Khalid Khwaja: Life and death of an intelligence operative – by Nimer Ahmed
Former daily Aajkal columnist and briliant young journalist Nimer Ahmed has written this piece exclusively for the LUBP. We hope Nimer will keep contributing and sharing his valuable thoughts with us. (Ali Arqam Durrani)
خالد خواجہ؟
نمراحمد
حال ہی میں خالد خواجہ ایک بار پھر اچانک شہ سرخیوں کا حصہ بن گئے مگر اس بار شہ سرخیوں کا حصہ بننے کی وجہ اُن کے بیانات نہیں بلکہ اُن کا دردناک انجام تھا۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد لاپتہ ہونے والے افراد میں سے سب سے زیادہ معمر شخص خالد خواجہ ہی تھے جنہیں متعدد بار خفیہ ایجنسیوں نے حراست میں لیا اور اعلیٰ عدلیہ نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا۔ کچھ لوگوں کے مطابق خالد خواجہ مذہبی انتہا پسند تھے ،’’ہم معصوم لوگوں کے قتل پر یقین نہیں رکھتے مگر ہم تمھیں پتھر کے عہد میں دھکیل دینا چاہتے ہیں، جیسے تم نے ہمیں یہاں دھکیل دیا۔ غلام ہمیشہ آقا سے نفرت ہی کرتا ہے۔‘‘ (خالد خواجہ 2005ئ)،جبکہ کچھ کے مطابق خالد خواجہ صرف ایک ’سمجھ دار‘ شخص تھے ،
درحقیقت مسئلہ دہشت گردی ہے۔ ریاستیں اور حکومتیں دہشت گردی شروع کرتی ہیں، اور پھر اس میں شامل افراد ہی نشانہ بن جاتے ہیں۔ ریاستوں کے اس جرم میں سب ممالک شامل ہے، پھر چاہے آپ پاکستان، بھارت، اسرائیل یا امریکا کی بات کر لےں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اسے مشرق اور مغرب یا اسلام اور عیسائیت نیز یہودیوں سے لڑائی گردانتے ہیں، مگر یہ سب بکواس ہے۔ درحقیقت حکمران اشرافیہ اپنے مفادات کو حاصل کر کے لیے لوگوں کا استحصال کرتی ہے۔ کہیں یہ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے تو کہیں یہ جمہوریت یا آمریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ 90 فیصد لوگ محکومیت قبول کر لیتے ہیں جبکہ کچھ لڑائی کرتے ہیں۔ اشرافیہ اور انقلابی دونوں اقلیت میں ہوتے ہیں اور دونوں کی جنگ سے نقصان 90 فیصد خاموش لوگوں کو پہنچتا ہے۔ پھر بھی لوگ مذاہب کی بات کرتے ہیں حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ کچھ لوگ اپنے مرضی لاگو کرنا چاہتے ہیں اور اُن کا کوئی مذہب نہیں ۔ ان میں ہر مذہب کے ماننے والے ہیں۔‘‘ خالد خواجہ 2005ء ٹائمز انٹرویو
1980
ء کی دہائی میں صدر ضیاالحق کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں خالد خواجہ کو پاک فضائیہ سے جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا۔ اپنے شہرہ آفاق خط میں خالد خواجہ نے جنرل ضیاالحق کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قوم کو دھوکہ دیا اور پاکستان میں اسلامی قوانین لاگو نہیں کیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خالد خواجہ جہاد کے لیے افغانستان چلے گئے جہاں اُن کے عرب جنگجوئوں، خصوصاً اسامہ بن لادن کے ساتھ گہرے مراسم قائم ہو گئے
۔1988ء میں بے نظیر حکومت قائم ہونے کے بعد ایک بار پھر خالد خواجہ کا نام سامنے آیا۔ اس بار خالد خواجہ جنرل حمید گل کے ساتھ مل کر آئی جی آئی بنانے میں بھرپور کردار ادا کر رہے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں خالد خواجہ نے بتایا کہ انہوں نے سعودی عرب میں نوازشریف اور اسامہ بن لادن کی ملاقات کروائی جس میں اسامہ بن لادن نے بے نظیر کی حکومت الٹانے کے لیے کثیر رقم فراہم کی۔ اپنے اسی انٹرویو میں خالد خواجہ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس دور میں انہوں نے اپنے عرب دوستوں کو شیخ رشید کے جہادی کیمپ کا دورہ بھی کروایا اور عرب دوستوں نے شیخ رشید کو بے تحاشہ پیسہ بھی دیا۔ اکتوبر 1995ء میں جنرل عباسی کی ممکنہ بغاوت میں بھی قاری سیف اللہ اختر اور امجد فارقی کے ساتھ ساتھ خالد خواجہ کا نام لیا گیا۔
