Indifference of Pakistani government and media to looming disaster in Hunza – by Irfan Siddiqi and Ghazi Salahuddin

While most journalist and anchors in Pakistani media are more interested in Shoaib-Sania marriage, Jamshed Dasti’s by elections etc, Irfan Siddiqi must be commended for his persistent attention to a looming tragedy about to happen in a far off area of Northern Pakistan. We provide below two articles, the first one by Irfan Siddiqi (in Urdu) which is followed by Ghazi Salahuddin’s article on the same topic (in English):

مژگاں تو کھول …نقش خیال…عرفان صدیقی

دریائے ہنزہ میں ایک بڑا پہاڑی تودہ گرنے، میلوں تک پھیلی ایک بڑی جھیل بن جانے اور گوجال گاؤں کے غرقاب ہوجانے کا افسوسناک واقعہ ساڑھے چار ماہ قبل پیش آیا۔ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی۔ 14مارچ 2010ء کو ”ہنزہ کی آغوش میں پلتا طوفان“ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوا جس میں اس جھیل کی متوقع تباہ کاریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حکومت سے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کے ساتھ پاکستانی میڈیا سے بھی التماس کی گئی تھی کہ وہ خود ہی اپنی اداؤں پر غور کرے اور حکمرانوں کو جھنجھوڑے کہ ”مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا“۔ تقریباً دو ماہ پہلے شائع ہونے والے اس کالم کا ابتدائی پیراگراف تھا
:

”ہمارا میڈیا بیدار، چوکنا، ہوشیار اورمستعد ہے۔ سات پردوں کے پیچھے چھپی کرپشن ہو یا پولیس کے ہاتھوں ہونے والی چھترول کچھ بھی اس کی تیز نگاہی سے نہیں بچتا لیکن کیا سبب ہے کہ بعض اوقات ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کو لاحق ہوجانے والے خطرات اور سنگین نتائج کے حامل واقعات اس کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں؟ اور اگر اس کے علم میں آتے بھی ہیں تو وہ ایک نگاہ غلط انداز ڈال کر منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے۔ نہ ٹیلیویژن اسکرین ان کے لئے اپنی گود وا کرتی ہیں، نہ اخبارات کے صفحات اپنا دامن پھیلاتے ہیں، نہ قوم کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایک حصے کے عوام کس آفت میں گھر گئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس نوع کی کوئی افتاد، پاکستان کے کسی بڑے عزت مآب شہر کا رُخ کرتی یا ہزاروں افراد یوں بے چارگی کی تصویر بن جاتے تو ایک قیامت بپا ہوچکی ہوتی۔ نہ صرف پورا پاکستان لرز رہا ہوتا بلکہ ساری دنیا اس کا ارتعاش محسوس کررہی ہوتی۔ لیکن گلگت، بلتستان خاصے فاصلے پر ہیں۔ ہنزہ اس سے بھی دور ہے۔ عطا آباد تو اور بھی آگے ہے اور گوجال تک جاتے جاتے تو عمریں تمام ہوجاتی ہیں“۔

کم و بیش چار ماہ بعد ہمارے طرار و طرحدار میڈیا کے کیمرے وہاں پہنچے اور اب عطا آباد جھیل ہمارے خبر ناموں میں جگہ پانے لگی ہے۔جن دنوں اٹھارہ کلو میٹر تک پھیل جانے اور تین سو فٹ سے زیادہ گہرائی رکھنے والی جھیل گوجال اور گردو پیش کو نگل رہی تھی، لوگوں کے گھر اثاثے، مال مویشی، کھیت اور باغات نذر آب ہورہے تھے اور بصد مشکل نقل مکانی کرنے والے بے یارومددگار لوگ کوہستانی ڈھلوانوں کے خستہ حال خیموں میں پڑے تھے اور محصور افراد اشیائے خورد و نوش کو ترس رہے تھے، ان دنوں ہمارا میڈا ثانیہ شعیب شادی کے موج میلے میں مگن تھا۔ تب وہ پلک جھپکنے کا بھی روادار نہ تھا کہ کہیں پری پیکر دلہن اور شہزادہ خوش جمال کی کوئی ادا کیمرے کی گرفت سے نکل نہ جائے۔ ہنزہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان دہائی دے رہے تھے۔ ایک ایک سے رابطے کررہے تھے۔ ای میلز اور ایس ایم ایس بھیج رہے تھے لیکن مرکزی بہاؤ سے تعلق رکھنے والا سارا میڈیا ہنزہ کی آغوش میں پلتے طوفان سے لاتعلق رہا۔ اتنی بڑی افتاد کو ایک قومی سانحے کے طور پر پیش کرنے اور متاثرہ افراد کے مصائب کو پوری طرح سامنے لانے کی کوشش کی جاتی تو شاید موٹی کھال والی اس حکومت کو بھی کوئی احساس ہوتا کہ اس گلگت بلتستان پر کیا گزر رہی ہے جہاں فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے بعد وہ اپنی من پسند حکومت قائم کرچکی ہے۔

