Parliament must intervene – by Khalid Wasti
=================================
وقت گزرنے سے پہلے پالیمینٹ مداخلت کرے
=================================
پارلیمینٹ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین دو اہم ایشوز پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے – بظاہر پارلیمینٹ کے ساتھ عدلیہ کا اختلاف اٹھارویں ترمیم پر ہے – عدلیہ کا موڈ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ترمیم میں ججوں کے انتخاب کا جو طریقہءکار وضع کیا گیا ہے اس سے عدلیہ کی آزادی پر زد پڑتی ہے اس لیئے ان آٹیکلز میں عدلیہ کی مرضی کے مطابق تبدیل کی جائے – اس کے برعکس ، پارلیمینٹ کا کہنا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائیندوں نے نوے دن کی عرق ریزی کے بعد آئین کے ایک ایک لفظ پر غور و خوض کرکے جو ترامیم کی ہیں اور انہیں متفقہ طور پر منظور کیا ہے ان میں کسی تبدیلی پر اگر سپریم کورٹ مجبور کرتی ہے تو گویا وہ قوم کے نمائیندوں سے اختلاف رائے کر رہی ہے اور قوم کے نمائیندوں سے اختلاف کا مطلب سترہ کروڑ عوام سے اختلاف ہے – ایک مسلمان ملک کے سترہ کروڑ عوام کی رائے سے اختلاف خدا تعالی کے حق حکمرانی کے مطابق کس طرح ہو سکتا ہے جس کا اختیار اس نے عوام کو دیا ہے ؟
پارلیمینٹ کسی بھی جمہوری ملک کا بالا دست ادارہ ہوتا ہے – پارلیمینٹ کی بالا دستی کے نیچے رہتے ہوئے عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہے – ظاہر ہے کہ یہ مادر پدر آزادی نہیں ہے – اس آزادی کی حدود آسمان کی وسعتوں سے بھی آگے نہیں ہیں بلکہ سپریم کورٹ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں پارلیمینٹ کی بالا دستی پر کوئی حرف آنے کا اندیشہ ہو
عدلیہ کا انتظامیہ کے ساتھ بھی ایک ایشو چل رہا ہے اور وہ ہے سپریم کورٹ کا این آر او کے کیس پر فیصلہ – اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ زرداری صاحب کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں چلنے والے کیسز کو بند کرانے کے لیئے مشرف دور کے اٹارنی جنرل نے جو خط لکھا ، ان کا یہ اقدام غیر قانونی تھا – حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو وضاحتی خط لکھ کر اس امر سے آگاہ کرے – حکومت یہ خط اس بنیاد پر نہیں لکھ رہی کہ صدر پاکستان کو آئین یہ تحفظ دیتا ہے کہ عہدہ ء صدارت کے دوران ان کے خلاف کوئی کیس نہیں چل سکتا اس لیئے حکومت پاکستان سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو ایسا کوئی خط نہیں لکھ سکتی جس سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہو – سپریم کورٹ ، ظاہر ہے کہ حکومت کے انکار کو اپنی اہانت سمجھتی ہے اس لیئے وہ ہر صورت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانا چاہتی ہے – اور حکومت یعنی کہ انتظامیہ اس امر پر مسلسل اصرار کر ر ہی ہے کہ نہ صرف پاکستان کاآئین صدر کو تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون بھی ہر ایک ہیڈ آف دی سٹیٹ کو یہ ایمیونیٹی دیتا ہے
ریاست کے دو اہم ستونوں ، عدلیہ اور انتظامیہ کی اس کشمکش کے اندر محض قانونی ہی نہیں، سیاسی پہلو بھی پنہاں ہے – واضح ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک تنازعہ موجود ہے – یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ فریقین میں سے ایک فریق وہ ہے جسے اس تنازعہ کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ دوسرے فریق کو یہ حق حاصل نہیں ہے
