Q&A about supremacy of parliament or judiciary – by Khalid Wasti
===============================
پارلیمینٹ اور عدلیہ کے حوالے سے سوال و جواب
===============================
اٹھارویں ترمیم – اٹھارہ پوائنٹس
(1)
———–
سوال : حکمرانی کا حق کس کا ہے ؟
– فوج کا ؟
– بیوروکریسی کا ؟
– سپریم کورٹ کا ؟
– مُلاں کا ؟
– وڈیروں اور جاگیر داروں کا ؟
جواب : ان میں سے کسی کا بھی نہیں –
سوال : تو پھر حق حکمرانی کس کا ہے ؟
جواب : خدا تعالی کا –
( 2 )
———–
سوال : خدا تعالی اپنے اس اختیار کو زمین پر عملا
استعمال کیسے کرتا ہے ؟
– فوج کے ذریعے ؟
– بیوروکریسی کے ذریعے؟
– سپریم کورٹ کے ذریعے؟
– مُلاں کے ذریعے ؟
– جاگیر داروں کے ذریعے ؟
جواب : ان میں سے کسی کے ذریعے بھی نہیں –
(3)
———-
سوال : تو پھر خدا تعالی کے حق حکمرانی استعمال کرنے کا طریقہ ء کار کیا ہے یعنی وہ کس ذریعے سے اسے استعمال کرتا ہے ؟
جواب : دنیا کی تخلیق سے لے کر نبیءپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک انبیاء علیہم السلام
کے ذریعے اور آپ کی رحلت کے بعد آپ پر ایمان لانے والی اپنی مخلوق کے ذریعے سے –
(4)
———-
سوال : کسی بھی ملک کا نظام چلانے کے لیئے ایک آئین کی ضرورت ہوتی ہے –
اس آئین کے بنانے کا اختیار کس کے پاس پے ؟ فوج ، سپریم کورٹ یا کسی اور ادارے کے پاس ؟
جواب : عوام اپنا یہ اختیار اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں اور یہ نمائیندے اپنے ملک کا آئین بناتے ہیں اور اس آئین کے تحت کسی ملک کا نظام چلتا ہے –
(5)
———–
سوال : خدا کی زمین پر خدا کے بندے اپنے چُنے ہوئے نمائیندوں کو کس ادارے میں بھیجتے ہیں؟ فوج میں ، سپریم کورٹ میں یا سول سیکریٹیریئٹ میں ؟
جواب : ان میں سے کسی ادارے میں بھی نہیں بلکہ پارلیمینٹ میں – چنانچہ پالیمیٹیریئنز کو ہی کسی قوم ، ملک یا عوام کا نمائیندہ کہا جا سکتا ہے نہ کسی جرنیل کو نہ کسی جج کو – کوئی جرنیل کوئی جج کوئی مولوی عوام کی نمائیندگی کرنے کا دعویدار نہیں ہو سکتا –
(6)
————
سوال : حق حکمرانی کے حوالے سے تو پھر ترتیب اس طرح بنتی ہے : خدا ، مخلوق خدا ، مخلوق خدا کے چنے ہوئے نمائیندے اور پارلیمینٹ
جواب : بالکل درست – خلاصہ یہ کہ اوپر خدا اور نیچے خدا کا حق حکمرانی رکھنے والا ادارہ یعنی پارلیمینٹ
(7)
————-
سوال : کسی ریاست کا بالا دست ادارہ پارلیمینٹ ہے تو ملک کے باقی اداروں کا کیا رول ہوتا ہے ؟
جواب : فوج کا رول ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ، پولیس کا فرض ملک میں امن وامان قائم رکھنا ‘
بیوروکریسی کا کام حکومتی پالیسیوں کا نفاذ ، سٹیٹ بینک کا کام مالیاتی اداروں کی نگرانی اور عدالتوں کا کام جرم و سزا کے فیصلے ملکی قانون کے مطابق کرنا – اعلی عدالتوں کا کام ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ، بوقت ضرورت قانونی اغراض کے لیئے آئین کے کسی حصے کی تشریح کر نا –
(8)
———–
سوال : فوج ، پولیس ، عدلیہ اور دیگر تمام اداروں کو یہ سارے اختیارات کون دیتا ہے ؟
جواب : ان تمام اداروں کے اختیارات پارلیمینٹ کے دئیے ہوئے ہیں اور ان کا اندراج جن کاغذوں پر ہوتا ہے ان کے مجموعے کوآئین کہتے ہیں اور اسے کسی ملک کی مقدس دستاویز کہا جاتا ہے –
(9)
—————
سوال : پالیمینٹ مختلف اداروں کو جو اختیارات آئین میں اندراج کرکے دیتی ہے کیا بعد ازاں ان میں