میڈیا شاید بھولتا جارہا ہے کہ موج مستی، تماشا گری، شوخی و طراری، لذت کشی، چسکا بازی اور ذوق بازاری کی آبیاری اس کی اصل قوت نہیں۔ اس کی طاقت اس کی ساکھ، وقار اور اعتبار میں ہے۔ کسی کی پگڑی اچھال دینا، کسی کے گریبان کی دھجیاں اڑا دینا اور بغیر تحقیق و تفتیش کسی کے چہرے پر کالک تھوپ دینا بھی، اس کی بے محابا اور لامحدود طاقت کا اندھا مظاہرہ ضرور ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سے وہ معتبر نہیں ہوسکتا۔ حقیقی قوت، کسی غیر متوازن شخص کی طرح ہر راہ چلتے مسافر کو پتھر مارنے میں نہیں، ایسے وقار میں ہے جس کی تمکنت دوسروں کو مرعوب رکھتی ہے۔ میڈیا کا یہ پہلو خوش آئند ہے کہ وہ سرکار دربار کی بدعنوانیاں بے نقاب کررہا ہے لیکن کبھی کبھار اپنی اداؤں پر غور کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

عطاآباد جھیل، میڈیا کی بے توجہی اور حکمرانوں کے تغافل کے سبب زیریں آبادیوں کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ 4جنوری کو ہوئی۔ تقریباً دو ماہ تک سردیوں کا موسم رہا جب پہاڑوں کی برف سوئی پڑی تھی اور دھوپ میں تمازت نہیں آئی تھی۔ اگر حکومت کے تمام متعلقہ ادارے اسی وقت متحرک ہوجاتے اور خطرے کی شدت کا احساس کرتے ہوئے چین کے تعاون سے جھیل کو توڑ کر پھر سے دریائے ہنزہ کے بہاؤ میں شامل کردیتے تو اب تک یہ افتاد ٹل چکی ہوتی۔ تب جھیل کی لمبائی 15 کلو میٹر سے بھی کم اور گہرانی دو سو فٹ کے لگ بھگ تھی۔ موسم سرما کے باعث پانی کی سطح انتہائی معمولی رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ آج جھیل کا دامن 24 کلو میٹر تک پھیل گیا ہے اور پانی کی سطح 340 فٹ تک پہنچ گئی ہے جس میں 3فٹ روزانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔

محکمہ موسمیات کے سیلاب کی پیش بینی کرنے والے ڈویژن (Flood Forecasting Division) نے تازہ ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے حکومت کے تمام متعلقہ شعبوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ 25مئی سے پہلے پہلے موثر احتیاطی تدابیر مکمل کرلیں کیونکہ س کے بعد جھیل کہیں سے بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ گرمی بڑھنے کے باعث پہاڑی گلیشئر تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔ اس ماہ دنیور سے آتے اور عطا آباد جھیل کا حصہ بنتے پانی کی مقدار چھ ہزار کیوسکس تک ہے۔ جون میں یہ بیس ہزار تک پہنچ جائے گی اور جولائی میں اس کا تخمینہ 40,641 کیوسکس لگایا جارہا ہے۔ ماہرین اسے ”واٹر بم“ کا نام دے رہے ہیں جو خدانخواستہ پھٹ پڑا تو 200فٹ بلند پانی کا تندروریلا 180 کلو میٹر تک اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو بہا لے جائے گا۔ محکمہ موسمیات نے ایسی ہی ایک ایڈوائزری 31مارچ کو بھی جاری کی تھی جو جانے کس بابو کی میز پر دھری ہے۔