سوئس کورٹ کو خط لکھنے کا نتیجہ یا مقصد صدر کے خلاف کیس چلا نا ہے ، اور اگر آئین صدر کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو پھر اس خط کا لکھا جانا لازما خلاف آئین ہے ، تو کیا سپریم کورٹ یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اس نے خلاف آئین عمل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔ ! اس صورت میں تو فیصلہ نوشتہ ء دیوار ہے – یہ ہے “درپردہ راز،، جس کی وجہ سے حکومت میڈیا میں تو صدر کے تحفظ کی بات کرتی ہے لیکن عدالت میں نہیں کر سکتی
اس گمبھیر صورت حال سے نکلنے کے لیئے پارلیمینٹ کو ریاست کا بالا دست ادارہ ہونے کےناطے ایک بھرپور اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیئے – پارلیمینٹ کوئی سا بھی فیصلہ کرے – انتظامیہ کے حق میں ، چاہے عدلیہ کے حق میں – چاہے انتظامیہ کو سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں خط لکھنے کے لیئے کہے یا اس کے برعکس ،غیر مبہم الفاظ میں واضح کرے کہ آئین کے اندر صدر کو جو ایمیونیٹی ہے اس کی تشریح پارلیمینٹ کے نزدیک یہ ہے کہ دوران عہدہ صدر کے خلاف کوئی کیس نہیں چل سکتا چاہے نیا ہو یا پرانا – اس لیئے ، ہم جو آئین کے خالق ہیں ، آئین کے جسم یعنی اس کے الفاظ کے اندر مفہوم کی روح پھونکنے والے ہیں ،آئین کی تشریح کو یا اس کے کسی آرٹیکل کے پس منظر اور اس کے تخلیق کرنے کی وجہ کو کسی بھی دوسرے فرد اور کسی بھی دوسرے ادارے کی نسبت بہت بہتر جانتے ہیں – اس لیئے آئین کی اصل روح پوچھنی ہے تو ان سے پوچھی جائے جنہوں نے یہ روح پھونکی ہے – ہماری تشریح کے برعکس اگر کوئی تشریح کی جاتی ہے تو وہ آئین بنانے کا حق رکھنے والوں کی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ نہیں – اور اگر وہ تشریح آئین بنانے والوں کی سوچ سے متصادم ہے تو لازمی طور پر آئین سے بھی متصادم ہے
پارلیمینٹ کی مداخلت نہ کرنے کی وجہ سے “ملاں“ کو موقع مل گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کے پراپیگنڈا کا ٹھیکہ حاصل کرلے – اس پراپیگنڈہ کے دوران “ملاں“ نے اپنے ایجنڈے کو بھی خوب آگے بڑھایا یعنی پارلیمینٹ کی بالا دستی ختم کرنے اور ملک کے “ پس پردہ ، اصل حکمرانوں “ کے ساٹھ سالہ “شکنجہ سسٹم“ کو برقرار رکھنے میں تعاون کا ایجنڈا
پارلیمینٹ اگر مملکت کے ان دو ستونوں کے درمیان ایک فیصلہ کن رول ادا نہیں کرتی تو آنے والے دنوں میں خود پارلیمینٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنا ایک یقینی امر ہے – اور یہی “شکنجہ گروپ “ کا پروگرام ہے جس کے لاؤڈ سپیکر کے طور پر مُلاں استعمال ہو رہا ہے – واضح رہے کہ ان معروضات کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ پارلیمینٹ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ کرے، بے شک مخالفت میں کرے لیکن فیصلہ ضرور کرے کیونکہ مدعا یہ ہے کہ ہر فرد کے ذہن میں پارلیمینٹ کی بالا دستی کا اصول تازہ ہو جائے تاکہ آنے والے دنوں میں جب اٹھارویں ترمیم کا فیصلہ ہونا ہے تو رائے عامہ بیدار ہو چکی ہواور عدلیہ انصاف کرنا چاہے تو اس کے رستے میں مُلاں یا “طاقت کا اصل مرکز ، شکنجہ گروپ “ کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے
