Parliament must intervene – by Khalid Wasti

=================================
وقت گزرنے سے پہلے پالیمینٹ مداخلت کرے
=================================


پارلیمینٹ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین دو اہم ایشوز پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے – بظاہر پارلیمینٹ کے ساتھ عدلیہ کا اختلاف اٹھارویں ترمیم پر ہے – عدلیہ کا موڈ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ترمیم میں ججوں کے انتخاب کا جو طریقہءکار وضع کیا گیا ہے اس سے عدلیہ کی آزادی پر زد پڑتی ہے اس لیئے ان آٹیکلز میں عدلیہ کی مرضی کے مطابق تبدیل کی جائے – اس کے برعکس ، پارلیمینٹ کا کہنا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائیندوں نے نوے دن کی عرق ریزی کے بعد آئین کے ایک ایک لفظ پر غور و خوض کرکے جو ترامیم کی ہیں اور انہیں متفقہ طور پر منظور کیا ہے ان میں کسی تبدیلی پر اگر سپریم کورٹ مجبور کرتی ہے تو گویا وہ قوم کے نمائیندوں سے اختلاف رائے کر رہی ہے اور قوم کے نمائیندوں سے اختلاف کا مطلب سترہ کروڑ عوام سے اختلاف ہے – ایک مسلمان ملک کے سترہ کروڑ عوام کی رائے سے اختلاف خدا تعالی کے حق حکمرانی کے مطابق کس طرح ہو سکتا ہے جس کا اختیار اس نے عوام کو دیا ہے ؟

پارلیمینٹ کسی بھی جمہوری ملک کا بالا دست ادارہ ہوتا ہے – پارلیمینٹ کی بالا دستی کے نیچے رہتے ہوئے عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہے – ظاہر ہے کہ یہ مادر پدر آزادی نہیں ہے – اس آزادی کی حدود آسمان کی وسعتوں سے بھی آگے نہیں ہیں بلکہ سپریم کورٹ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں پارلیمینٹ کی بالا دستی پر کوئی حرف آنے کا اندیشہ ہو

عدلیہ کا انتظامیہ کے ساتھ بھی ایک ایشو چل رہا ہے اور وہ ہے سپریم کورٹ کا این آر او کے کیس پر فیصلہ – اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ زرداری صاحب کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں چلنے والے کیسز کو بند کرانے کے لیئے مشرف دور کے اٹارنی جنرل نے جو خط لکھا ، ان کا یہ اقدام غیر قانونی تھا – حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو وضاحتی خط لکھ کر اس امر سے آگاہ کرے – حکومت یہ خط اس بنیاد پر نہیں لکھ رہی کہ صدر پاکستان کو آئین یہ تحفظ دیتا ہے کہ عہدہ ء صدارت کے دوران ان کے خلاف کوئی کیس نہیں چل سکتا اس لیئے حکومت پاکستان سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو ایسا کوئی خط نہیں لکھ سکتی جس سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہو – سپریم کورٹ ، ظاہر ہے کہ حکومت کے انکار کو اپنی اہانت سمجھتی ہے اس لیئے وہ ہر صورت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانا چاہتی ہے – اور حکومت یعنی کہ انتظامیہ اس امر پر مسلسل اصرار کر ر ہی ہے کہ نہ صرف پاکستان کاآئین صدر کو تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون بھی ہر ایک ہیڈ آف دی سٹیٹ کو یہ ایمیونیٹی دیتا ہے

ریاست کے دو اہم ستونوں ، عدلیہ اور انتظامیہ کی اس کشمکش کے اندر محض قانونی ہی نہیں، سیاسی پہلو بھی پنہاں ہے – واضح ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک تنازعہ موجود ہے – یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ فریقین میں سے ایک فریق وہ ہے جسے اس تنازعہ کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ دوسرے فریق کو یہ حق حاصل نہیں ہے