فوج نے دستیاب وسائل کے ساتھ قابل قدر کام کیا ہے اور اب بھی اپنی روایتی تندہی کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ انجینئر ان چیف لیفٹننٹ جنرل شاہد نیاز اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل نجیب اللہ خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسپل وے کی تعمیر سے کسی بڑی تباہی کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جھیل کے اچانک پھٹ پڑنے کا امکان نہیں البتہ کسی جگہ سے شگاف پڑ سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں تیس سے چھتیس دیہات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان کے خیال میں 20 اور 30مئی کے دوران اسپل وے کے کنارے پڑنے والے شگاف سے پانی کا اخراج شروع ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حفاظتی تدابیر کی جارہی ہیں۔ لوگوں کے انخلا کا عمل جاری ہے اور یہ خدشہ درست نہیں کہ سیلابی ریلے سے تربیلا ڈیم کے پشتے ٹوٹ سکتے ہیں۔ واپڈا کے سابق چیئرمین، شمس الملک نے بھی فوجی ماہرین کے اس خیال کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تربیلا میں اس وقت پانی بہت کم ہے جبکہ وہاں 90لاکھ ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اگر عطا آباد جھیل کا سارا پانی بھی وہاں تک پہنچ جائے تو تربیلہ کے دامن میں سما سکتا ہے۔ ماہرین نے اس تصور کو رد کردیا ہے کہ عطا آباد جھیل کو قدرت کا ایک عطیہ سمجھ کر اسے مستقل ڈیم کی شکل دے دی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہاڑی تودے گرنے سے بن جانے والی قدرتی جھیلوں کو مستقل ڈیم کی شکل نہیں دی جاسکتی۔

توقع اور خدشات کے عین مطابق تباہ کاری کا حجم بڑھ رہا ہے۔ شاہراہ قراقرم کا کئی کلو میٹر طویل حصہ بہہ گیا ہے۔ پاک چین تجارت معطل ہے۔ گلمت کا خوبصورت قصبہ بھی جزیرہ بن گیا ہے۔ گلگت اور ہنزہ کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ درجنوں دیہات کٹ کر رہ گئے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش کی زبردست قلت پیدا ہوگئی ہے۔ رابطے کے کام آنے والے کئی پل بہہ گئے ہیں۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ نقل و حمل کے کام آنے والی کشتیاں بھی ناکافی ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دورہ یقینا بہتر نتائج کا حامل ہوگا کہ اس سے برسرکار فوجی عملے کی حوصلہ افزائی ہوگی لیکن کہاں ہیں گلگت ، بلتستان کو جنت ارضی بنانے کے دعویدار جنہیں آفت زدہ لوگوں کے آنسو پونچھنے اور ہنگامی بنیادوں پر فوری تدابیر اختیار کرنے کا خیال تک نہیں آرہا؟

Source; Jang, 16 May 2010

………

Time bombs ticking

Ghazi Salahuddin

We have this huge lake created in the Hunza valley by a massive landslide that took place in January. Now, a potentially devastating disaster is almost waiting to happen. This has been likened to a water bomb and it is ticking. Already, a lot of damage has been done. A grim sense of urgency has built up in recent days and emergency measures have been undertaken. What could happen when the artificial Hunza lake, swelling by the hour, bursts its banks?

In this case, fortunately, we are confronted by a challenge that is starkly visible and has immediate consequences of a tangible nature. We will at best be tested by our ability to take the right steps and by our readiness for dealing with the vast dislocations that are likely. But what about other disasters which are in the making, with outcomes that may be even more catastrophic?

The idea here is of a time bomb. The Hunza lake was a time bomb the moment it came into being. This catch phrase, of a time bomb, is repeatedly used. On Friday, Shafqat Mahmood’s column on this page was titled: “The UN report is a time bomb”. Or they say that time is running out. Time has been running out for us in many different contexts. There is always something nasty around the corner. Like the probability of a confrontation between the higher judiciary and the executive.

