Q&A about supremacy of parliament or judiciary – by Khalid Wasti

===============================

پارلیمینٹ اور عدلیہ کے حوالے سے سوال و جواب
===============================
اٹھارویں ترمیم –  اٹھارہ پوائنٹس

(1)
———–
سوال : حکمرانی کا حق کس کا ہے ؟
– فوج کا ؟
– بیوروکریسی کا ؟
– سپریم کورٹ کا ؟
– مُلاں کا ؟
– وڈیروں اور جاگیر داروں کا ؟

جواب : ان میں سے کسی کا بھی نہیں –
سوال : تو پھر حق حکمرانی کس کا ہے ؟
جواب : خدا تعالی کا –
( 2 )
———–
سوال : خدا تعالی اپنے اس اختیار کو زمین پر عملا
استعمال کیسے کرتا ہے ؟
– فوج کے ذریعے ؟
– بیوروکریسی کے ذریعے؟
– سپریم کورٹ کے ذریعے؟
– مُلاں کے ذریعے ؟
– جاگیر داروں کے ذریعے ؟
جواب : ان میں سے کسی کے ذریعے بھی نہیں –

(3)
———-

سوال : تو پھر خدا  تعالی کے حق حکمرانی استعمال کرنے کا طریقہ ء کار کیا ہے یعنی وہ کس ذریعے سے اسے  استعمال کرتا ہے ؟
جواب : دنیا کی تخلیق سے لے کر نبیءپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک انبیاء علیہم السلام
کے ذریعے اور آپ کی رحلت کے بعد آپ پر ایمان لانے والی اپنی مخلوق کے ذریعے  سے –

(4)
———-
سوال : کسی بھی ملک کا نظام چلانے کے لیئے ایک آئین کی ضرورت ہوتی ہے –
اس آئین کے بنانے کا اختیار کس کے پاس پے ؟ فوج ، سپریم کورٹ یا کسی اور ادارے کے پاس ؟

جواب : عوام  اپنا یہ اختیار اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں اور یہ نمائیندے اپنے ملک کا آئین بناتے ہیں اور اس آئین کے تحت کسی ملک کا نظام چلتا ہے –

(5)
———–
سوال : خدا کی زمین پر خدا کے بندے اپنے چُنے ہوئے نمائیندوں کو کس ادارے میں بھیجتے ہیں؟ فوج میں ، سپریم کورٹ میں یا سول سیکریٹیریئٹ میں ؟

جواب : ان میں سے کسی ادارے میں بھی نہیں بلکہ پارلیمینٹ میں –  چنانچہ پالیمیٹیریئنز کو ہی کسی قوم ، ملک یا عوام کا نمائیندہ کہا جا سکتا ہے نہ کسی جرنیل کو نہ کسی جج کو – کوئی جرنیل کوئی جج کوئی مولوی عوام کی  نمائیندگی کرنے کا دعویدار نہیں ہو سکتا –
(6)
————
سوال : حق حکمرانی کے حوالے سے تو پھر ترتیب اس طرح بنتی ہے : خدا ، مخلوق خدا ، مخلوق خدا کے چنے ہوئے نمائیندے اور پارلیمینٹ

جواب : بالکل درست – خلاصہ یہ کہ اوپر خدا اور نیچے خدا کا حق حکمرانی رکھنے والا ادارہ یعنی پارلیمینٹ

(7)
————-
سوال : کسی ریاست کا بالا دست ادارہ پارلیمینٹ ہے تو ملک کے باقی اداروں کا کیا رول ہوتا ہے ؟

جواب : فوج کا رول ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ، پولیس کا فرض ملک میں امن وامان قائم رکھنا ‘
بیوروکریسی کا کام حکومتی پالیسیوں کا نفاذ ، سٹیٹ بینک کا کام مالیاتی اداروں کی نگرانی اور عدالتوں کا کام جرم و سزا کے فیصلے ملکی قانون کے مطابق کرنا – اعلی عدالتوں کا کام ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ، بوقت ضرورت قانونی اغراض کے لیئے  آئین کے کسی حصے کی تشریح کر نا –
(8)
———–
سوال : فوج ، پولیس ، عدلیہ اور دیگر تمام اداروں کو یہ سارے اختیارات کون دیتا ہے ؟

