Who is behind restoring the MMA in the guise of the blasphemy law movement? – by Irfan Siddiqi


Related articles:

A plan well executed

Salman Taseer: Another victim of the deep state, its ideological and political faces

The LUBP was the first blog which identified and confronted the efforts by you-know-who to reunite moderate mullahs including Barelvis, Shias and moderate Deobandis and Wahhabis with the Taliban and the Sipah-e-Sahaba in the guise of the blasphemy law movement.

Now a right-wing columnist, Irfan Siddiqi, a loyalist of Nawaz Sharif’s PML-N is pointing toward the same possibility.

اللہ کرے یہ بدگمانی ہی ہو

نقش خیال…عرفان صدیقی

اللہ کرے یہ بدگمانی غلط ہو جس کا اظہار صف اول کے بعض کالم نگار اور نہایت ہی معتبر تجزیہ کار کررہے ہیں اور جو چھوٹے سے برساتی کینچوے کی طرح میری سوچوں میں بھی رینگ رہی ہے۔

کیا علمائے کرام، ناموس رسالت کے نام پر اٹھائی گئی تحریک کو ایم۔ایم۔اے کی بحالی یا اسی نوع کے کسی سیاسی انتخابی اتحاد کے سانچے میں ڈھالنے جارہے ہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمٰن نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے حکومت سے ترک تعلق کا ایک سوچا سمجھا فیصلہ کیا اور یہ محض اعظم سواتی کی بے دخلی کا معاملہ نہ تھا؟ کیا جماعت اسلامی کے زبردست تحرک کا بھید بھی یہی ہے؟ کیا بڑی بڑی پرچم بردار ریلیوں اور آراستہ پیراستہ اسٹیجوں سے آتش مزاج تقاریر سیاسی مفادات سے آلودہ ہیں؟ کیا حب رسالتمآب کے نام پر اپنے خواب اور اپنی تعبیریں تراشی جارہی ہیں؟ کیا عوام کے قلب و نظر کے سب سے گراں قیمت اثاثے اور انتہائی حساس معاملے کو اپنے سیاست کدے کی رونق بنایا جارہا ہے؟

یہ اور ان سے ملتے جلتے کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ میں بدظنی اور بدگمانی سے شعوری طور پر احتراز کرتا ہوں۔ٹھوس اور واضح ثبوت یا شواہد کے بغیر کسی پر الزام لگانا کار گناہ ہے۔ نیتوں کا حال اللہ تعالٰی جانتا ہے۔ علمائے کرام سے زیادہ کون اس حقیقت سے آگاہ ہوگا کہ ناموس رسالت کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک کے بطن سے کسی سیاسی انتخابی اتحاد کو کشید کرنا اور اس نعرے کو دنیوی اقتدار کے لئے ووٹوں کے لئے استعمال کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا دین کے تقاضوں کا شعور رکھنے، حب رسول کے تمام مشکبو زادیوں سے مکمل آگاہی رکھنے، صحابہ کرام کی سیرت و کردار کے تمام پہلوؤں سے باخبر ہونے اور شان رسالت کی تمام نزاکتوں کا ادراک رکھنے والے علمائے کرام حرمت رسول کے نعرے لگاتے، تحفظ ناموس رسالت کے پھریرے لہراتے اور خلق خدا کے دلوں میں فروزاں حب رسول کو اپنی عباؤں اور قباؤں کی ہوا دیتے ایک انتخابی تماشا لگائیں گے؟ کم از کم میرا دل یہ نہیں مانتا اور اگر اگلے چند دنوں میں اس تاثر کو شائبہ بھر تقویت بھی ملتی ہے تو مجھے ہی نہیں، ہر اس شخص کو شدید صدمہ ہوگا جو علماء کے بارے میں ذرا سا بھی حسن ظن رکھتا ہے اور جو نبی کریم کے نام نامی کی رفعتوں کو سیاست کے کوچہ و بازار سے بہت ماوریٰ خیال کرتا ہے۔

معاشرے کے ہر طبقے کی طرح علمائے کرام کو بھی سیاست میں آنے، اپنا منشور عوام کے سامنے لانے اور مسند اقتدار تک رسائی کے لئے قسمت آزمائی کا حق حاصل ہے۔ یہ قسمت آزمائی وہ تواتر سے رتے چلے آئے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دہکتے مہکتے دنوں میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ ایک طرف تھی اور بیشتر جید علماء کا وزن ان کے پلڑے میں نہ تھا۔ تحریک آزادی، کسی طور علمائے کرام کی تحریک نہ تھی۔ کچھ نامور علماء اپنی انفرادی حیثیت میں قائد اعظم کا دست و بازو ضرور تھے۔ انہوں نے انگریزی سامراج کے خلاف پرعزم جدوجہد بھی کی اور قربانیاں بھی دیں۔ لیکن علماء تحریک آزادی کا ہراول دستہ تھے، نہ اس تحریک کا بانکپن نہ اس کا تفاخر۔ یہ قائد اعظم کا جادو تھا جو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔

یہ عجیب بات ہے کہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے بالعموم علماء کی سیاسی قیادت کو پذیرائی نہیں بخشی۔ وہ رات رات بھر ان کی تقریریں سنتے، سر دھنتے، نعرے لگاتے، آنسو بہاتے اور صدقے واری جاتے ہیں لیکن ووٹ والے دن کنی کترا کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا یہ رجحان آج بھی پوری طرح موجود ہے بلکہ کسی قدر قوی ہوگیا ہے۔ 2002ء میں پرویز مشرف نے وفاق اور چاروں صوبوں کے لئے الگ الگ سیاسی زائچے بنائے۔ امریکی کروسیڈ کی کامیابی کے لئے ضروری تھا کہ علمائے کرام کو سڑکوں کے ہیجان اور طوفان سے دور رکھنے کے لئے اقتدار میں حصہ دار بنالیا جائے۔ ایم۔ایم۔اے اسی تصور کی تخلیق تھی۔ ہم جیسوں نے اس سے بڑی امیدیں باندھی تھیں، اس کی کامیابی کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا تھا، غریب و سادہ سے لوگوں کی حکمرانی کو ایک نئے سیاسی کلچر کی نمو سے تعبیر کیا تھا۔ یہ بھید تو بہت بعد میں کھلا کہ اصل کھیل کیا تھا اور مشرف کی زیر ہدایت، ایجنسیوں نے سیف ہاؤسز میں کیا نقشہ کار تیار کیا تھا۔ پورے پانچ سال اس وقت کا صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ کروسیڈ کا میدان کارزار بنا رہا لیکن ایم۔ایم۔اے کی حکومت کہیں مزاحم نہ ہوئی، کبھی حدوں سے تجاوز نہ کیا اور کبھی امریکہ کی اطاعت گزار مشرف حکومت کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کیا۔ یہاں تک کہ رسوائے زمانہ سترہویں ترمیم بھی وارثان منبر و محراب اور صاحبان جبہ و دستار کے لئے تلخ گھونٹ نہ بنی۔ اور اس نے 12/اکتوبر 1999ء کے غدارانہ اقدام کو بھی آئین کا جامہ تقدس پہنا دیا۔

دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ خیبر پختون خوا پر علمائے کرام کی بلاشرکت غیرے حکمرانی، وہاں کے عوام کے لئے کوئی نیا، اچھوتا اور ثمر آور تجربہ ثابت نہ ہوئی۔ یہ ویسی ہی حکمرانی تھی جیسی دینی تعلیمات و اسناد سے بے بہرہ دنیاداروں کی ہوتی ہے۔ بھرپور تحقیق کے باوجود مجھے کوئی ایسی کلغی نظر نہیں آئی جسے ایم۔ایم۔اے کا امتیاز کہا جاسکے۔ کرپشن کی داستانیں بھی چلتی رہیں۔ ووٹ بھی بکتے اور خریدے جاتے رہے۔ اقربا پروری بھی عروج پر رہی۔ اسلام پہاڑوں سے اتر کر بستیوں تک آہی نہ سکا۔ جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے درمیان اسی نوع کی رنجشیں اور دوریاں رہیں جو آج آپ کو پی۔پی۔پی اور ایم۔کیو۔ایم کے درمیان نظر آرہی ہیں۔ اٹک کے اس طرف کی دنیا اور اٹک کے اس پار کے جہان میں کوئی بال برابر فرق نہ تھا جس کی بنیاد پر پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اور سرحد میں علمائے کرام و مفتیان عظام کی حکومت کو ایک دوسرے سے مختلف کہا جاسکتا۔

وہ الیکشن ایم۔ایم۔اے نے ”کتاب“ کے نام پہ لڑا تھا۔ اس کے مقررین غریب و نیم خواندہ عوام کے سامنے ”کتاب“ لہراتے اور کہتے کہ ”یہ اللہ کی کتاب ہے“۔ انہوں نے قرآن مجید کے علامتی استعارے کے طور پر ”کتاب“ کو اپنا انتخابی نشان چنا۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان کا دستور اور انتخابی ضابطے اس طرح کے ذومعنی انتخابی نشان کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن تب مشرف کے خیمہ عافیت میں آجانے والوں کے لئے سب کچھ روا تھا۔ پانچ سال تک علماء کی حکمرانی کا ناقابل رشک باب رقم کرنے کے بعد ایم۔ایم۔اے کا شیرازہ بکھر گیا۔ 2008ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا راستہ چنا۔ مولانا فضل الرحمٰن وہیں آگئے جہاں وہ ہمیشہ آیا کرتے تھے۔ ممکن ہے ان کے دل و دماغ میں بہار کے انہی روٹھے ہوئے دنوں کی یاد انگڑائی لے رہی ہو۔ 2002ء میں سرحد اور بلوچستان تو ان کے پاؤں تلے تھے ہی، قومی اسمبلی میں بھی ایم۔ایم۔اے اتنے ارکان لے آئی تھی کہ مولانا وزارت عظمٰی کا ہنڈولا جھولنے لگے تھے۔ گئے دنوں کو آواز دینے اور سہانے موسموں کی بساط بچھانے کے لئے ضروری ہے کہ پھر سے ایک ایم۔ایم۔اے وجود میں لائی جائے۔ لیکن کیا جماعت اسلامی اس پر تیار ہوجائے گی؟ کیا باقی دینی جماعتیں آمادہ ہوجائیں گی؟ کیا علماء کا عرصہ حکمرانی دیکھ لینے والے عوام پھر سے پرانے نعروں پر ایمان لے آئیں گے؟

گزشتہ روز اسلام آباد کلب میں بیٹھے جب ایک کہنہ مشق صحافی نے کہا کہ ”یہ سب کچھ ایک نئی ایم۔ایم۔اے کا کھیل ہے 2002ء میں انہوں نے کتاب کا نشان مانگا تھا، اب گنبد خضریٰ کا نشان مانگیں گے۔ وہ اللہ کے نام پر تھا، یہ رسول کے نام پر ہوگا…“ تو میں لرز کر رہ گیا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ علمائے کرام کے بارے میں ایسا خیال پرلے درجے کی بدظنی، پرلے درجے کی بدگمانی ہے۔ علمائے کرام کو اولین فرصت میں پوری قوت کے ساتھ اس تاثر کا ازالہ کردینا چاہئے۔

Source: Jang 20 Jan 2011

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zalaan
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Rizwan
    -
  4. Zalaan
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. Zalaan
    -
  8. Ahmed Iqbalabadi
    -
  9. Raza
    -
  10. Rabia Shah
    -