ستمبر 2001ء کے بعد خالد خواجہ اور امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ’جیمز وزلے‘ نے افغانستان پر امریکی حملہ رکوانے کے لیے ناکام کوششیں بھی کیں۔ اس سلسلہ میں بے تحاشہ پیسہ بھی صرف کیا گیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
ڈینیل پرل کے قتل میں ایک بار پھر خالد خواجہ کا نام لیا گیا اور انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ ڈینیل کے ای میل ریکارڈ سے معلوم ہوا تھا کہ پاکستان آمد سے پہلے ’جیمز وزلے ‘ نے ڈینیل کا خالد خواجہ سے رابطہ کروایا تھا اور پھر وہ مسلسل اُن سے رابطے میں تھے مگر ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کے باعث خالد خواجہ کو رہا کر دیا گیا۔
شمالی وزیرستان کی جانب اپنے آخری سفر سے پہلے خالد خواجہ نے ایشیا ٹائمز کو کہا کہ ’’ابھی کچھ کہناقبل از وقت ہے مگر میں جلد ہی آپ کو ایک بڑی خبر دوں گا جس کے تحت پاکستان میں خودکش حملے رک جائیں گے۔‘‘ تاہم اپنے اس سفر میں خالد خواجہ خود دہشت گردی کی واردات کا شکار ہو گئے۔ اُن کے قتل کی وضاحت کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کے طالبان کے ترجمان عمر نے کہا کہ ’’خالد خواجہ، کرنل امام، سابق عراقی انٹیلی جنس ایجنٹ (محمود السمری) اور شاہ عبد العزیز (سابق رکن پالیمنٹ) ڈیڑھ ماہ قبل شمالی وزیرستان آئے تھے۔ یہ سب پرانے جہادی ہیں اور اُن کا خیرمقدم کیا گیا مگر تمام لوگوں نے اُن کی مشکوک حرکات کا جائزہ لیا۔ ان لوگوں نے حکیم اللہ محسود، ولی الرحمان محسود اور خلیفہ صاحب (سراج الدین حقانی) سے ملاقات کی۔ خالد خواجہ کے پاس 14 طالبان کمانڈروں کی فہرست تھی جس میں قاری ظفر بھی شامل تھے۔
خالد خواجہ حکیم اللہ اور ولی الرحمان محسود کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یہ کمانڈر بھارتی جاسوس ہیں اور طالبان انہیں اپنی صفوں سے نکال دیں مگر اپنے کمانڈروں کے خلاف ایسے الزامات سننے کے باوجود ہم خاموش رہے۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم پاکستانی افواج پر حملے بند کریں اور کوئی ایسا طریقہ تلاش کیا جائے جس کے تحت نیٹو کی سپلائی لائن پر حملہ کیا جا سکے اور ہمیں باقی پاکستان میں بھی نیٹو لائن پر حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں میسر کی جائیں گی۔ تاہم انہوں نے اس کے علاوہ بھی کچھ مشکوک حرکتیں کی۔
شاہ عبداالعزیز پریڈ مسجد کے حملہ آوروں کے بارے میں چھان بین کر رہے تھے۔ انہوں نے خلیفہ صاحب کو فوج سے رابطہ بحال کرنے کو کہا اور ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ خالد خواجہ مفتی محسود کی گاڑی استعمال کر رہے تھے اور اُن کی اسلام آباد واپسی کے چند دن بعد اس گاڑی کو ڈرون نے نشانہ بنایا۔ خواجہ نے کہا تھا کہ وہ چند روز بعد ایک برطانوی صحافی کے ساتھ واپس آئے گا۔ یہ صحافی آئی ایس پی آر کے لیے ڈاکومنٹری بناتا تھا۔ ہم جانتےتھے کہ وہ واپس آئے گا اور وہ آیا۔