کمی بیشی کر سکتی ہے ؟
جواب : بدلے ہوئے حالات اور حقائق کی روشنی میں ان کے اندر کمی بیشی ہو سکتی یے ، ضرورت ہو تو پارلیمینٹ آئین کے اندر ترامیم بھی کر سکتی ہے –
(10)
————
سوال : اعلی عدالتوں کے نظر ثانی کے حق سے کچھ اس قسم کا تائثر ابھرتا ہے کہ گویا سپریم کورٹ کو پارلیمینٹ پر کسی نوعیت کی برتری حاصل ہے – کیا یہ تائثر درست ہے ؟
جواب : خدا تعالی کی طرف سے عوام ، عوام کی طرف سے منتخب نمائیندوں ، منتخب نمائیندوں کی وساطت سے پارلیمینٹ کو کسی ریاست پر حکمرانی کا اختیار ہے – اس کے بعد شک و شبہ کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ پارلیمینٹ ریاست کے تمام اداروں بشمول سپریم کورٹ کے بالا دست ادارہ ہے – پارلیمینٹ اپنی اجتماعی سوچ کی روشنی میں ریاست کو کامیابی سے چلانے کے لیئے قواعد و ضوابط اور اداروں کی تشکیل کرتی ہے – اداروں کی ضرورت اسی لیئے پیش آتی ہے کہ پارلیمینٹ نے از خود تو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرنی ہوتی ، سکول کالج نہیں کھولنے ہوتے ، ملزموں کو گرفتار اور رہا نہیں کرنا ہوتا ، گھروں میں پانی بجلی کے کنکشن نہیں لگانے ہوتے صرف اپنی پالیسی اوراصول وضع کرنے ہوتے ہیں – انہی اداروں میں عدلیہ بھی ایک ادارہ ہے جس کے فرائض میں جرم و سزا سے لیکر اعلی ترین سطح پر بوقت ضرورت آئین کی تشریح اور قوانین کا جائزہ لینا بھی شامل ہے –
کیا پارلیمینٹ نے ان اداروں کو اپنی سہولت اور اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لیئے بنایا تھا
یا اپنی اجتماعی سوچ ، پالیسی اور فلاسفی میں مشکلات پیدا کرنے کے لیئے ؟
سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی تخلیق ہے ، پارلیمینٹ سپریم کورٹ کی تخلیق نہیں ہے – سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی وسعت اور حدود پر اثر انداز نہیں ہو سکتی لیکن پالیمینٹ سپریم کورٹ کے قدوقامت کو یقینا مختصر یا طویل کر سکتی ہے – یعنی پارلیمینٹ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ سے بارہ یا بائیس کر سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ اراکین اسمبلی یا سینٹ کی تعداد کو کم وبیش نہیں کر سکتی – اس تائثر میں کوئی حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ کسی بھی حوالے سے ایک بالا تر ادارہ ہے بلکہ امر واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ یہ کہ پارلیمینٹ ہی کسی ملک کا بالا دست ترین ادارہ ہے –
(11)
———-
سوال : یہ بات تو بالکل منطقی ہے کہ اختیار دینے والے کی مرضی اور منشا کے مطابق اس کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ الٹا اس کے لیئے دشواری پیدا کی جائے تو وہ اس اختیار کو واپس لے سکتا ہے یا اس میں تخفیف کر سکتا ہے – لیکن اس منطق کے خلاف آئینی امور کےایک ماہر نے دلیل دی ہے کہ ایک ماں اپنے بچے کو جنم تو دے سکتی ہے لیکن اسے قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ؟
جواب : چلیئے ، شکر ہے کہ آئینی امور کے اس ماہر نے پارلیمینٹ کو ماں تو تسلیم کر لیا – یہ بات سو فیصدی درست ہے کہ ماں اپنے بچے کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتی لیکن بچے کو راہ راست پر چلا نا ،
نیک رنگ میں اس کی تربیت کرنا اور آوارہ ہو جانے سے بچانا ایک ماں کا صرف حق ہی نہیں ، اس کی
