Violation of minorities’ fundamental rights and freedoms
مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں کی پامالی
عالمی انسانی حقوق کے تقاضوں اور قوانین کا لب و لباب یہی ہے کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں لہٰذا تمام انسان احترام اور حقوق میں مساوی حیثیت کے حامل ہیںٴ بین الاقوامی معاہدات اور قراردادوں میں اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کو تمام تر بنیادی حقوق اور آزادیاں ریاست کی بجائے فطرت سے حاصل ہوتی ہیں۔ جدید قومی ریاست کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ تمام افراد کو شہری تسلیم کرتے ہوئے ان کو تمام بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔ تمام انسان بلا امتیاز رنگ و نسلٴ عقیدہ و مذہبٴ صنف اور زبانٴ کسی سماجی و سیاسی نظریے سے وابستگی اور لسانی و گروہی تعلقٴ قانون کے سامنے سب برابر ہیںٴ اور بغیر کسی تعصب کے ان کو قانونی آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔ ریاست پاکستان نے بھی بنیادی انسانی شہریٴ سیاسیٴ ثقافتیٴ معاشی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالہ سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ سمیت دیگر اہم معاہدات اور قراردادوں پر دستخط کئے ہوئے ہیںٴ لہٰذا وہ ان پر عملدرآمد اور موثر نفاذ کی پابند بھی ہے۔
کسی بھی ریاست میں نمائندہ جمہوری حکومت اور آئینی سیاست شہریوں بشمول مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کے تحفظ اور فروغ کی سب سے اہم ضامن ہوتی ہیں ستم ظریفی یہ رہی کہ پاکستان کی سر زمین طویل عرصہ تک بے آئین رہیٴ جبکہ طویل فوجی ادوار میں آئین معطل یا مسخ شدہ رہا۔ مزید برآں فوجی آمروں نے اپنی ضروریاتٴ خواہشات اور اقتدار کی طوالت کی غرض سے جو ترامیم کی تھیںٴ اس سے قومی مقدس دستاویز کی نمائندہ حیثیت مشکوک رہیٴ آئین کی معطلی اور پامالی کے ساتھ ساتھ جمہوری عمل میں عدم تسلسل رہاٴ جس کی وجہ سے بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کی مسلسل تحقیر ہوئیٴ بظاہر پاکستان کا آئین بہت حد تک مذہبی اقلیتوں کی مساوی شہریت اور آئینی تحفظات دینے کی ضمانت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دوسرے درجے کا شہری اور سیاسی حوالہ سے مذہبی اکثریت سے کم حیثیت دینے کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے حوالہ سے ہمارا ٹریک ریکارڈ کئی افریقائی ممالک سے بھی زیادہ خراب ہے۔
بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کرنے کے بعد ہم پابند ہیں کہ ایک سیکولر لبرل ریاست تخلیق کریںٴ اور ریاست کسی ایک مذہب کو سرکاری سرپرستی میں لیتے ہوئے دیگر مذاہب سے سوتیلہ پن کا اظہار نہ کرے مگر پاکستان میں 12 مارچ 1949 ئ کو قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہوگیاٴ اس کے بعد بنیادی آئینی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق یہ لازم قرار دے دیا گیا کہ پاکستان میں صرف ایک مسلمان ہی سربراہ مملکت بن سکتا ہے آج یہ سوال جدید ریاستوں میں بہت اہم ہے کہ ریاست مختلف مذاہب کے درمیانٴ غیر جانبداری کا اظہار کرے گیٴ یا پھر وہ ایک مذہب کو سرکاری سرپرستی میں لیتے ہوئے دوسرے مذاہب سے لاتعلق رہتے ہوئے سوتیلے پن کا اظہار کرے گی۔ جن چند مذہبی ریاستوں میں یہ سوال ہےٴ وہاں مستقل مذہبی تضاداتٴ سیاسی تصادم اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