Share
خدا خیر کرے….نشیب و فراز…عباس مہکری
جنرل ضیاء الحق مرحوم کا دور حکومت تھا۔ اسلام آباد میں ایک عشایئے میں ملک کی اُس وقت کی اہم شخصیات شریک تھیں۔ دوسرے دن نصرت بھٹو کیس کا سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانا تھا۔ اس تقریب کا ایک اہم واقعہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) کے ایم ایم عارف اپنی کتاب ”KHAKI SHADOWS“ (خاکی شیڈوز) کے صفحہ۔291 پر بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تقریب میں فوجی حکومت کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان انوار الحق سے پوچھا کہ یقیناً آپ نے نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ لکھ لیا ہوگا۔ انوارالحق نے جواب دیا کہ فیصلے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ صبح 9 بجے فیصلہ سنایا جائے گا اور اس فیصلے میں مارشل لاء کے نفاذ کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق نے پیرزادہ سے پوچھا کہ آپ صبح عدالت آئیں گے؟ اس پر شریف الدین پیرزادہ نے اُن سے سوال کیا کہ کیا آپ نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا ہے؟ جسٹس انوارالحق نے کہا نہیں۔ پیرزادہ نے کہاکہ ”پھر تو حکومت کو نیا چیف جسٹس لینا پڑے گا“۔
انوارالحق نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ پیرزادہ نے اُن سے کہاکہ آپ کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا رہے ہیں۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے آئین میں ترمیم کرکے آپ کے پیشرو چیف جسٹس یعقوب علی خان کو ہٹا دیا تھا۔ اب ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعہ یعقوب علی خان دوبارہ حلف اُٹھائیں گے۔ جسٹس انوارالحق تقریب سے سیدھے گھر گئے اور ٹائپ کئے ہوئے فیصلے میں ہاتھ سے ایک فقرے کا اضافہ کیا۔ وہ فقرہ تھا ”INCLUDING THE POWER TO AMENDIT“ (یعنی آئین میں ترمیم کے اختیار سمیت)۔ جنرل کے ایم ایم عارف کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اُنہیں خود شریف الدین پیرزادہ نے سنایا تھا۔
واضح رہے کہ جسٹس انوارالحق اُس سات رکنی بنچ کے بھی سربراہ تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ اس بنچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ بھی تھے جو بعد ازاں پاکستان کے چیف جسٹس بھی بنے۔ نسیم حسن شاہ نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دباؤ کے تحت دیا گیا تھا۔ جنرل کے ایم ایم عارف کی کتاب میں درج واقعہ اور جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعتراف سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایک طرف تو آئین میں ترامیم کا اختیار دیا گیا دوسری طرف پاکستان کو متفقہ آئین دینے والے مقبول عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ دونوں کام عدلیہ کے ذریعہ ہوئے۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنی مرضی سے آئین میں ترامیم کیں اور ایک غیر جماعتی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) سے 8 ویں آئینی ترمیم کی شکل میں اپنے سارے اقدامات کی توثیق کرالی۔ 8 ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد پارلیمنٹ کو کمزور کرنا تھا۔
