From Waris Mir to Hamid Mir – by Khalid Wasti
============= وارث میر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حامد میر ================
وارث میر میری نظر میں عظیم لوگوں کی فہرست میں شامل ہے – وہ ان معدودے چند لوگوں میں سے تھا جو بصیرت کی آنکھ سے دیوار کے اس پار دیکھ سکنے کی خداد داد صلاحیت رکھتے ہیں – اس کا شمار ان توانا دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی زبوں حالی کا راز پا لیا تھا – جب اسے حق الیقین ہوگیا کہ پاکستان کی تمام خرابیوں ، کمزوریوں اور برائیوں کی جڑ ملائیت ہے تو پھر وہ شخص ایک سفر پر چل پڑا ، یہ سفر تھا کوچہ کوچہ ، قریہ قریہ خطرے کی گھنٹیاں بجا کر آگاہ کرنا کہ “ملاں“ اسلام کے نام پر ہی پاکستان کو اور خود اسلام کو بے پناہ نقصان پہنچانے کا مجرم ہے – وہ اس سفر پر نکلا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا – عورت پر مرد کی برتری ، عورت پر چاردیواری کی قید اور عورت کی گواہی آدھی ہونے کے “ملاں“ کے پھیلائے ہوئے فرسودہ اور جاہلانہ تصورات کے اس نے بخیے ادھیڑ دیئے – ضیاءالحق برانڈ اسلام کا شریعت بل ہو یا حدود آرڈینینس، اس نے معاشرے کو ماضی کی طرف لے جانے کی ہر سازش کو بے نقاب کیا اور اس کے پیچھے موجود “ملاں“ کے اصل منصوبوں سے قوم کو آگاہ کیا – ضیاءالحق نے جس روز تنقید کرنے والے دانشوروں کو “ سیم اورتھور “ قرار دیا ، علامہ احسان الہی ظہیر کہتے ہیں کہ اتنا بے چین میں نے وارث میر کو کبھی نہیں دیکھا – تب وہ ایک شمشیر برہنہ کی طرح میدان عمل میں اترا اور قلم کا جہاد کرتے کرتے شہادت کے مقام پر فائز ہوا –
اس کا صلہ وارث میر کو کیا ملا ؟ ناجائز محکمانہ کاروائیاں ، بیٹے پر جھوٹے مقدمہءقتل کی پریشانیاں اور آئے دن عبرتناک انجام کی دھمکیاں اور اڑتالیس سال کی عمر میں جان لیوا ہارٹ اٹیک –
یہ سب کچھ حامد میر کے سامنے تھا – ہو سکتا ہے حامد میر نے حریت فکر کے مجاہد اور آزادیءاظہار کے اس علمبردار کی داستان کو“ کیا پایا کیا کھویا “کی میزان میں تولا ہو اور اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ ملائیت ، جہالت اور رجعت پسندی کی قوتوں سے ٹکرا کر نقصان اٹھا نے سے کہیں بہتر ہے کہ مفاہمت کرتے ہوئے ان قوتوں کے مفاد کو آگے بڑھا کر فائدہ حاصل کیا جائے اور اڑتالیس گھنٹوں میں وہ سب کچھ حاصل کر لینے کے امکان پر غور کیا جائے جو والد صاحب اڑتالیس سال میں بھی حاصل نہ کر سکے –
تو یہ سب اپنی اپنی ترجیحات ہیں – آج اگر میڈیا آزاد ہے تو اینکر اور صحافی آزاد تر ہیں ———-
حامد میر نے اگر وارث میر کا معنوی وارث نہ بننے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے میں وہ آزاد ہے – لکم دینکم ولی دین —— تمہارے لیئے تمہاری راہ ، ہمارے لیئے ہماری راہ ۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے حامد میر نے حریت فکر کے مجاہد اور آزادیءاظہار کے اس علمبردار کی داستان کو“ کیا پایا کیا کھویا “کی میزان میں تولا ہو اور اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ ملائیت ، جہالت اور رجعت پسندی کی قوتوں سے ٹکرا کر نقصان اٹھا نے سے کہیں بہتر ہے کہ مفاہمت کرتے ہوئے ان قوتوں کے مفاد کو آگے بڑھا کر فائدہ حاصل کیا جائے
باپ کے نام کی کمائی کھائی لیکن باپ کے نام کو بری طرح سے رسوا کر کے – ایسے ہوتے ہیں ہونہار سپوت ؟