جواب : ان تمام اداروں کے اختیارات پارلیمینٹ کے دئیے ہوئے ہیں اور ان کا اندراج جن کاغذوں پر ہوتا ہے ان کے مجموعے کوآئین کہتے ہیں اور اسے کسی ملک کی مقدس دستاویز کہا جاتا ہے –

(9)
—————
سوال : پالیمینٹ مختلف اداروں کو جو اختیارات آئین میں اندراج کرکے دیتی ہے کیا بعد ازاں ان میں
کمی بیشی کر  سکتی ہے ؟

جواب : بدلے ہوئے حالات اور حقائق کی روشنی میں ان کے اندر کمی بیشی ہو سکتی یے ، ضرورت ہو تو پارلیمینٹ آئین کے اندر ترامیم بھی کر سکتی ہے –

(10)
————
سوال : اعلی عدالتوں کے نظر ثانی کے حق سے کچھ اس قسم کا تائثر ابھرتا ہے کہ گویا سپریم کورٹ کو پارلیمینٹ پر کسی نوعیت کی برتری حاصل ہے – کیا یہ تائثر درست ہے ؟

جواب : خدا تعالی کی طرف سے عوام ، عوام کی طرف سے منتخب نمائیندوں ، منتخب نمائیندوں کی وساطت سے پارلیمینٹ کو کسی ریاست پر حکمرانی کا اختیار ہے – اس کے بعد شک و شبہ کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ پارلیمینٹ ریاست کے تمام اداروں بشمول سپریم کورٹ کے بالا دست ادارہ ہے – پارلیمینٹ اپنی اجتماعی سوچ کی روشنی میں ریاست کو کامیابی سے چلانے کے لیئے قواعد و ضوابط اور اداروں کی تشکیل کرتی ہے – اداروں کی ضرورت اسی لیئے پیش آتی ہے کہ پارلیمینٹ نے از خود تو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرنی ہوتی ، سکول کالج نہیں کھولنے ہوتے ، ملزموں کو گرفتار اور رہا نہیں کرنا ہوتا ، گھروں میں پانی بجلی کے کنکشن نہیں لگانے ہوتے صرف اپنی پالیسی اوراصول وضع کرنے ہوتے ہیں – انہی اداروں میں عدلیہ بھی ایک ادارہ ہے جس کے فرائض میں جرم و سزا سے لیکر اعلی ترین سطح پر بوقت ضرورت آئین کی تشریح اور قوانین کا جائزہ لینا بھی شامل ہے –
کیا پارلیمینٹ نے ان اداروں کو اپنی سہولت اور اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لیئے بنایا تھا
یا اپنی اجتماعی سوچ ، پالیسی اور فلاسفی میں مشکلات پیدا کرنے کے لیئے ؟

سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی تخلیق ہے ، پارلیمینٹ سپریم کورٹ کی تخلیق نہیں ہے – سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی وسعت اور حدود پر اثر انداز نہیں ہو سکتی لیکن پالیمینٹ سپریم کورٹ کے قدوقامت کو یقینا مختصر یا طویل کر سکتی ہے – یعنی پارلیمینٹ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ سے بارہ یا بائیس کر سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ اراکین اسمبلی یا سینٹ کی تعداد کو کم وبیش نہیں کر سکتی – اس تائثر میں کوئی حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ کسی بھی حوالے سے ایک بالا تر ادارہ ہے بلکہ امر واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ یہ کہ پارلیمینٹ ہی کسی ملک کا بالا دست ترین ادارہ ہے –
(11)
———-
سوال : یہ بات تو بالکل منطقی ہے کہ اختیار دینے والے کی مرضی اور منشا کے مطابق اس کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ الٹا اس کے لیئے دشواری پیدا کی جائے  تو وہ اس اختیار کو واپس لے سکتا ہے یا اس میں تخفیف کر سکتا ہے – لیکن اس منطق کے خلاف آئینی امور کےایک ماہر نے دلیل دی ہے کہ ایک ماں اپنے بچے کو جنم تو دے سکتی ہے لیکن اسے قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ؟