_خالد خواجہ کی پوری کہانی کا سب سے اہم کردار’منصور اعجاز‘ ہے۔ خالد خواجہ کو منصور اعجاز کا ’سپاہی‘ کہا جاتا تھا۔ منصور اعجاز امریکا میں بہت بڑی انویسمنٹ کمپنی کے مالک ہیں اور ری پبلکن پارٹی کے مذہبی دھڑے کے اہم رکن ہیں۔ منصور اعجاز دنیا کے بڑے بڑے چینلز پر مبصر کی حیثیت سے کام بھی کر چکے ہیں۔ سوڈان سے اسامہ بن لادن کی بے دخلی اور بین الاقوامی ثالثی کے مختلف مواقع پر بھی اُن کا نام لیا گیا۔کچھ اطلاعات کے مطابق منصور اعجاز طالبان ، حکومت پاکستان اور امریکا کے مابین ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں اور خالد خواجہ یہی کام سرانجام دینے کے لیے شمالی وزیرستان گئے تھے۔
Welcome back, Mr. Nimer Ahmed to LUBP.
Hamid Mir has written today that Punjabi Taliban are using Khalid Khwaja’s email account:
جب سے ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک نے قبائلی علاقوں میں طالبان کی کمر توڑ دینے کا بار بار دعویٰ کیا ہے تب سے طالبان نے میڈیا کو ای میلز بھجوانے اور ٹیلیفون کالیں کرنے کا سلسلہ بڑھا دیا ہے۔ بعض اوقات تو طالبان فیکس کے ذریعے بھی ہم تک پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے تو طالبان کی طرف سے مسلم خان یا طالبان میڈیا سینٹر کے نام سے ای میلز بھجوائی جاتی تھیں لیکن آج صبح ایک تنظیم نے خالد خواجہ مرحوم کے ای میل اکاؤنٹ سے میڈیا کو ای میلز بھجوائی ہیں۔ ایشین ٹائیگرز نامی تنظیم نے اپنے ای میل پیغام میں صاف لکھا ہے کہ وہ خالد خواجہ کا ای میل ایڈریس استعمال کر رہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ تنظیم نے خالد خواجہ کو قتل کرنے سے پہلے ان کے ای میل تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ ایشین ٹائیگرز نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی میڈیا مجاہدین کے موٴقف کو درست انداز میں پیش نہیں کر رہا، پاکستانی میڈیا کچھ خفیہ اداروں کے دباؤ میں ہے اور مجاہدین کے خلاف جنگ کا حصہ بن چکا ہے لہٰذا ہم بھی میڈیا کے خلاف جنگ شروع کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایس ایم ایس پیغامات حزب التحریر بھیج رہی ہے۔ یہ تنظیم القاعدہ اور طالبان کی طرح دنیا میں خلافت قائم کرنا چاہتی ہے لیکن عدم تشدد پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ تنظیم 9مئی کو اسلام آباد میں کنونشن کر رہی ہے اور اس کنونشن کی کوریج کیلئے میڈیا پر بڑے منظم انداز میں دباؤ ڈال رہی ہے۔ مختلف صحافیوں کو تراتر کے ساتھ کوریج کیلئے دباؤ میں لایا جا رہا ہے اور ایک ایس ایم ایس کے مطابق پاکستانی میڈیا خفیہ اداروں کے زیر اثر ہے لہٰذا اس میڈیا پر دباؤ بڑھاتے جاؤ
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=430649
Kamila Hayat writing in The News:
The career of Khalid Khawaja is a rather dark indicator of the kind of state we have become. It is a state where plots and counter-plots – often against elected governments – are hatched; where deals of various kinds are struck and where deep splits in ideology lead to factions working for ends that are at odds with each other. Within this world of conspiracy, it is often hard to know on whose side individuals are. Some, like Khawaja, may have switched loyalties from one quarter to the other. We are unlikely to ever know the full truth. Many secrets died with Khalid Khawaja and have forever been buried with him at the Lal Masjid, which continues to function despite the violent events of 2007 and revelations about the messages delivered from that institution.