ذمہ داری بھی ہے – جو ماں ایسا نہیں کرتی وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوتی ہے –
دوسری طرف خدا وند قدوس نے بچے کو وارننگ بھی دے دی کہ دیکھو ماں کے قدموں کو چھوڑو گے تو میری جنت سے محروم ہو جاؤ گے –
(12)
————-
سوال : آئینی امور پر دسترس کی شہرت رکھنے والے ایک معروف ماہر قانون نے کہا ہے کہ اگر کل کلاں
پارلیمینٹ آئین میں ایسی شق تجویز کرے کہ ہمیں اپنے ملک کو ہندوستان میں شامل کر دینا چاہیئے تو کیا سپریم کورٹ خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے گی ؟
جواب : کل کلاں اگر سپریم کورٹ کا سترہ ججوں پر مشتمل فل کورٹ بینچ ایک سو وو موٹو نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کرے کہ تریسٹھ سال میں اس ملک کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے بڑھتے غربت ، جہالت ،
بے روزگاری، اقتصادی بدحالی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اس ملک کو چلانے کے اہل نہیں لہذا ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس ملک کو ہندوستان میں شامل کر دیا جائے – تو کیا اس صورت میں پاکستان کی پارلیمینٹ اور عوام خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے ؟
(13)
————-
سوال : سپریم کورٹ کے “جوڈیشل ریویو “ کا مفہوم کیا ہے ؟
جواب : پارلیمینٹ نے جوڈیشری کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس کی قانون سازی کا جائزہ لے سکتی ہیں اور اگر کوئی قانون آئین کے کسی آرٹیکل کی روح کے عین مطابق نہ ہو تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہیں –
جہاں تک آئین سازی کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ کا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے- آئین “سازی” میں صرف آئین تیار کرنا ہی نہیں ہے بلکہ حسب ِ ضرورت اس کے اندر ترامیم کرنا بھی شامل ہے – اس لیئے اگر سپریم کورٹ کو آئینی ترامیم کا جائزہ لے کر ان کے ردوقبول کا اختیار دے دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین سازی کے عمل میں شریک کیا جا رہا ہے –
آئین کا آرٹیکل ٢٣٩ پارلیمینٹ کو آئین میں ترامیم کے لا محدود اختیارات دیتا ہے اور کسی بھی عدالت کو کسی بھی گراؤنڈ پر ان ترامیم کا جائزہ لینے اور درست یا غلط قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا – مطلب واضح ہے کہ سپریم کورٹ کو “جوڈیشل ریویو ” کا اختیار ہے لیکن ” کانسٹیٹیوشنل ریویو ” کا اختیار ہر گز ہر گز نہیں ہے –
(14)
————-
سوال : فرض کیجیئے کہ سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی کسی ترمیم کو آئین کی کسی شق کے خلاف قرار دیتی ہے
لیکن پارلیمینٹ اسے آئین کے عین مطابق سمجھتی ہے تو اس صورت میں کس کی رائے حتمی ہو گی اور کیوں
جواب : سپریم کورٹ ایسا کرنے کی مجاز نہیں ، یہ اس کے دائرہ ء اختیار سے باہر ہے کہ وہ کسی ترمیم پر رد وکد کا اظہار کرے – اگر وہ ایسا کرتی ہے تو یہ اقدام خلاف آئین ہوگا ، بالکل اسی طرح جب ایک جرنیل ” عزیز ہم وطنو” کہتے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے –
پارلیمینٹ کی رائے بہر حال حتمی اور آخری ہو گی – کئی دلائل پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں – ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آئین کی خالق پارلیمینٹ ہے ، عدلیہ نہیں – آئین سازی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں نہیں ، پارلیمینٹ میں ہوتی ہے ، ہر ایک آرٹیکل کے ایک ایک نقطے پر عوامی نمائیدے جو بحث کرتے ہیں عدلیہ اس سے آگاہ نہیں ہوتی اس لیئے آئین سازی کرنے والے عوامی نمائیندے ہر ایک آرٹیکل کے پس منظر میں موجود فلاسفی ، حکمت اور ضرورت کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے ہیں –
مثال کے طور پر پارلیمینٹ ججوں کی تقرری کا طریقہ ء کار وضع کرتے ہوئے ایک قانون بناتی ہے لیکن سپریم کورٹ اس قانون کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیتی ہے – لیکن قوم کے نمائیندے یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی زد نہیں پڑتی اور سپریم کورٹ اپنی رائے بناتے ہوئے غلطی کی مرتکب ہوئی ہے تو پھر اس طریقہ ء کار پر عمل کرانے کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ پارلیمینٹ کی دو تہائی اکثریت اس طریقہ ء کار کو ایک ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دے – جب پارلیمینٹ کی دو تہائی تعداد ایک رائے بنا لیتی ہے تو یہ وہ حد ہے جسے چھونے پر سپریم کورٹ کے پر جلتے ہیں اور اس آئینی ترمیم میں کسی کمی بیشی کی سوچ اس کی پرواز سے بہت اوپر کا معاملہ ہے اور یہ معاملہ ہے حق حکمرانی کا ، جو نہ سپریم کورٹ کا ہے ، نہ فوج کا ہے بلکہ عوام کا ہے جسے وہ اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے ایسرسائز کرتے ہیں –
(15)
——————
سوال : آئینی ترمیم کے سلسلہ میں پارلیمینٹ کی بالا دستی کے حق میں کوئی عام فہم سی دلیل ؟
جواب : آئینی امور میں پارلیمینٹ کی رائے حتمی نہیں ہونی تو پھر آئین اور اس کی ترمیمات سپریم کورٹ سے کیوں نہیں لکھوا لی جاتیں ؟
(16)
——————
سوال : پارلیمینٹ کی کوئی ترمیم جب آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو تو پھر اسے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے ؟
جواب : ” آئین کا بنیادی ڈھانچہ ” آسمان سے اترا ہوا کوئی فارمولا نہیں ہے – آئینی امور کا کوئی ماہر دکھائے کہ آئین میں کس جگہ بیان ہوا ہے کہ یہ ” آئین کا بنیادی ڈھانچہ ” ہے – دراصل یہ ایک ڈھکوسلہ ہے ان دوسرے ڈھکوسلوں کی طرح جنہیں ملک کے اٹھانوے فیصد عوام کی گردنوں پر سوار دو فیصد طبقہ ” دین و ایمان کے ٹھیکیداروں “کی ملی بھگت سے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیئے تیار کیا کیونکہ یہ دو فیصد” قبضہ گروپ ” ون میں ون ووٹ کی صورت میں کبھی اقتدار میں نہیں آسکتا – اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے ایسے ہی ڈھکوسلوں اور چور دروازوں کی ضرورت رہتی ہے –
آئین کے بنیادی ڈھانچے یا بیسک سٹرکچر کے فریب اور دھوکے کے پیچھے ایک خوفناک منصوبہ ہے – منصوبہ یہ ہے کہ بظاہر ایک بے ضرر نظر آنے والی بات کو آئین کے نام نہاد بنیادی ڈھانچےمیں شامل کر دیا جائے اور وہ بے ضرر چیز ہے ” اسلامی تعلیمات” – ایک دفعہ اسلامی تعلیمات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کر دیا جائے ، بس پھر ، نام رہے اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔ دین مُلاں فی سبیل اللہ فساد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلیاں سنجیاں ہو جاون وچ رانجھا یار پھرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! اللہ اکبر – مُلاؤں کے جس گروہ کے پاس بم ، گرنیڈ ، کاشنکوفیں ، راکٹ لانچر ، جیکٹیں اور خود کش بمبار زیادہ ہوں گے اسی گروہ کی تعبیرات اور تشریحات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار پائیں گی – وہ گروہ جماعت اسلامی کا ہو ، سوات والے صوفی محمد یا مولوی فضل اللہ کا ہو ، حمید گل کا ہو، لشکر طیبہ کا ہو ، تحریک طالبان پاکستان کا ہو ، یا کسی اور کا –