On Saturday, yesterday, the Hunza lake story was not as prominent in our newspapers as the headline that the Supreme Court has summoned Federal Minister for Law Babar Awan on May 25. He has been summoned to brief the court about steps so far taken for the implementation of the NRO verdict. Panelists on our television talk shows have expressed some caustic comments on what could happen on May 25.

But the analogy that I want to draw with reference to the Attaabad water bomb is not related to any particular event or development. It has vastly more sinister dimensions in terms of the damage it would cause to the nation. And I have in mind the population time bomb. It is ticking in every nook and cranny of this country. Again, time is fast running out.

What I am not doing here is to dabble in statistics, though the figures that relate to our population time bomb would be enough to inundate us with horror and even disbelief. Some essential facts should suffice. We are already the sixth largest population in the world, with an exceptionally large ratio of young people. If the existing trends continue, we could, in a few decades, become the fifth and then the fourth largest country in the world, overtaking Brazil and Indonesia.

Incidentally, I owe the focus of this column to a diplomatic reception in Karachi earlier in the week where a rather agonised concern was voiced over our demographic situation. After all, if other countries of the world have to bear some burden of the rise of religious extremism and Talibanisation in Pakistan, they should also be wary of the global impact of an explosion of the population bomb in a country like Pakistan.

We do know that people, in essence, can be a great resource when they are educated and skilled and when they have opportunities to lead productive and creative lives. A high percentage of young people becomes an asset in this situation. Ageing populations in a number of developed countries have to be supplemented with immigrant workers. In our case, the overall situation is so dismal, so depressing that even thinking about it would leave you in acute depression.

Now, when you talk about a time bomb, the impression is that disaster may surface after some time. What the rising tide of population, swelling every minute, has done to us by now is very much in evidence. What it can be like in coming years may be judged by the few stories of the misery of the ordinary people that the media is able to cover. This spectacle of deprivation is before our eyes and every day presents its own tally of tragedies.

As I write this, I have before me this front-page story: “Man commits self-immolation in Lahore”. There is a photograph in another newspaper of a group of small children sitting under a banner in Bahawalpur that announces “Children for sale”. For those who do not read newspapers and avoid watching news bulletins on television, a stroll in any crowded place would be sufficient to project the misery in which this society is beginning to be submerged.

So what have our rulers, present and the past, done about it? One measure of this, obviously, would be to look at the state of education in our country. Again, it is something that we need not explore in any statistical analyses. Nor should there be any need to look at how our material resources, mostly borrowed from international agencies, are allocated to different sectors, irrespective of their leakages.

By the way, the issue of the fake degrees of our elected representatives, the ones who profess to be arbiters of the nation’s destiny, is a good illustration of what education means to us. There was this report in this newspaper, quoting a retired senior official of the Election Commission, that “almost 148 MNAs and MPAs are feared to be holding fake degrees”.

Yes, setting educational qualifications for members of national and provincial assemblies did not make any political sense. However, the point here is that those who sought fake degrees were deliberately cheating and lying. One can say that the whole edifice of our governance is without any moral foundation. We can see it crumbling. It is another time bomb and we can also expect some kind of an explosion in this realm.

As I have suggested, Pakistan is plagued with many serious problems and its unplanned, growing population is becoming the seed of a total disaster. It is just not the issue of education or health or energy or housing or employment. The human dimension of it, in terms of the aspirations and longings of the people, is unimaginably portentous. Surely, the time is running out.

Meanwhile, the present rulers, some of them with their fake degrees, are busy in their familiar antics. For them, it is business as usual. And where is this taking us? What is the sense of direction of this government? On Wednesday, a respected leader of the ruling Pakistan People’s Party, Zafar Ali Shah, surprised his colleagues by criticising his own party’s leadership in the National Assembly. He accused the party of turning Pakistan into a ‘banana republic’. Who knows, someone in the government may even take this as a compliment.

The writer is a staff member. Email: ghazi_salahuddin@hotmail. com

Source; The News, 16 May 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akhtar
    -
  2. Akhtar
    -