Faiz aur un ki nazm “Kuttay”
جب ہم نے پہلی بار فیض احمد فیض کی نظم ‘کتے’ پڑھی تو بڑا برا لگا، نہ صرف یہ کہ یہ نظم کچھ غیر ادبی بلکہ بڑی حد تک بے ادبی لگی ، کہاں وہ غازی اور پر اسرار بندے کہ جن پر اسی بحر میں ایک معرکه الآرا نظم لکھی گئی اور کہاں کتے، بڑی جسارت کی فیض صاحب نے، کہاں خدائی اور کہاں گدائی، کہاں وہ حضرات کہ پہاڑ سمٹ کر ان کی ہیبت سے رائی اور کہاں یہ غلیظ مکروہ جانور، اس کا ذکر وہ بھی نظم میں، صاحب زمانے کے زوال اور قرب قیامت کی اور کیا نشانی ہوگی. سو فیض کی طرف سے کچھ بدگمانی سی ہو گئی. بہرحال وقت گزرتا گیا اور پھر ایسا وقت آیا کہ کتابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا تک کا سفر طے ہوا، وہ جن کی طرف فیض نے اشارہ کیا تھا نہ صرف ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ خودان کی سی زندگی گزارنی پڑی ، اب فیض صاحب سمجھ آنے لگے اور رومان اور اسرار کا بھوت اترنے لگا، خودی اور خدائی یکجا ہو گئے.
جب سے اب تک کتے ہم کو بڑے عزیز رہے ہیں. بڑا لوگوں نے سمجھایا کہ میاں دنیا بدل گی، کئی کتے انسان بن گئے جو نہ بن سکے ان کی قسمت یہی تھی، بھولو آگے بڑھو، مگر ایسا ہو نہ سکا. ہمارا تو ذکر ہی کیا، ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں، بڑے بڑے لوگ کتوں کو عزیز رکھتے رہے ہیں،صرف فیض نہیں اچھے اچھوں نے ان پر لکھا ہے، مثال کے طور پر ابن انشا کو لیجئے ، کیا بات کی کہ پتہ نہیں چلتا کب بھونکتے کتے بھونکنا بند کر کے کاٹنا شروع کر دیں، اسی لئے تو دنیا دار اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کتوں کو نہ بھونکنے دیں نہ کاٹنے، فوجداری قوانین بنائے جاتے ہیں تو کبھی مارشل لا لگائےجاتے ہیں ، اب تو کتوں کو قابو کرنا باقائدہ عالمی سیاست کا حصّہ ہے اوراس مقصد کے لئے جدید ترین طریقے استعمال کئے جاتے ہیں، کتوں کی اجتمائی نفسیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان کو اجتمائی مغالطوں میں مبتلا رکھا جاتا ہے، کتوں میں گروہی منافرت اور نسلی اور نظریاتی اختلافات کو فروغ دیا جاتا ہے، تاکہ کتے ایک دوسرے پر بھونکتے راہیں، ایک دوسرے کو کاٹتے بھنبھوڑتے رہیں اور اعلی و ارفع انسان ان سے محفوظ رہیں.
پھر بھی کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ کتے جوش سے ہوش میں آ جاتے ہیں اور ایک ہو کر اپنے آقاؤں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں، شمالی افریقہ میں حال ہی میں ایسا ہی کچھ ہوا. بہر حال کتوں کی نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے واقعات پر قابو پانا چنداں مشکل نہیں، کتوں میں بھی کچھ دو کچھ لو سے کام چل جاتا ہے
گئے زمانے کا ذکر ہے، روس اور افغانستان کی سرحد پر دو کتوں کی ادھر ادھر جاتے ہوئے ملاقات ہو گئی، علیک سلک حال احوال کے بعد یہ ذکر نکلا کہ نقل مکانی کیوں کی جا رہی ہے، افغانستان سے جانے والے نے کہا کہ بھائی کیا بتاؤں وطن کسے عزیز نہیں ہوتا مگر اب ادھر بڑا برا حال ہے، کھانے کو کچھ نہیں، فاقے کر کر کے حالت پتلی ہو گئی ہے، اس لئے یہ ٹھانی ہے کہ دیار غیر کا رخ کروں ، تم بتاؤ تم کو کیا تکلیف ہے کہ اپنا ملک چھوڑے چلے آتے ہو؟ روسی نے جواب دیا، بھائی کیا بتاؤں اس طرف کھانے کو تو بہت ہے مگر بھونکنے نہیں دیا جاتا. کتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ صرف بھرے پیٹ ان کا گزارہ نہیں ہوتا بلکہ بھونکنے کا سامان بھی ہونا چاہیے، نفیس اور با تہذیب لوگوں کو یہ بات بلکل اچھی نہیں لگتی، کچھ نازک مزاج تو اتنے تنگ ہیں کہ جمہوریت سے ہی متنفر ہو گئے ہیں.