(17)
—————-
سوال : دوسرے ڈھکوسلوں سے کیا مراد ہے ؟
جواب : ایسی گول مول اور مبہم باتیں آئین میں وقتا فوقتا شامل کرواتے رہنا جن کا کوئی معین مفہوم اور
دو ٹوک مطلب نہ ہو – جنہیں حسب ضرورت ربڑ کی طرح کھینچ کر ادھر ادھر فٹ کر دیا جائے – مثلا
قرار داد مقاصد ، نظریہءپاکستان ، اسلامی تعلیمات کے مطابق،نفاذ شریعت ، صادق اور امین یہ وہ ڈھکوسسلے ہیں جنہیں اپنے اپنے وقت کے بد نیت لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیئے آئین کا حصہ بنایا –
(18)
—————
سوال : بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پارلیمینٹس دو قسم کی ہوتی ہیں – قانون ساز اسمبلی اور آئین ساز اسمبلی –
یہ اسمبلی چونکہ قانون ساز ہے – اس لیئے یہ صرف قانون سازی کر سکتی ہے آئین میں ترمیم صرف آئین ساز اسمبلی کر سکتی ہے ؟
جواب : یہ بھی ایک ڈھکوسلہ ہے – آئین میں کسی جگہ آئین ساز اور قانون ساز اسمبلیوں کا ذکر نہیں ہے –
سادہ سی بات ہے جب کسی ملک کا آئین بنانا ہو تو الیکشن کے بعد معرض وجود میں آنے والی اسمبلی
آئین ساز اسمبلی ہوگی اور آئین بن جانے کے بعد انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی
قانون ساز اسمبلی کہلائے گی – اور یہی قانون ساز اسمبلی قانون بھی بنائے گی اور بوقت ضرورت اس میں
ترامیم بھی کرے گی – اور یہ اختیار اس اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی نے آئین بناتے ہوئے اسی آئین میں دے دیا تھا کہ بعد میں آنے والی اسمبلیاں اپنی سادہ اکثریت سے قانون سازی کر سکتے ہیں اور دو تہائی کی اکثریت سے ہمارے بنائے ہوئے آئین میں ترمیم بھی کر سکتی ہیں –
توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب آئین میں قانون ساز اسمبلی اور آئین ساز اسمبلی کی علیحدہ علیحدہ شناخت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں تو پھر اس جھوٹے پراپیگنڈہ کے پیچھے کون سی مکروہ خواہش کارفرما ہے ؟
در اصل پارلیمینٹ کے دو رول ہیں – قانون سازی اور آئین سازی – ایک ہی اسمبلی ہوتی ہے جو یہ دونوں امور سر انجام دیتی ہے – فرق یہ ہے کہ پارلیمینٹ نے سپریم کورٹ کو قانون سازی پر نظر ثانک کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن آئین سازی کے معاملات میں آرٹیکل ٢٣٨ اور ٢٣٩ کے تحت سپریم کورٹ کو ذرا فاصلے پر رکھا ہے اور اس عمل کو چھونے کی اجازت نہیں دی – اس لیئے ” قبضہ گروپ” اور اس کے گماشتوں کا حربہ یہ ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں رول اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو گڈمڈ کر کے ایک ایسی فضا بنادی جائے کہ جب سپریم کورٹ کے آئینی ترامیم سے دور رہنے کا آئینی حوالہ دیا جائے تو اس آئینی حقیقت کو اس شور کے اندر دبا دیا جائے کہ یہ تو آئین ساز اسمبلی ہے ہی نہیں ، ترمیم کیسے کر سکتی ہے –