بیگم نصرت بھٹو کیس کے بعد ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں آیا۔ ظفر علی شاہ کیس میں پارلیمنٹ کی معطلی اور آئین کو معرض التواء میں رکھنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس ارشاد حسن‘ جسٹس ناظم حسین صدیقی اور جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر جج شامل تھے۔ اس کیس کے فیصلے میں بھی نہ صرف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ٹیک اوور کو جائز قرار دیا گیا تھا بلکہ اُنہیں آئین میں بھی ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ پرویز مشرف نے بھی آئین میں من مانی ترامیم کیں اور 1973ء کے آئین کی بنیادی روح کو مسخ کیا۔ اپنے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کو ایسی اسمبلی کے ذریعے آئینی تحفظ دلوایا جس اسمبلی کی تشکیل کے لئے اُنہوں نے اپنا ہر آمرانہ حربہ استعمال کیا۔ ایل ایف او کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے 17 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی۔ 17 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ ”اب میں نے پارلیمنٹ کی طرف سے آئین میں کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم کا عمل مشکل بنا دیا ہے“۔
ہم اپنی تاریخ سے ان واقعات کو حذف نہیں کرسکتے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فرد واحد کو آئین میں ترمیم کے اختیارات دیئے جانے کے فیصلے ہوچکے ہیں۔ وہ فرد واحد کوئی منتخب نمائندہ نہیں بلکہ سرکاری ملازم تھا۔ 8 ویں اور 17 ویں آئینی ترامیم فوجی آمروں کے زیر سایہ بننے والی اسمبلیوں نے منظور کیں۔ یہ بھی تمام ایسے حقائق ہیں‘ جن سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔
اس وقت پاکستان میں جوسیا سی‘ معاشی اور تہذیبی بحران ہے۔ اُس کے دیگر اسباب میں ایک بڑا سبب ہماری عدلیہ کے ماضی کے فیصلے بھی ہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم سے آئین کا وہ وفاقی پارلیمانی جمہوری کردار بحال کردیا گیا ہے‘ جسے آمروں نے 8 ویں اور 17 ویں ترمیم کے ذریعے مسخ کردیا تھا۔ یہ بڑا اہم سوال ہے کہ کیا پارلیمنٹ آئین میں ترامیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ اور یہ سوال ہے بھی یا نہیں؟ کیونکہ اس سے پہلے فرد واحد کو بھی ترمیم کا اختیار مل چکا ہے۔ اس کیس کا فیصلہ بحیثیت قوم ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ خدا کرے کہ کوئی ایسا مرحلہ نہ آئے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین تصادم کی صورتحال پیدا ہو۔ کسی نے درست کہا تھا کہ تاریخی حادثے اچانک رونما نہیں ہوتے۔ تاریخی غلطیاں ہی تاریخی حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=433261
Share
اختیارات کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہے….عرض حال…نذیر لغاری
چارلس 25 سال کی عمر میں بادشاہ بنا۔ 25 سالہ برطانوی بادشاہ کی شادی فرانس کے ہنری چہارم کی 15 سالہ بیٹی ہنریٹا ماریا کے ساتھ ہوئی۔ برطانیہ کے پروٹسٹنٹ عوام اس شادی سے خوش نہیں تھے کیونکہ ہنریٹا کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ فرانس میں لوئی سینز دہم (13 ویں لوئی) نے پروٹسٹنٹ فرقے کے خلاف اعلان جنگ کیا تو چارلس نے اپنی بیوی اور اپنے سالوں کو خوش کرنے کیلئے فرانسیسی ہم عقیدہ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ شاہ لوئی سینز دہم کو شاہ چارلس کی کھلی حمایت حاصل تھی اور برطانوی عوام اپنے بادشاہ سے سخت ناراض ہوچکے تھے۔