جواب : چلیئے ، شکر ہے کہ آئینی امور کے اس ماہر نے پارلیمینٹ کو ماں تو تسلیم کر لیا – یہ بات سو فیصدی درست ہے کہ ماں اپنے بچے کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتی لیکن بچے کو راہ راست پر چلا نا ،
نیک رنگ میں اس کی تربیت کرنا اور آوارہ ہو جانے سے بچانا ایک ماں کا صرف حق ہی نہیں ، اس کی
ذمہ داری بھی ہے – جو ماں ایسا نہیں کرتی وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوتی ہے –
دوسری طرف خدا وند قدوس نے بچے کو وارننگ بھی دے دی کہ دیکھو ماں کے قدموں کو چھوڑو گے تو میری جنت سے محروم ہو جاؤ گے –

(12)
————-
سوال : آئینی امور پر دسترس کی شہرت رکھنے والے ایک معروف ماہر قانون نے کہا ہے کہ اگر کل کلاں
پارلیمینٹ آئین میں ایسی شق تجویز کرے کہ ہمیں اپنے ملک کو ہندوستان میں شامل کر دینا چاہیئے تو کیا سپریم کورٹ خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے گی ؟

جواب : کل کلاں اگر سپریم کورٹ کا سترہ ججوں پر مشتمل فل کورٹ بینچ ایک سو وو موٹو نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کرے کہ تریسٹھ سال میں اس ملک کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے بڑھتے غربت ، جہالت ،
بے روزگاری، اقتصادی بدحالی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اس ملک کو چلانے کے اہل نہیں لہذا ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس ملک کو ہندوستان میں شامل کر دیا جائے – تو کیا اس صورت میں پاکستان کی پارلیمینٹ اور عوام خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے ؟

(13)
————-
سوال : سپریم کورٹ کے “جوڈیشل ریویو “ کا مفہوم کیا ہے ؟

جواب : پارلیمینٹ نے جوڈیشری کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس کی قانون سازی کا جائزہ لے سکتی ہیں اور اگر کوئی قانون آئین کے کسی آرٹیکل کی روح کے عین مطابق نہ ہو تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہیں –
جہاں تک آئین سازی کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ کا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے- آئین “سازی” میں صرف آئین تیار کرنا ہی نہیں ہے بلکہ حسب ِ ضرورت اس کے اندر ترامیم کرنا بھی شامل ہے – اس لیئے اگر سپریم کورٹ کو آئینی ترامیم کا جائزہ لے کر ان کے ردوقبول کا اختیار دے دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین سازی کے عمل میں شریک کیا جا رہا ہے –
آئین کا آرٹیکل ٢٣٩ پارلیمینٹ کو آئین میں ترامیم کے لا محدود اختیارات دیتا ہے اور کسی بھی عدالت کو کسی بھی گراؤنڈ پر ان ترامیم کا جائزہ لینے اور درست یا غلط قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا – مطلب واضح ہے کہ سپریم کورٹ کو “جوڈیشل ریویو ” کا اختیار ہے لیکن ” کانسٹیٹیوشنل ریویو ” کا اختیار ہر گز ہر گز نہیں ہے –
(14)
————-
سوال : فرض کیجیئے کہ سپریم کورٹ پارلیمینٹ کی کسی ترمیم کو آئین کی کسی شق کے خلاف قرار دیتی ہے
لیکن پارلیمینٹ اسے آئین کے عین مطابق سمجھتی ہے تو اس صورت میں کس کی رائے حتمی ہو گی اور کیوں

جواب : سپریم کورٹ ایسا کرنے کی مجاز نہیں ، یہ اس کے دائرہ ء اختیار سے باہر ہے کہ وہ کسی ترمیم پر رد وکد کا اظہار کرے –  اگر وہ  ایسا کرتی ہے تو یہ  اقدام خلاف آئین  ہوگا ،  بالکل  اسی  طرح  جب  ایک  جرنیل ” عزیز ہم وطنو” کہتے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے –

پارلیمینٹ کی رائے بہر حال حتمی اور آخری ہو گی – کئی دلائل پہلے بھی بیان ہو چکے ہیں – ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آئین کی خالق پارلیمینٹ ہے ، عدلیہ نہیں – آئین سازی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں نہیں ، پارلیمینٹ میں ہوتی ہے ، ہر ایک آرٹیکل کے ایک ایک نقطے پر عوامی نمائیدے جو بحث کرتے ہیں عدلیہ اس سے آگاہ نہیں ہوتی اس لیئے آئین سازی کرنے والے عوامی نمائیندے ہر ایک آرٹیکل کے پس منظر میں موجود فلاسفی ، حکمت اور ضرورت کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے ہیں –
مثال کے طور پر پارلیمینٹ ججوں کی تقرری کا طریقہ ء کار وضع کرتے ہوئے ایک قانون بناتی ہے لیکن سپریم کورٹ اس قانون کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیتی ہے – لیکن قوم کے نمائیندے یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی زد نہیں پڑتی اور سپریم کورٹ اپنی رائے بناتے ہوئے غلطی کی مرتکب ہوئی ہے تو پھر اس طریقہ ء کار پر عمل کرانے کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ پارلیمینٹ کی دو تہائی اکثریت اس طریقہ ء کار کو ایک ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دے – جب پارلیمینٹ کی دو تہائی تعداد ایک رائے بنا لیتی ہے تو یہ وہ حد ہے جسے چھونے پر سپریم کورٹ کے پر جلتے ہیں اور اس آئینی ترمیم میں کسی کمی بیشی کی سوچ اس کی پرواز سے بہت اوپر کا معاملہ ہے اور یہ معاملہ ہے حق حکمرانی کا ، جو نہ سپریم کورٹ کا ہے ، نہ فوج کا ہے بلکہ عوام کا ہے جسے وہ اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے ایسرسائز کرتے ہیں –
(15)
——————
سوال : آئینی ترمیم کے سلسلہ میں پارلیمینٹ کی بالا دستی کے حق میں کوئی عام فہم سی دلیل ؟

جواب : آئینی امور میں پارلیمینٹ کی رائے حتمی نہیں ہونی تو پھر آئین اور اس کی ترمیمات سپریم کورٹ سے کیوں نہیں لکھوا لی جاتیں ؟

(16)
——————
سوال : پارلیمینٹ کی کوئی ترمیم جب آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو تو پھر اسے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے ؟

جواب : ” آئین کا بنیادی ڈھانچہ ” آسمان سے اترا ہوا کوئی فارمولا نہیں ہے – آئینی امور کا کوئی ماہر دکھائے کہ آئین میں کس جگہ بیان ہوا ہے کہ یہ  ”  آئین کا بنیادی ڈھانچہ ” ہے –  دراصل یہ ایک ڈھکوسلہ ہے ان دوسرے ڈھکوسلوں کی طرح جنہیں ملک کے اٹھانوے فیصد عوام کی گردنوں پر سوار دو فیصد طبقہ   ” دین و ایمان کے ٹھیکیداروں “کی   ملی بھگت سے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیئے تیار کیا کیونکہ یہ دو فیصد”  قبضہ گروپ  ” ون میں ون ووٹ کی صورت میں کبھی اقتدار میں نہیں آسکتا –  اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے ایسے ہی ڈھکوسلوں اور چور دروازوں کی ضرورت رہتی ہے –

آئین کے بنیادی ڈھانچے یا بیسک سٹرکچر کے فریب اور دھوکے کے پیچھے ایک خوفناک منصوبہ ہے – منصوبہ یہ ہے کہ بظاہر ایک بے ضرر نظر آنے والی بات کو آئین کے نام نہاد بنیادی ڈھانچےمیں شامل کر دیا جائے اور وہ بے ضرر چیز ہے ” اسلامی تعلیمات” – ایک دفعہ اسلامی تعلیمات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کر دیا جائے ، بس پھر ، نام رہے اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔ دین مُلاں فی سبیل اللہ فساد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلیاں سنجیاں ہو جاون وچ رانجھا یار پھرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! اللہ اکبر – مُلاؤں کے جس گروہ کے پاس بم ، گرنیڈ ، کاشنکوفیں ، راکٹ لانچر ، جیکٹیں اور خود کش بمبار زیادہ ہوں گے اسی گروہ کی تعبیرات اور تشریحات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار پائیں گی – وہ گروہ جماعت اسلامی کا ہو ، سوات والے صوفی محمد یا مولوی فضل اللہ کا ہو ، حمید گل کا ہو، لشکر طیبہ کا ہو ، تحریک طالبان پاکستان کا ہو ، یا کسی اور کا –