بالفرض “آئین ساز اسمبلی“ نے یہ حق نہ بھی دیا ہوتا تو عوام کو سپریم ہونے کے ناطے ہر وقت یہ حق حاصل ہے کہ حالات و حقائق کی روشنی میں جب چاہیں بہتری کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں – یاد رکھیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی اجتماعی رائے کبھی غلط نہیں ہو سکتی اور مصور پاکستان علامہ اقبال اس امر کے علمبردار تھے کہ بدلے ہوئے زمانوں میں اسلامی تعلیمات کی
تشکیل نو کرنے اور اجتہاد کرنے کا حق صرف اور صرف پارلیمینٹ کو حاصل ہے
====================================================
As always, excellent article, Wasti sahib.
There is abundant legal opinion consistent with your perspective:
18th Amend can’t be struck down by SC, say lawyers
* Some contend apex court can set aside 18th Amend for being contrary to basic features of constitution
By Masood Rehman
ISLAMABAD: A majority of seasoned and young lawyers believe that the Supreme Court cannot set aside the 18th Amendment passed by parliament, as the constitution protects legislative business of the National Assembly.
However, a few argue that the amendment could be struck down by the SC for being contrary to basic features of the constitution.
At the same time, lawyers are apprehensive that in the wake of the forthcoming hearing on the petitions challenging the 18th Amendment, there could be another confrontation between the government and the judiciary.
Contrary to the time when lawyers stood united for the restoration of sacked judges, the legal fraternity is clearly divided in two groups on this issue.
Aitzaz Ahsan, former president of the Supreme Court Bar Association (SCBA), said the SC had no power to strike down the 18th constitutional amendment.
Another former president of the SCBA Ali Ahmad Kurd also believes that the 18th Amendment cannot be struck down by the SC since the constitution protects parliament’s legislative business.
However, incumbent SCBA President Qazi Muhammad Anwar differs. He has already moved a constitutional petition in the SC on behalf of the SCBA against the amendment and Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry has constituted a five-member bench to hear the petition on April 28.
Senior lawyers believe that the government has no right to make such amendments to the constitution that are contrary to its basic features, including the principle of the independence of the judiciary.
Earlier, the government wanted equal representation of the judiciary and the government in the judicial commission for appointment of judges to the superior courts, however, the PML-N opposed the idea and the representation of the judiciary in the commission was subsequently increased.
Still, a number of lawyers believe that the role of the parliamentary committee in the appointment of judges would be binding on the commission.
The provision makes way for the understanding that the new scheme was to provide an upper hand to the ruling and major political parties to handpick judges for appointments.
