سلیم شہزاد کی ہلاکت – ایک بار پھر ایک لمحہ فکریہ – by Naveed Ali

صحافت ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک بھاری  ذمہ داری ہے، یہ ریاست کا چوتھا ستون شمار ہوتی ہے، صحافت ریاست اور اس کے اداروں اور افراد کے احتساب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ساتھ ہی ساتھ شہریوں کو آگاہ رکھنے کی ذمّہ داری بھی صحافت ہی کی ہے. اس شعبے سے وابستہ خواتین و حضرات کویہ  ذمّہ داری نبھانی ہوتی ہے اور فرض کی راہ میں قربانیاں بھی دینی پڑ جاتی ہیں. دنیا میں جہاں کہیں بھی غیر جمہوری حکومتیں ہیں یا متشدد تحریکیں چل رہی ہیں یا جرائم پیشہ عناصر کا غلبہ ہے وہاں صحافت پر کڑی  نظر رکھی جاتی ہے، پابندیاں اور سینسر شپ لگائی جاتی ہے اور صحافی حضرات کے لئے انتہائی خطرات ہیں اور آے دن صحافی تشدد کا نشانہ بنتے رہتے ہیں. کسی بھی ایسے معاشرے میں جہاں عوام کو غافل رکھنا مقتدر حلقوں کے مفاد میں ہو وہاں ایسی کوئی بھی کوشش جو کسی طرح تصویر کی دوسرا رخ دکھا سکے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے.

پاکستان میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے، پے درپے غیر جمہوری اور آمری حکومتوں میں صحافت ہمیشہ ایک نا پسندیدہ عنصر رہی ہے اور کڑی پابندیوں سے گزری ہے، اور صحافی ایسے میں ہمیشہ ایک ایسا عنصر رہے ہیں جس کو یا تو خریدنے کی کوشش کی گئی  ہے یا خاموش رکھنے کی، پاکستانی صحافت کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے. یہ بھی فطری عمل ہے کہ ایسے میں تمام انتہا پسند اور غیر جمہوری عناصر صحافت اور صحافیوں کی طرف حقارت کا رویہ رکھتے ہوں. جہاں  زرد صحافت موجود رہی ہے وہیں مخلص، مستقل مزاج اور اعلی پائے کی صحافت نے آمریت اور انتہا پسندی کو مستقل آئنہ دکھایا ہے.  صحافیوں کی گرفتاری، اغوا، ان پر تشدد ، اور انتہائی حالات میں ان کی ہلاکت ایسے واقعات سے ہماری تاریخ بھری ہے، ایسے نا مساعد حالات میں فرائض کی انجام دہی ہمارے صحافیوں کا سرمایہ افتخار ہے. ایک انگریزی اخبار کے مطابق سن دو ہزار سے اب تک قریباً ستر صحافی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، اور تشدد میں زخمی ہونے والے اور مختلف طریقوں سے استبداد کا نشانہ بننے والوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے.

سلیم شہزاد بھی ایسے صحافیوں میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کام جاری رکھا، عوام کو تصویر کا ایک اور رخ پیش کرتے رہے اور اسی کوشش میں استبدادی قوّتوں کا نشانہ بن گئے.  ان کو یہ اعزاز بھی حاصل رہے گا وہ ایک باقائدہ آن لائن جریدے سے وابستہ رہے. انہوں نے اپنے لئے میدان ایسا چنا تھا جو کانٹوں سے بھرا تھا; پاکستان اور افغانستان میں  دہشت گردی، انتہا پسندی اور اس دوران میں سرگرم مختلف قوّتوں پر رپورٹنگ ایک مشکل کام ہے اور خطرات سے پر. انھیں ایک دفعہ پہلے بھی اغوا کیا گیا تھا اور چند دن قید میں رہنے کے بعد رہا کئے گئے تھے. وہ با اعتماد اور کھل کر کسی کی پرواہ کئے بغیر لکھنے والے تھے، ان کے انداز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اسی طرح ان کی رپورٹس کی صحت پر بھی بات کی جا سکتی ہے کیونکہ شکوک و شبہات اس انداز کی صحافت کا حصّہ ہوتے ہیں، مگر اس سے کوئی انکار نہیں کرے گا کہ وہ ملک کی  ان چند آوازوں میں سے تھے جنہوں نے مقتدرہ کی کوئی پرواہ نہیں کی. اس کے علاوہ اختلاف کا مطلب نفرت ہرگز نہیں ہونا چاہیے،  کوئی مانے نہ مانے مگر ان کی المناک ہلاکت کے ساتھ ہی ملکی صحافت کا ایک اہم باب بند ہوا ہے کیونکہ ایک کہنہ مشق صحافی کو اس سطح تک آنے میں زمانے لگتے ہیں اور کڑی منزلوں سے گزرنا ہوتا ہے.
اتنا آسان نہیں لہو رونا ، دل میں طاقت جگر میں  حال کہاں

یہ تمام محب وطن پاکستانیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر یہی روش جاری رہی، ہر بلند آواز کو ختم کر دیا گیا  اور خوف ذہنوں میں طاری کر دیا گیا تو پھر کوئی نہیں بچے گا جو سچ کی ترویج کر سکے اور ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھا سکے یا تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی ہمّت کر سکے.  یہ سول سوسایٹی کے لئے بھی ایک تنبیه ہے اور منتشر سیاسی قوتوں کے لیے بھی ایک پیغام، وقت ہے کہ ایک منظّم سیاسی تحریک کو جنم دیا جائے جو فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر بنیادی مسائل کو سامنے رکھ کر جمہوریت کی ترویج اور معاشی استحکام کو مقصد بنا سکے نہ کہ آڑے ٹیڑھے  فضول نعروں میں عوام کی توانائی ضایع کرے . یاد رکھیے فرد کو خاموش کرنا آسان ہے افراد کو نہیں اور قوم کو تو بالکل نہیں. سلیم شہزاد جیسے لوگ جو خاموشی سے تاریک راہوں پر مارے جاتے ہیں ہمیں یہی پیغام دئے جاتے ہیں.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Asjad
    -