(17)
—————-

سوال : دوسرے ڈھکوسلوں سے کیا مراد ہے ؟

جواب : ایسی گول مول اور مبہم باتیں آئین میں وقتا فوقتا شامل کرواتے رہنا جن کا کوئی معین مفہوم اور
دو ٹوک مطلب نہ ہو – جنہیں حسب ضرورت ربڑ کی طرح کھینچ کر ادھر ادھر فٹ کر دیا جائے – مثلا
قرار داد مقاصد ، نظریہءپاکستان ، اسلامی تعلیمات کے مطابق،نفاذ شریعت ، صادق اور امین یہ وہ ڈھکوسسلے ہیں جنہیں اپنے اپنے وقت کے بد نیت لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیئے آئین کا حصہ بنایا –

(18)
—————
سوال : بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پارلیمینٹس دو قسم کی ہوتی ہیں – قانون ساز اسمبلی اور آئین ساز اسمبلی –
یہ اسمبلی چونکہ قانون ساز ہے –  اس لیئے یہ صرف قانون سازی کر سکتی ہے آئین میں ترمیم صرف آئین ساز اسمبلی کر سکتی ہے ؟

جواب : یہ بھی ایک ڈھکوسلہ ہے – آئین میں کسی جگہ آئین ساز اور قانون ساز اسمبلیوں کا ذکر نہیں ہے –
سادہ سی بات ہے جب کسی ملک کا آئین بنانا ہو تو الیکشن کے بعد معرض وجود میں آنے والی اسمبلی
آئین ساز اسمبلی ہوگی اور آئین بن جانے کے بعد انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی
قانون ساز اسمبلی کہلائے گی – اور یہی قانون ساز اسمبلی قانون بھی بنائے گی اور بوقت ضرورت اس میں
ترامیم بھی کرے گی – اور یہ اختیار اس اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی نے آئین بناتے ہوئے اسی آئین میں دے دیا تھا کہ بعد میں آنے والی اسمبلیاں اپنی سادہ اکثریت سے قانون سازی کر سکتے ہیں اور دو تہائی کی اکثریت سے ہمارے بنائے ہوئے آئین میں ترمیم بھی کر سکتی ہیں –

توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب آئین میں قانون ساز اسمبلی اور آئین ساز اسمبلی کی علیحدہ علیحدہ شناخت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں تو پھر اس جھوٹے پراپیگنڈہ کے پیچھے کون سی مکروہ خواہش کارفرما ہے ؟
در اصل پارلیمینٹ کے دو رول ہیں – قانون سازی اور آئین سازی – ایک ہی اسمبلی ہوتی ہے جو یہ دونوں امور سر انجام دیتی ہے – فرق یہ ہے کہ پارلیمینٹ نے سپریم کورٹ کو قانون سازی پر نظر ثانک کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن آئین سازی کے معاملات میں آرٹیکل ٢٣٨ اور ٢٣٩ کے تحت سپریم کورٹ کو ذرا فاصلے پر رکھا ہے اور اس عمل کو چھونے کی اجازت نہیں دی – اس لیئے ” قبضہ گروپ” اور اس کے گماشتوں کا حربہ یہ ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں رول اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو گڈمڈ کر کے ایک ایسی فضا بنادی جائے کہ جب سپریم کورٹ کے آئینی ترامیم سے دور رہنے کا آئینی حوالہ دیا جائے تو اس آئینی حقیقت کو اس شور کے اندر دبا دیا جائے کہ یہ تو آئین ساز اسمبلی ہے ہی نہیں ، ترمیم کیسے کر سکتی ہے –
بالفرض “آئین ساز اسمبلی“ نے یہ حق نہ بھی دیا ہوتا تو عوام کو سپریم ہونے کے ناطے ہر وقت یہ حق حاصل ہے کہ حالات و حقائق کی روشنی میں جب چاہیں بہتری کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں – یاد رکھیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی اجتماعی رائے کبھی غلط نہیں ہو سکتی اور مصور پاکستان علامہ اقبال اس امر کے علمبردار تھے کہ بدلے ہوئے زمانوں میں اسلامی تعلیمات کی
تشکیل نو کرنے اور اجتہاد کرنے کا حق صرف اور صرف پارلیمینٹ کو حاصل ہے
====================================================

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. محمداسد
    -
  3. fatima.ahtesham
    -
  4. Khalid Wasti
    -
  5. Sarah Khan
    -
  6. محمداسد
    -
  7. محمداسد
    -