Meanwhile, the SC five-member bench will define and determine the exact contours of its authority of reviewing the mechanism introduced by parliament through the 18th Amendment for appointment of superior court judges.
http://dailytimes.com.pk/default.asp?page=2010\04\26\story_26-4-2010_pg7_1
ماشاءاللہ آپ کافی “کڑی نگاہ” رکھنے والے لکھاری ہیں۔ لیکن مضمون کی چند باتوں پر اعتراض ہے مثلاَ یہ کہ سوال “اگر کل کلاں پارلیمینٹ آئین میں ایسی شق تجویز کرے کہ ہمیں اپنے ملک کو ہندوستان میں شامل کر دینا چاہیئے تو کیا سپریم کورٹ خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے گی ؟” کا تسلی بخش جواب موجود نہیں۔ دوسری بات یہ کہ آئین کو چھان کر یہ بھی بتادیں کہ پارلیمنٹ کی مدت کہاں تحریر ہے؟ اور مزید یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندوں کا “ٹرائل” لینے کے طریقہ کار کو حضرت عمر (رض) کی مثال سے کیوں نہیں جوڑا جاتا؟ جب آپ نبی (ص) کے صحابہ کی مثال دیتے ہیں تو یہ بھی ضرور جانتے ہوں کہ قاضی الوقت کو امیرالمومنین کا عدالت میں بلانے کا پورا اختیار تھا نا کہ استثنی کی وجہ سے اسے تادم مرگ چھوٹ حاصل تھی۔
Very well said M.Asad i totally agree with your thoughts
محترمی محمد اس صاحب !
“ تسلی بخش “ ہونا ایک نسبتی امر ہے – کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو بلا استثنا ہر فرد واحد کی تسلی کا باعث ہو –
پارلیمینٹ کا ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ ایک ایسا مفروضہ ہے جسے دلیل دینے کی بجائے درفنطنی کہنا بہتر ہے –
نفسیاتی حوالے سے غور کرنے پر محسوس ہوگا جناب عبدالحفیظ پیرزادہ جنہوں نے یہ درفنطنی چھوڑی تھی ، کے ذہن میں پارلیمینٹ ایک پست ذہن کا حامل ادارہ ہے جس سے ایسے مضحکہ خیز فیصلوں کی امید رکھنا بعید از قیاس نہیں – لیکن تاریخ اس کے برعکس عدلیہ کے ایسے بے شمار فیصلوں کی نشاندہی کرتی ہے جو نہ صرف یہ کہ مضحکہ خیز بھی ہیں بلکہ صریح ظلم کی زد میں بھی آتے ہیں – ان بلند و بالا ذہنوں کے مالکوں نے تو خود اپنے فیصلوں کے برعکس فیصلے کیئے اور پھر ان برعکس فیصلوں کے برعکس فیصلے –
پارلیمینٹ سے ہندوستان میں شمولیت کی فیصلے کی توقع ظاہر کرنے والے ذرخیز دماغ سے اگر دریافت کیا جائے کہ خدائے قادر و توانا اگر اتنا بھاری پتھر بنا دے کہ جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے تو کیا ہو گا ؟
یہ سوال اگر اعتزاز احسن جیسے کسی مہذب اور خوش گفتار شخص سے پوچھا جائے تو شاید وہ اس سے ملتا جلتا جواب دے کہ بھائی ! فلسفہ کی رو سے تمہارا سوال تضاد فی نفسہ کا شکار ہے – پہلے اپنے سوال کے باطن میں موجود تضاد کو دور کرو اور پھر کسی معقول جواب کی توقع رکھو – اور یہی سوال اگر
قاضی انور جیسے انتہا پسند اور رجعت پرست انسان سے پوچھا جائے تو اس کے علاہ کیا جواب دے گا کہ سوال کرنے والا کافر و ملحد ہے یا پاگل ہے – اسے سنگسار کر دیا جائے یا پاگل خانے بھجوا دیا جائے –
