Parliament is supreme – by Khalid Wasti

پارلیمینٹ بالا دست ہے
==============

زمانوں سے عدلیہ کی آزادی اور پارلیمینٹ کی بالا دستی کے مقولے زبان زد عام چلے آرہے تھے – کسی شخص نے پارلیمینٹ کی آزادی اور عدلیہ کی بالا دستی کی بات نہ کی تھی اور نہ ہی ایسا سوچا تھا – اس لیئے کہ اس سے زیادہ مضحکہ خیزی ہو ہی نہیں سکتی تھی – جو کوئی بھی ایسی احمقانہ بات کرتا اسے عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دیا جاتا –
اب “مفتی ء شہر “ کا جغرافیہ الٹ گیا ہے اور اس نے عدلیہ  کے  بالا دست اور پارلیمینٹ کے بے دست و پا ہونے کا فتوی جاری کر دیا ہے – اس فتوے کی وجہ کیا ہے ؟ اس فتوے کی وجہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے – یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کی بنے اور بدلے ہوئے حالات میں “ ملک کے وسیع تر مفاد “ کی خاطر ، “اسلامی نظرئیے کے تحفظ “اور “پاکستان کی بقا اور سلامتی“ کے لیئے “مُلاں“ کے فتوے میں کوئی تبدیلی نہ آئے –

ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیئے سارے اصول و قوانین اور ضابطے الٹا دیئے جاتے ہیں –

+ اسلام کی رو سے ہر کلمہ گو مسلمان ہے —-
اسلام کی رو سے ذوالفقار علی بھٹو کافر ہے ، دائرہءاسلام سے خارج ہے –

++ مادر ملت فاطمہ جناح سربراہ حکومت ہو سکتی ہیں- اسلام کوئی روکاوٹ نہیں ڈالتا —–
بے نظیر بھٹو سربراہ حکومت نہیں ہو سکتی – اسلام میں عورت کی سربراہی حرام ہے –
اسلام میں سیاسی پارٹیوں کی اجازت نہیں اس لیئے الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے –  +++
( ١٩٨٥ کے انتخابات میں اس صدی کے مجاہد اعظم اور مرد مومن جنرل ضیاءالحق کو ڈر تھا کہ پیپلز پارٹی صفایا کر دے گی )
ضیاءالحق کے اسلام نے کہا کہ غیر جماعتی الیکشن کراؤ – جب غیر جماعتی اسمبلی بن گئی تو سیاسی جماعت بنانا اسلام کےعین مطابق ہوگیا – چنانچہ محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوا دی گئی –

++++ اب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پارلیمینٹ کی بالا دستی محدود ہوگئی ! کیوں ؟ محض اس لیئے کہ “ قبضہ گروپ “ اور“ شکنجہ گروپ “ کے “گرینڈ پلان“ کے مطابق عوام کی حاکمیت کے خاتمے کا وقت قریب آچکا ہے ؟

بنیادی سوال یہ ہے کہ حاکمیت اعلی کس کی ہے ؟ —– خدا تعالی کی –

کیا اپنا یہ حق استعمال کرنے کے لیئے خدا تعالی بنفس نفیس آسمان سے اتر کر زمین پر آئے گا ؟ ——– نہیں ، ایسا تو ممکن ہی نہیں –
تو پھر خدا تعالی اپنا حق حکمرانی کیسے استعمال کرے گا ؟ —–
اپنی مخلوق ، اپنے بندوں ، اپنے عوام کے چنے ہوئے نمائیندوں کے ذریعے جو پارلیمینٹ میں بیٹھ کر طے کریں گے کہ خدا تعالی نے جو حق حکمرانی انہیں عطا کیا ہے اسے اس کی مخلوق کے بہترین حق میں کیسے استعمال کرنا ہے –
عوام کے منتخب نمائیندے ملک اور عوام کی بہبود کے لیئے اور نظام مملکت چلانے کے لیئے جو طریقہ طے کرتے ہیں کیا وہ زبانی کلامی ہوتا ہے یا تحریری شکل میں ؟ —– انگلینڈ کے استثنی کو چھوڑ کر یہ “ طریقہءکار“ ہمیشہ تحریری صورت میں ہوتا ہے –
تحریری صورت میں موجود اس “طریقہءکار“ کا کیا نام ہے ؟ —–
اس “ طریقہءکار“ یا “ ضابطے“ کو آئین کہتے ہیں –

کیا آئین کو عوام کے منتخب نمائیندے پارلیمینٹ میں بیٹھ کر تحریر کرتے ہیں اور اس تیاری میں سپریم کورٹ کا ، فوج کا ، بیوروکریسی کا پولیس کا رینجرز کا اور میڈیا وغیرہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ؟—— نہیں ، ہر گز کوئی کردار نہیں ہوتا – آئین کسی بھی ملک کی مقدس دستاویز ہوتی ہے ، اسے صرف خدا تعالی سے ملے ہوئے حق حکمرانی کو عوام کے چنے ہوئے نمائیندے ہی تیار کرتے ہیں –

عوام کے منتخب نمائیندے جب آئین جیسی مقدس دستاویز تیار کر لیتے ہیں تو کیا یہ الفاظ قیامت تک حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں یا وقت گزرنے کے ساتھ ان میں کوئی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے ؟ —– وقت جب بد لتا ہے تو اس کی حقیقتیں اور تقاضے بھی بدلتے ہیں – اس لیئے عوام کے چنے ہوئے نمائیندے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر اس میں تبدیلی کر سکتے ہیں – اسے آئین میں ترمیم کرنا کہتے ہیں اور اس کے لیئے پارلیمینٹ کی دو تہائی اکثریت کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے –

آئین میں ترمیم کرنے کے لیئے کیا پارلیمینٹ کے لیئے لازم ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو ، فوج کو‘ بیوروکریسی کو ، پولیس کو ، رینجرز کو یا میڈیا کو اس عمل میں شامل کرے ؟ —– نہیں کسی بھی ادارے کو اس عمل میں شامل نہیں کیا جاتا – پارلیمینٹ تنہا یہ فریضہ سر انجام دیتی ہے – کیونکہ زمین پر حاکمیت اعلی صرف عوام کی ہے اور آئین جیسی مقدس دستاویز کو تیار کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے کا حق بھی صرف عوام کے چنے ہوئے نمائیندوں کا ہے –

آئین کو تیار کرنے اور اس میں ترمیم کرنے کے عمل میں جب سپریم کورٹ شریک ہی نہیں ہو سکتی تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ آئین کے ایک ایک آرٹیکل اور ایک ایک لفظ کے پس منظر میں موجود ضرورت ، اس کی فلاسفی اور اس کے مزاج کو پارلیمینٹ سے بہتر سمجھتی ہے ؟ —– یہ محض ایک فریب ہے-  یہ فریب ان دو فیصد استحصالی طاقتوں کا پیدا کردہ ہے جو اٹھانوے فیصد عوام پر پچھلے ساٹھ برسوں سے حکومت کرتے چلے آرہے ہیں اور آج بھی پردے کے پیچھے اصل طاقت کا مرکز ہیں – دو فیصد پر مشتمل یہ“شکنجہ گروپ “ ہے جو کبھی منتخب ہوکر پارلیمینٹ تک نہیں پہنچ سکتا اس لیئے ہمیشہ ایسی سازشوں میں مصروف رہتا ہے جس کے ذریعے ون مین ون ووٹ کے نظام کو تہہ و بالا کیا جائے –

آئین کا خالق ہونے کے ناطے اگر پارلیمینٹ کی آئین کی تفہیم سپریم کورٹ سے بہتر ہے تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے ؟ —–
یہ مغالطہ بھی “شکنجہ گروپ“ اور “مُلاں“ کی ذہنیت رکھنے والے اس کے گماشتوں کا پھیلایا ہوا ہے جس کے تحت دو مختلف چیزوں کو آپس میں گڈ مڈ کیا گیا- یہ مختلف چیزیں قانون سازی اور آئین سازی ہیں – آئین سازی سپریم کورٹ کے دائرہء اختیار سے بہت زیادہ بلند ہے جو نہ سپریم کورٹ کا کام ہے اور نہ سپریم کورٹ کو اس میں دخل دینے کا تصور ہی کرنا چاہیئے بلکہ اسے اپنے لیئےایک ہائی وولٹیج بجلی کی ننگی کیبل سمجھنا چاہیئے جس کے قریب جانا بھی اس کے لیئے جان لیوا ہے-

یہ صرف منتخب عوامی نمائیندؤں کا  کام ہے اور وہ بھی اس کی  سادہ اکثریت کا نہیں بلکہ اس کی دو تہائی اکثریت کے کرنے کا کام ،  جو کسی بھی دوسرے ادارے کے خواب و خیال سے بعید ہے –
قانون سازی بھی پارلیمینٹ کا حق ہے لیکن اس حق کو استعمال کرنے کے لیئے اسے دو تہائی ممبران کی نہیں بلکہ ایک سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے – چونکہ قانون سازی دو تہائی اکثریت سے نہیں ہوتی اس لیئے پارلیمینٹ نے سپریم کورٹ کی ذمہ داریوں میں یہ اختیار بھی  شامل کردیا کہ وہ ہر قانون کا جائزہ لے کر فیصلہ کر سکےکہ پارلیمینٹ کی سادہ اکثریت نے کوئی ایسا قانون تو نہیں بنا دیا جو پارلیمینٹ کی دو تہائی اکثریت کی خواہش ، مرضی اور منشاء کے برعکس ہو – البتہ پارلیمینٹ کی دو تہائی تعداد نے جو فیصلہ کر دیا وہ حرف آخر ہے اور عدلیہ سمیت سارے اداروں کو اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہوگا –
یہ ہے اصل صورت حال جس میں عوام کی بالا دستی ہر طور سے غالب نظر آتی ہے – لیکن عوام کی بالا دستی تو صرف اسے ہی پسند ہو سکتی ہے جو عوامی قوت کے بل بوتے پر مسند اقتدار تک پہنچ سکتا ہو – “ شکنجہ گروپ “ جو عوام کے ووٹوں کی طاقت سے بر سر اقتدار آنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ، قیام پاکستان سے لے کر آج تک انہی سازشوں میں مصروف ہے کہ عوامی طاقت کے اس ریلے کو کیسے روکا جا سکتا ہے جس کے اندر “شکنجہ گروپ“ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بہہ جانا لازمی امر ہے – اس سلسلے کا “ نسخہ رائج الوقت“ یہ ہے کہ عوام کی طاقت کے سمبل، پارلیمینٹ کو ایک غیر منتخب ، غیر نمائیندہ ادارے کے سامنے بے دست و پا کر دیا جائے –

تمام معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے بعد اگر کوئی اتھارٹی ہے تو وہ عوام ہیں – عوام کے منتخب نمائیندوں پر مشتمل ادرہ پارلیمینٹ ہے جسے تمام اداروں پر بالا دستی حاصل ہے –

Comments

comments

Latest Comments
  1. Living-Dead
    -
  2. drtahir
    -