شاہ چارلس اور پارلیمنٹ کے درمیان پہلا جھگڑا اس وقت ہوا جب اس نے پارلیمنٹ سے 10 لاکھ پونڈ کے ٹیکس طلب کئے، میگنا کارٹا کے مطابق پارلیمنٹ کی رضامندی کے بغیر ٹیکس نہیں لگائے جاسکتے، پارلیمنٹ نے بادشاہ کے 10 لاکھ پونڈ کے مطالبے کے جواب میں اسے صرف ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی ادائیگی کی منظوری دی۔ پارلیمنٹ نے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ ڈیوک آف بکھنگم جارج ویلیئر کو بادشاہ کو نامناسب مشورے دینے پر ایوان اقتدار سے بے دخل کردیا جائے۔ بادشاہ نے پارلیمنٹ کا مشورہ ماننے کے بجائے خود پارلیمنٹ کو توڑ دیا۔ یہ بادشاہ کی تاجپوشی کا پہلا سال تھا۔ پارلیمنٹ اور بادشاہ کے درمیان اختیارات کی جنگ شروع ہوچکی تھی۔
1626 میں بادشاہ دوسری پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے پر مجبور ہوگیا۔ بادشاہ بحرانوں میں گھرا ہوا تھا اور پارلیمنٹ عوام کے منتخب ادارے کے طور پر اپنی سپریم حیثیت پر اصرار کررہی تھی۔ دوسری پارلیمنٹ نے بھی شاہ چارلس کی طرف سے ٹیکسوں کے نفاذ کا مطالبہ مسترد کردیا۔ پارلیمنٹ نے بادشاہ کے وزراء سے ملنے اور ان سے سوال جواب کرنے کا مطالبہ کردیا۔ بادشاہ نے پارلیمنٹ کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے بادشاہ کے وزراء سے پوچھ گچھ کا کوئی حق نہیں۔ بادشاہ نے دوسری پارلیمنٹ بھی توڑ ڈالی۔ بادشاہ کا بحران بڑھتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بادشاہت سمیت تمام اداروں سے بالاتر حیثیت کیلئے اصرار کررہی تھی۔ عوام کے منتخب نمائندے اپنے آپ کو اقتدار کا سرچشمہ سمجھتے تھے جبکہ بادشاہ نے آرچ بشپ آف کنٹربری ولیم لاؤڈ سے یہ فتویٰ جاری کرایا کہ بادشاہ خدا کا نمائندہ ہے اور اس کا تقرر خدا نے ہی کیا ہے لہٰذا بادشاہ کا اقتدارخدا کی منشا کے عین مطابق ہے۔ ولیم لائڈ کے اس فتوے کے بعد ارکان پارلیمنٹ آرچ بشپ کے بھی خلاف ہوگئے۔
بادشاہ اپنے اقتدار کے پہلے پانچ سالوں میں تین بار پارلیمنٹ کو توڑ چکا تھا۔ 1640 کو اس پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا جسے برطانیہ میں بالعموم طویل پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ طے کرچکی تھی کہ وہ نہ صرف بادشاہ کے اختیارات کو محدود تر کردے گی بلکہ وہ عوام کے منتخب ادارے کے طور پر اپنی سپریم حیثیت تسلیم کراکے دم لے گی۔ بادشاہ کے دو قریبی ساتھی ولیم لائڈ اور تھامس وینٹ ورتھ کو غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ بادشاہ کے مخالف ارکان پارلیمنٹ نے بادشاہ کے ساتھیوں کیلئے حقوق سے محرومی اور سزائے موت کا قانون منظور کیا۔ بادشاہ کو بھی اس قانون کی منظوری دینی پڑی جس کے نتیجے میں بادشاہ کے قریبی ساتھی تھامس وینٹ ورتھ کو سزائے موت دے دی گئی۔