تو میرے بھائی ہر شخص کی تسلی کرانا ایک انسان کے دائرہءکار سے باہر ہے – ارشاد باری تعالی ہے کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کہ خدا کا ذکر دلوں کو اطمینان ، سکینت اور تسلی عطا کرتا ہے اور یہی حرف آخر ہے –
ٹرائل اور حضرت عمر اور خلیفہ اور امیرالمئومنین کے تذکرے اس وقت کی ایک آئیڈیل صورت حال کے عکاس ہیں ، بدلے ہوئے زمانوں میں ان اصولوں کی حکمت سے روشنی حاصل کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہونا چاہیئے لیکن ان مقدس آئیڈیل حوالوں کو آج کے زمینی حقائق پر بعینہ چسپاں کرنے کی کوشش
فہم وفراست ، روشن خیالی اور حقیقت پسندی تو مطابقت نہیں رکھتی اسے تو رجعت پرستی ہی کہا جا سکتا ہے –
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی صحابی نے کہا کہ حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم
کے زمانے میں تو اتنا انتشار امت کے اندر نہیں تھا جتنا آپ کے دور میں ہے تو آپ نے فرمایا کہ ان کے مشیر ہم جیسے لوگ تھے اور میرے مشیر تم جیسے لوگ ہیں –
امیرالمئومنین قاضی کے طلب کرنے پر اگر عدالت میں پہنچ جاتے تھے تو یہ بھی یاد رکھئیے کہ وہ قاضی القضاہ سو فیصدی خلیفہ کی اپنی مرضی سے مقرر کیئے جاتے تھے اور خلیفہ جب مناسب سمجھتا انہیں معزول کر کے گھر بھیج دیتا تھا –
@محمداسد
خلفاے راشدین کے معیار صرف آصف علی زرداری کے لیے رہ گے ہیں؟
ان معیارات کو جرنل ضیاالحق، حمید گل ، ملا عمر، نواز شریف ، افتخار چودھری، ملا منور حسن اور عمران خان پر نافذ کرنے کے بارے میں بھی سوچا ہے آپ نے؟
حضرت عمر فاروق رضی الله نے تو بیک جنبش قلم ، سپاہ سالار کو موقوف کر دیا تھا. کیا مملکت خداداد میں اس امر کا تصور بھی ممکن ہے؟
آئ ایس آئ اور حزب التحریر کے پٹھو اپنے پروپگنڈے سے کب باز آئین گے؟
بد دیانت تاجر کی طرح ، آپ کے لینے کے باٹ اور ہیں ، دینے کے اور؟
@Khalid Wasti
خالد صاحب خدا تعالیٰ کی حاکمیت اور اسلامی نظام حکومت کسی بھی طرح وقت اور حالات کے محتاج نہیں۔ رہی آپ کی بات قاضی القضاء کو مقرر کرنے کی تو اس کے لیے ایک حلقہ انتخاب موجود ہوتا تھا جو باہمی مشاورت سے اس طرح کی اقدامات کیا کرتا تھا۔ چلیں اگر آپ کے مفروضہ کو مان بھی لیا جائے تو زرا فرمائیں کہ کیا اس شخص کو بھی مسجد میں حضرت عمر نے مقرر کیا تھا جس نے آپ کے کرتے کی لمبائی پر اعتراض کیا۔ عرض صرف اتنا ہے کہ اگر آپ اسلامی نظام زندگی و حاکمیت اعلیٰ کو زیر بحث لاتے ہیں تو تمام امور پر غور ضروری ہے نا کہ صرف اپنی من پسند چنیدہ باتوں کو دلائل کی صورت میں پیش کردیا جائے۔ دیگر سوالوں کے جواب کا منتظر رہوں گا۔
@Sarah Khan
محترمہ آپ کا رویہ میرے لیے نئی بات نہیں۔ جن کے پاس سوال کے جواب میں دلائل نہیں ہوتے وہ آپ ہی کی طرح سوالات کی بوچھاڑ کرکے فتح کے شادیانے بجانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ باقی سب ان اصولوں سے الگ ہیں یا ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ لیکن وسطی صاحب نے آئین اور اسلامی رو سے چیک اینڈ بیلنس کے سسٹم میں جو ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں درپردہ وہ ریاست کے اہم ترین ستون کو نشانہ بنانے کی ناجائز کوشش کررہے ہیں۔