی تشریحات کا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائیندوں پر مشتمل ادارے ، پارلیمینٹ کو حاصل ہے – اسلامی فقہ میں اسے اجتہاد کہتے ہیں –
آئین سازی کی بات تو رہی ایک طرف ، خدا کی منشاء کیا ہے ؟ اسلام اور قرآن ِ پاک کی عہد ِ نو کے تقاضوں سے ہم آہنگ تشریح کیا ہے ؟ کب اور کہاں اجتہاد کرنا ضروری ہے ، ان سب امور کا فیصلہ پارلیمینٹ نے کرنا ہے ، جو زمین پر خدا تعالی کے حق ِ حکمرانی کو استعمال کنے کا واحد با اختیار ادارہ ہے – یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ مفکر پاکستان حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے ارشادات کو پیش کر رہا ہوں ، جسے شک ہو علامہ کے خطبات ِ مدراس یعنی “ری کنسٹرکشن آف ریلجس تھاٹس ان اسلام “کا مطالعہ کر لے –

قرآن ِ کریم نے کسی ایک جگہ بھی مسلمانوں کو اپنے ملک کے آئین پر عمل کرنے سے نہیں روکا – “ امرھم شوری بینھم ،، کے ارشاد نے جمہوری نظام کی صداقت پر مہر لگا دی ہے چنانچہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے لازم ہے کہ ہم ایک جمہوری نظام کے تحت بننے والے آئین کی لفظ اور روح کے مطابق اطاعت کریں اور ہر اس طاقت کا ہاتھ روک دیں جو اس کے کسی لفظ یا شق کی ایسی تشریح کرنا چاہے جو اس کے بنانے والوں کی مرضی کے خلاف ہو

اس کے علاوہ وہ تمام مسلمان جو تہہ ِ دل سے قران پاک کو سپریم اور آخری جانتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے اپنے آئین کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے قرآن پاک کو مسلمانوں کا مشترکہ آئین قرار دیتے ہوئےارشاد ِ قرآنی کے مطابق ایک امت ِ واحدہ ہونے کا ہونے کا عملی ثبوت دنیائے کفر کے سامنے پیش کر دیں اور جب تک یہ نیک کام سرانجام نہیں پاتا ، اپنے اپنے ملک کے آئینوں کی اطاعت اور پاسداری کریں ، اس لیئے کہ قرآن اس سے منع نہیں کرتا

Comments

comments

Latest Comments
  1. Farhan Q
    -
  2. H. Amin
    -
  3. drtahir
    -