اب 1641 شروع ہوچکا تھا، برطانیہ میں اداروں کے اختیارات کی جنگ خانہ جنگی میں بدل چکی تھی، پارلیمنٹ مسلسل اپنی بالاتر حیثیت کیلئے اصرار کررہی تھی۔ شاہ چارلس خانہ جنگی کے بھڑکتے شعلوں میں پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کی دہشت سے لندن کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ادارہ جاتی تصادم خانہ جنگی میں بدل چکا تھا اور جنگ کے شعلے برطانیہ کے طول و عرض میں پھیلتے جارہے تھے۔ انگلینڈ اور ویلز کے شمال اور جنوب مغرب کے وڈیرے اور جاگیردار بادشاہ کا ساتھ دے رہے تھے۔ زمیندار اپنے ہاریوں کو بادشاہ کی حامی فوج میں بھرتی ہونے کیلئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ دوسری جانب لندن شہر اور جنوب مشرق کی کاؤنٹیوں کے عوام پارلیمنٹ کا ساتھ دے رہے تھے۔ نوٹنگھم میں 3 سال تک شدید محاذ آرائی ہوتی رہی۔
شاہ پرست، آمریت پرست اور منتخب عوامی ادارے کے مدمقابل افواج پسپا ہوتی جارہی تھیں۔ چارلس کو اس جنگ میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا ، اس کے ایک ہزار ساتھی مارے گئے جبکہ ساڑھے چار ہزار قیدی بنالئے گئے۔ نوٹنگھم کی شکست نے شاہ پرستوں کیلئے شکست، پسپائی اور ہزیمت کے دروازے کھول دیئے۔ چارلس کو سب سے زیادہ آکسفورڈ پر بھروسہ تھا مگر اسے وہاں سے بھی کچھ نہ ملا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا منکر چارلس دربدر چھپتا پھر رہا تھا۔ جنوری 1647 کو چارلس انگلینڈ سے اسکاٹ لینڈ بھاگ گیا جہاں اسے گرفتار کرکے پارلیمنٹ کی حامی افواج کے حوالے کردیا گیا۔ نومبر 1647 میں چارلس پارلیمنٹ کی حامی فوج کی حراست سے بھاگ گیا۔ اگست 1648 میں پارلیمنٹ کی حامی کرامویل کی فوجوں نے اسکاٹ لینڈ میں چارلس کی حامیوں کو شکست دی اور چارلس پھر گرفتار کرلیا گیا۔ 1949 کے آغاز پر چارلس پر عوام کے منتخب ادارے پارلیمنٹ کے خلاف جنگ کرنے کے نتیجے میں ان گنت اموات، جلاؤ گھیراؤ اور خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی فرد جرم عائد کی گئی۔
وہ 30 دسمبر 1649 کا سرد دن تھا۔ لندن میں درجہ حرارت صفرتک گرچکا تھا، یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ سردی کی لہریں برف کی مانند رگ و پے میں اترتی محسوس ہورہی تھیں۔ چارلس اول نے اپنی قمیض کے اوپر دوسری قمیض پہنی۔ اسے آج سزائے موت ہونی تھی اور وہ یہ چاہ رہا تھا کہ پارلیمنٹ سے جنگ میں ہارنے کے بعد موت کی جنگ ہارنے کے مرحلے پر ارکان پارلیمنٹ یہ نہ سمجھیں کہ چارلس خوف سے کانپ رہا ہے، وہ خوف پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔ زندگی کی 49 ویں بہار میں اس پر خزاں آچکی تھی۔ اسے شاہی محل وہائٹ ہال کے دروازے پر لایا گیا۔ چارلس نے یہاں صرف دو جملے کہے، پہلا جملہ یہ تھا کہ ”یہاں کوئی بھی شخص میری تھوڑی سی بات بھی نہیں سنے گا“۔ اس نے دوسرا جملہ کرنل ٹیکر کی طرف منہ کرکے کہا تھا ”اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ لوگ مجھے کسی اذیت سے دوچار نہ کریں۔“ پھر بادشاہ نے دونوں قمیضیں اتاریں اور اپنی گردن ایک بلاک پر رکھ دی، پھر لمحہ بھر کا وقفہ ہوا، پھر جلاد آگے بڑھا اس کے ہاتھ میں کلہاڑا تھا، اس نے کلہاڑا اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر ایک ہی وار میں بادشاہ کا سر دھڑ سے الگ کردیا۔برطانیہ میں بادشاہت کا ادارہ آج بھی موجود ہے، مگر ملک پر عوام کا راج ہے، تمام طاقت اور اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں اور کوئی بھی ادارہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں سمجھتا۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=433820