Khawaja’s death may indicate a change in the times and in the order of events. When he ventured into territory ruled by militants, accompanied by another former ISI official, Colonel (r) Ameer Sultan better known as ‘Colonel Imam’ and a British-Pakistani film-maker, Khawaja evidently believed he was safe.
He had not catered for the split that is now believed to separate the Pakistani Taliban, increasingly dominated by elements from Punjab, and the Afghan Taliban. Khawaja’s loyalty to the Afghans may have been his undoing. The new groups which have emerged from the ranks of militants in Punjab have no affinity with the ISI men who worked hand-in-hand with the former ‘mujahideen’. The old alliance may be at breaking point.
Potentially, at least, this could prove an extremely significant development. The present-day leadership of the military appears to have recognised that the old links with the militants need to end. Khawaja’s attempts over the last two years to re-establish these ties failed. The possibility that the military and the intelligence agencies could withdraw their hand from the militants would of course raise new hope that they can indeed be defeated. For this to happen it is imperative that the powerful props that have held them up through the years be removed.
The murder also raises questions about what games are being played now. The Punjabi Taliban killed a former ISI man; they also appear to have developed very deep differences with the Afghans. Some reports suggest that the demand to hand over key Afghan Taliban leaders was intended to take these men captive rather than secure their release. There is further confusion. Lack of clarity persists on whether authorities have made any real effort to go after the likes of Mullah Omar, or whether he and other key Afghan leaders were ‘protected’ in Quetta. This is what Kabul suspects. At the same time we do not know why any effort is not made to go after the militant groups in Punjab or why the provincial leaderships argues that they do not exist. It could be that we are once more seeing various powerful factions play their own games.
http://thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=237760
Three pertinent questions beg some answers:
Reports that the crudely assembled bomb had little chance of exploding will come as a relief, indicating as they do a certain level of amateurishness involved. Nevertheless, the attempt was serious enough to warrant some intense questions.
First, what is it that is driving people such as Faisal Shahzad and the five young men who recently travelled to Pakistan from the US in search of jihad? Media reports suggest that Mr Shahzad was the quintessential middle-class Pakistani travelling to the West in search of education and employment opportunities and settling down there with a wife and two young children.
What made Mr Shahzad attempt mass murder, presumably in the name of religion? Asking this question isn’t the same as the nonsense about the need to understand the ‘legitimate’ grievances of disaffected young Muslims. It seems very clear that whether it is Al Qaeda or the Taliban or some other brand of international terrorism, the militants have honed in on a vulnerability in the West: young Muslims with the established legal right to live in the countries they appear to hate so much. Without understanding this vulnerability — Americans though must be careful to not turn against the Muslim population, as Mayor Bloomberg warned — an already serious threat may keep growing in severity.
Second, why is it that all terrorist routes seem to lead to Pakistan generally and Fata specifically? While perhaps the absence of a modern state in Fata can partially explain the problems there, there is really no such excuse for Pakistan proper. It’s been nearly 10 years since 9/11 and still the infrastructure of jihad in urban Pakistan, which is likely the first port of call for those travelling from foreign lands in search of jihad, has not been uprooted. The spread of literature and audio and video paraphernalia glorifying jihad and calling for violence against the West, India, Israel, etc continues unchecked. It’s not like the centres for such violent propaganda are not known or cannot be located easily.
Third, should more not be done with the greatest of urgency to increase Pakistan’s counter-terrorism capabilities? While it is true that the state has enhanced its response and beefed up intelligence, it is clear that lapses persist. Perhaps Pakistani authorities need to realise that another 9/11 would be a game-changer of devastating proportions.
http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/editorial/new-york-plot-650
Please do something for these kind of people
http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100932293&Issue=NP_KHI&Date=20100506
Something in English would be nice for those of us so handicapped.