جن ریاستوں نے اس سوال کو حل کرلیا ہےٴ اور انہوں نے مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دیتے ہوئے مذہبی حوالہ سے غیر جانبداری اختیار کی ہےٴ وہ ریاستیں آج خوشحالٴ ترقی یافتہ اور وہاں بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کو احترام حاصل ہے۔ پاکستان میں مذہبی جانبداری کے نتیجہ میں مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کی تحقیر ہوئی ہے۔ قرارداد مقاصد سے لے کر جداگانہ انتخابات اور اعلیٰ حکومتی انتظامی عہدوں پر قدغن تک غیر مسلم نمائندوں نے اس مذہبی جانبداری پر ہمیشہ تنقید کی ہے۔ جنرل ضیائ الحق کے عہد میں بنائے گئے امتیازی قوانین اور سماجی سطح پر پھیلائی گئی مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی آگ نے غیر مسلموں کو پاکستان میں قانونی اعتبار سے غیر محفوظ بنائے رکھا۔ اس بات کا اعتراف تو ان کے فرزند اعجاز الحق بھی کرتے ہیں کہ پاکستان میں امتیازی قوانین کا استعمال غلط طور پر ہوا ہے ان امتیازی قوانین کا نتیجہ انسانی حقوق کی پامالیٴ مذہبی اقلیتوں کی بے چارگی اور ظلمت کی صورت میں نکلا ہے ان قوانین کی موجودگی میں مذہبی انتہا پسندوں نے قانون کو ہاتھ میں لے کر مذہبی اقلیتوں کو ہراساںٴ تشدد کا نشانہٴ ان کی املاک کو تباہ و بربادٴ ان کی مقدس علامات اور کتابوں کی تذلیل اور کئی بے گناہ افراد کو قتل کیا ہے۔ غیر مسلموں پر الزام کی صورت میں تمام علاقہٴ برادری اور رشتہ دار مذہبی انتہا پسندوں کے گھیرے اور حصار میں آجاتے ہیںٴ اور تشددٴ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور ہماری عدالتیںٴ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔
خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کے استحصال کی بنائ پر پاکستان کا بیرونی امیج ہمیشہ خراب رہی ہے۔ اس وقت ملک میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغوائ کے بعد ان کے جبراً مذہب کی تبدیلی کے بعد نکاح کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ان واقعات سے ہندو اور کرسچن کمیونٹی میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اس ضمن میں رنکل کماری کے حالیہ کیس نے دنیا بھر میں اس حساس مسئلہ کو اجاگر کیا ہے۔ سندھ میں موجود متعدد ہندو نمائندہ تنظیموں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کئی نوجوان لڑکیوں کو گھروں سے اغوائ کرلیا جاتا ہےٴ اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرکے ان سے شادیاں کرلی جاتی ہیں۔ جس کے بعد ثبوت کے لئے ایک نکاح نامہ پیش کردیا جاتا ہے جس سے اغوائ کنندگان کی پوزیشن مضبوط ہوجاتی ہے۔ مگر اس سے یہ تعین نہیں ہوتا کہ یہ نکاح کسی دبائو کے تحت کیا گیا ہےٴ یا رضامندی سے؟ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات غیر مسلم خواتین کے حوالہ سے ہی پیش آتے ہیں اور کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہے جہاں کسی غیر مسلم لڑکے کو اغوائ کرکے جبراً مذہب تبدیل کرکے اس کی شادی کسی مسلم عورت سے کردی گئی ہو۔ ایک ہندو رہنما ڈاکٹر اشوک کے مطابق جنوری سے لے کر اب تک 47 لڑکیاں اغوائ ہوچکی ہیںٴ اسی طرح ایک مسیحی تنظیم کے نمائندے پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ جبراً مذہب کی تبدیلی کے واقعات محض سندھ اور ہندوئوں تک محدود نہیں ہیں گزشتہ 5 سالوں کے دوران مسیحی برادری کے 400 سے 500 افراد کا مذہب تبدیل کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی ہمیشہ اس اہم اور حساس معاملہ کو اپنی رپورٹ میں اٹھایا ہے حالیہ رپورٹ کے مطابق ہندو لڑکیاں جن کی عمر 15 سال سے کم ہوتی ہے۔ ان کو اغوائ کے بعد جبراً مذہب تبدیل کرکے ان کی شادی کردی جاتی ہے سندھی اخبارات کے مطابق گزشتہ 10 سالوں کے دوران 3000 ہندو لڑکیوں کو اغوائ کرکے ان کے مذہب تبدیل کردیئے گئے ہیں انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے خلاف جب سندھ پروگریسو کمیٹی نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کیا تو سنی تحریک کی جانب سے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے۔ مزید برآں بلوچستان میں اغوائ برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے ہندو برادری ہجرت کرکے بھارت جارہی ہے گزشتہ برس سندھ کے ایک ہندو ایم پی اے مستعفیٰ ہوکر بھارت چلے گئے تھے اسی طرح مسیحی کمیونٹی بھی امریکہٴ کینیڈا اور یورپ میں سیاسی پناہ تلاش کررہی ہے یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ہم مذہبی انتہا پسندی میں پاکستان کا کثیر الثقافتی، کثیر المذہبی، متنوع اور رواداری پر مبنی خوبصورت چہرہ کھوتے جارہے ہیں۔
Source: Daily Mashriq
کبھی کویتا تو کبھی رنکل کماری
’روتی ہوئی ڈاکٹر لتا اور چیختی ہوئی رنکل کماری کی کہانی کون شائع کرے گا اور پاکستان کی عزت داؤ پر لگانے والوں سے کون پوچھے گا؟
یہ الفاظ ہیں سماجی کارکن اور کالم نگار ماروی سرمد کے جنہوں نے اسلام آباد پریس کلب میں ہندو لڑکیوں کی جبراً شادیوں کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں جیکب آباد کی رہائشی ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار اور میر پور ماتھیلو کی رہائشی رنکل کماری کے چچا راج کمار بھی شریک تھے۔
متعلقہ عنوانات
پاکستان
یاد رہے کہ دونوں ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کی شادی کر دی گئی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ ہندو کمیونٹی کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی میاں مٹھو لڑکیوں کے اغوا کے معاملے میں ملوث ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار حفیظ چاچڑ کے مطابق ماروی سرمد نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں لڑکیوں سے زبردستی بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے جن کو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا اور جب دونوں لڑکیوں کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کے سامنے پیش کیا گیا تو ڈاکٹر لتا روتے روتے بے ہوش ہو گئیں اور رنکل کماری نے چیختے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ سٹوری کا یہ پہلو کون کور کرے گا، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی عزت کو جن لوگوں نے داؤ پر لگایا ان سے کون پوچھے گا اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا، ان کا گریبان کو پکڑے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں حکم دیا تھا کہ دوبارہ بیان دینے سے پہلے دونوں لڑکیوں کو آزاد ماحول میں رکھا جائے اور ان کو تین ہفتے کےلیے کراچی کے ایک شیلٹر ہوم میں بھیج دیا گیا اور عدالت یہ سمجھ گئی ہے کہ دونوں لڑکیوں سے زبردستی بیانات لیےگئے تھے۔
رنکل کماری کے وکیل امر لعل نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ان معاملوں میں ایجنسی، فوج یا کوئی سرکاری ادارہ ملوث ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جن کا یہ کاروبار ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘کبھی انیتا کو بیچتے ہیں، کبھی جیکب آباد سے کویتا کو اٹھا کر بزورِ شمشیر مسلمان کرتے ہیں، کبھی جیکب آباد سے سپنا کو اٹھاتے ہیں تو کبھی پنو عاقل سے پنکی کو لے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام واقعات کی تحقیقات کےلیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور سندھ میں گزشتہ چھ ماہ سے ان واقعات میں تیزی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی میاں مٹھو کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ ان کے خلاف مختلف تھانوں میں ایک سو سترہ مقدمات درج ہیں جبکہ ان کے دو بیٹوں کے خلاف بھی تیرہ مقدمات درج ہیں اور ان کے خلاف تمام مقدمات مسلمانوں نے ہی درج کروائے ہیں۔
ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار نے بتایا کہ یہ تمام معاملات حوس پرستی کی عکاسی کرتے ہیں اور صرف نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے مسلمان بناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر ان لوگوں کو اسلام کا اتنا شوق ہے تو وہ بوڑھی عورتوں اور مردوں کو اغوا کرکے مسلمان کیوں نہیں بناتے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/04/120417_hindu_girls_marriage_ra.shtml
ہندو والدین سپریم کورٹ سے بھی ناراض
پاکستان کے صوبہ سندھ کی تین ہندو لڑکیوں کے والدین نے الزام لگایا ہے کہ سپریم کورٹ میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا گیا اور سماعت کے بعد انہیں ان کی بیٹیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا اور ان کی جبراً شادی کے معاملے میں پاکستان ہندو کونسل کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
بدھ کو ضلع گھوٹکی کی رہائشی رنکل کماری، جیکب آباد کی رہائشی ڈاکٹر لتا اور آشا کماری کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
اس موقع پر جب ایک خاتون پولیس اہلکار رنکل کماری کا ہاتھ پکڑ کر انہیں عدالت میں پیش کر رہی تھیں تو چیف جسٹس نے خاتون پولیس اہلکار سے کہا کہ ان کا ہاتھ کیوں پکڑا ہے، یہ کوئی ملزم تھوڑی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تینوں لڑکیاں اب آزاد ہیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی ہیں اس لیے پولیس انہیں مکمل تحفظ فراہم کرے۔
لڑکیوں کے والدین نے کمرۂ عدالت میں اپنی بیٹیوں سے ملنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی۔
اس کے بعد عدالت نے تینوں لڑکیوں کو رجسٹرار کے پاس اپنا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا۔
نامہ نگار حفیظ چاچڑ کے مطابق جیکب آباد کے ڈی ایس پی غلام احمد اعوان نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ تینوں لڑکیوں نے اپنے بیان میں اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔
لڑکیوں کی مائیں اپنی بیٹیوں سے ملنے کے لیے بے تاب تھیں اور وہ عدالت کے اندر اور باہر روتی رہیں۔
رنکل کماری کی والدہ سلچھنی نے بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستان میں آخر ہندوں کے ساتھ اتنا ظلم و ستم کیوں ہو رہا ہے؟۔
’ہندؤں کے ساتھ اتنا ظلم کیوں؟ ہماری نوجوان لڑکیوں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں کو اپنی اولاد پیاری ہے تو ہم ہندؤں کو بھی پیاری ہے۔ اگر آپ ہندؤں کو اس ملک سے نکالنا چاہتے ہیں تو سیدھے طریقے سے کہیں، ہماری لڑکیوں کو اغوا کیوں کرتے ہیں؟‘
لڑکیوں کے والدین نے عدالتی فیصلے پر مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ وہ بڑی امید لے کر سپریم کورٹ پہنچے تھے لیکن یہاں بھی ان کو انصاف نہیں ملا اور انہیں ان کی بیٹیوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔
آشا کماری کے والد موہن نے بتایا کہ عدالت میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ہمیں ایک منٹ کےلیے بھی ہماری بیٹی سے ملنے نہیں دیا جبکہ جن لوگوں نے ہماری بیٹی کو اغواء کیا اور زبردستی مسلمان کیا ان سے ملنے دیا گیا۔
ہندو کمیونٹی نے عدالتی فیصلے پر مایوسی ظاہر کی اور لڑکیوں کے والدین کے ہمراہ کچھ اقلیتی رہنماؤں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور شاہراہ دستور پر دھرنا دیا۔
ہندو کمیونٹی اور لڑکیوں کے والدین نے الزام لگایا کہ گھوٹکی سے حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میاں مٹھو نے ان کی لڑکیوں کو اغواء کروایا اور انہیں زبردستی مسلمان بنا کر ان کی شادیاں کروا دیں تاہم میاں مٹھو نے بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/04/120418_hindu_girls_marriages_rwa.shtml