حقیقت یہی ہے کہ کتوں کی پرورش اور دیکھ بھال انتہائی مشکل کام ہے، اسی لئے اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں خصوصاً محافظین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اعلی اجرتیں اور بہتر سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں، ان کا بلند میعار زندگی یقینی بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ یکسوئی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں .اس شعبے میں اتنی ترّقی ہو گئی ہے اور بعض جگہوں پر کتوں پر اتنا قابو پا لیا گیا ہے کہ اب ان کے دیکھ بھال کرنے والوں کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا، کتے آپس میں ہی لڑمر کر رلتے رہتے ہیں اور ان کا انتظام کرنے والے چین کی بنسی بجاتے ہیں، پھر بھی محافظوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کتے کتے ہوتے ہیں، اگر پاگل ہو جایئں تو آگا پیچھا کچھ نہیں دیکھتے، ایسا ہو تولینے کے دینے پڑ جاتے ہیں
دنیا میں آئے دن کتوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے، ان کی بے بسی اور بے کسی اور ان کے بھونکنے اور کاٹنے ان سب وجوہات کی بنا پر ان کو نظر انداز کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہے. ایسے میں فیض پر رشک آتا ہے کہ کتنے دور اندیش تھے کہ ایسے موضوع پر لکھ گۓ ، بڑے بڑوں کا آج کل کوئی پرسان حال نہیں، پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، اور اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی، مگر کتوں کا کچھ نہیں بگڑا، کچھ بنتا تو بگڑتا نا، ابھی تک ان کی سوئی دم نہیں مروڑی گئی , تو جب تک یہ حال ہے کتوں کو توّجہ حاصل رہے گی، اور فیض کی نظم بھی زندہ رہے گی
This poem is one of most thrilling poems ever written by any poet.It is a wake up call for the poor to rise for a revolution and fight for their rights.I love this poem from the bottom of my heart and always take guideline from this poem.Faiz is greatest.
Yeh galiyoN kaY Aawarah be-kaar kuttay
kaY bakhsha gaya jin ko zoq-e gadaai
zamaanay ki phiTkaar sarmaaya unn ka
jahaN bhar ki dhutkaar unn ki kamaai
na Aaraam shab ko, na raahat saweray
ghalaazat maiN ghar, naaliyon maiN baseray
jo bigRaiN tau ik doosray saY laRa dau
zara aik roTi ka tukRa dikha dau
yeh har aik ki thokaraiN khaanay waalay
yeh faaqoN say ukta kay mar jaanay waalay
yeh mazloom makhlooq gar sar uThaaye
tau insaan sab sarkashi bhool jaaye
yeh chahaiN tau duniya ko apna bana laiN
yeh AaaqaoN kee haddiyaaN tak chaba laiN
koi in ko Ehsaas-e zillat dila day
koi in ki soi hui dum hilaa day
واہ واہ نوید سائیں بھت اعلی
اقبال بے چارے کو تو اس کے شاہینوں نے کہیں کانہ چھوڑا اب جعلی سول سوسائٹی کے ستاروں نے فیض کو تباہ کرنے کے لئے کمر کس لی ہے. آپ کا یہ مضمون فیض صاحب کا وہ رخ دکھانے کی کوشش ہے. جو شاید ٹیسٹ ٹیوب انقلادبیوں کے سوٹ نھیں کرتی.
Well written Naveed. You should write more, you express beautifully.