سوئس کورٹ کو خط لکھنے کا نتیجہ یا مقصد صدر کے خلاف کیس چلا نا ہے ، اور اگر آئین صدر کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو پھر اس خط کا لکھا جانا لازما خلاف آئین ہے ، تو کیا سپریم کورٹ یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اس نے خلاف آئین عمل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔ ! اس صورت میں تو فیصلہ نوشتہ ء دیوار ہے – یہ ہے “درپردہ راز،، جس کی وجہ سے حکومت میڈیا میں تو صدر کے تحفظ کی بات کرتی ہے لیکن عدالت میں نہیں کر سکتی

اس گمبھیر صورت حال سے نکلنے کے لیئے پارلیمینٹ کو ریاست کا بالا دست ادارہ ہونے کےناطے ایک بھرپور اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیئے – پارلیمینٹ کوئی سا بھی فیصلہ کرے – انتظامیہ کے حق میں ، چاہے عدلیہ کے حق میں – چاہے انتظامیہ کو سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں خط لکھنے کے لیئے کہے یا اس کے برعکس ،غیر مبہم الفاظ میں واضح کرے کہ آئین کے اندر صدر کو جو ایمیونیٹی ہے اس کی تشریح پارلیمینٹ کے نزدیک یہ ہے کہ دوران عہدہ صدر کے خلاف کوئی کیس نہیں چل سکتا چاہے نیا ہو یا پرانا – اس لیئے ، ہم جو آئین کے خالق ہیں ، آئین کے جسم یعنی اس کے الفاظ کے اندر مفہوم کی روح پھونکنے والے ہیں ،آئین کی تشریح کو یا اس کے کسی آرٹیکل کے پس منظر اور اس کے تخلیق کرنے کی وجہ کو کسی بھی دوسرے فرد اور کسی بھی دوسرے ادارے کی نسبت بہت بہتر جانتے ہیں – اس لیئے آئین کی اصل روح پوچھنی ہے تو ان سے پوچھی جائے جنہوں نے یہ روح پھونکی ہے – ہماری تشریح کے برعکس اگر کوئی تشریح کی جاتی ہے تو وہ آئین بنانے کا حق رکھنے والوں کی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ نہیں – اور اگر وہ تشریح آئین بنانے والوں کی سوچ سے متصادم ہے تو لازمی طور پر آئین سے بھی متصادم ہے

پارلیمینٹ کی مداخلت نہ کرنے کی وجہ سے “ملاں“ کو موقع مل گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کے پراپیگنڈا کا ٹھیکہ حاصل کرلے – اس پراپیگنڈہ کے دوران “ملاں“ نے اپنے ایجنڈے کو بھی خوب آگے بڑھایا یعنی پارلیمینٹ کی بالا دستی ختم کرنے اور ملک کے “ پس پردہ ، اصل حکمرانوں “ کے ساٹھ سالہ “شکنجہ سسٹم“ کو برقرار رکھنے میں تعاون کا ایجنڈا

پارلیمینٹ اگر مملکت کے ان دو ستونوں کے درمیان ایک فیصلہ کن رول ادا نہیں کرتی تو آنے والے دنوں میں خود پارلیمینٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنا ایک یقینی امر ہے – اور یہی “شکنجہ گروپ “ کا پروگرام ہے جس کے لاؤڈ سپیکر کے طور پر مُلاں استعمال ہو رہا ہے – واضح رہے کہ ان معروضات کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ پارلیمینٹ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ کرے، بے شک مخالفت میں کرے لیکن فیصلہ ضرور کرے کیونکہ مدعا یہ ہے کہ ہر فرد کے ذہن میں پارلیمینٹ کی بالا دستی کا اصول تازہ ہو جائے تاکہ آنے والے دنوں میں جب اٹھارویں ترمیم کا فیصلہ ہونا ہے تو رائے عامہ بیدار ہو چکی ہواور عدلیہ انصاف کرنا چاہے تو اس کے رستے میں مُلاں یا “طاقت کا اصل مرکز ، شکنجہ گروپ “ کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -