Mullahs, NGOs and Civil Society – by Qais Anwar

پاکستانی غیر سرکاری تنظیموں کی پہلی فکری زولیدگی یہ ہے کہ وہ جامعہ مدنی (سول سوسائٹی ) کی نمائندہ ہیں .ماضی میں پاکستان کی سول سوسائٹی کی ساری جنگیں مزدور تنظیموں نے لڑی ہیں جن کو جناب ذولفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے زمانے میں تباہ کر دیا گیا ، رہی سہی مزدور تحریک کو غیر فعال کرکے مغربی سرمایہ داری نظام کے مالی امداد کے نظام کے ساتھ منسلک کرنے میں غیر سرکاری تنظیموں کا بڑا حصّہ ہے

غیر سرکاری تنظیموں کا ایک اور فکری مغالطہ یہ ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کا متبادل ہیں . دوسرے عوامل کے ساتھ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی کے سیاسی کارکن غیر سرکاری اداروں اور سرمایہ دار ملکوں کے امدادی اداروں سے حاصل شدہ امداد اور مشاہرہ جات سے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے بعد اب اپنے پرانے سیاسی خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں ” ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا” کسی نہ کسی طرح عمر اصغر خان کی طرح براہ راست وزارت مل جائے غیر سرکاری ادارے اپنی حدود کی بنا پر نظام میں موجود “سپیس” کو وسیع کرتے ہیں وہ کبھی بھی نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لا سکتے یہ کام انقلابی تحریکوں کا ہوتا ہے جن کے کارکن مشاہروں کے لیے نہیں اپنے نظریات کے لیے کام کرتے ہیں

چونکہ غیر سرکاری تنظیمیں سرمایہ دار ملکوں کی حکومتوں یا دوسرے گروہوں کی امداد سے کام کرتی ہیں اس لیے انہوں نے مقامی مسائل کو مغرب کی زبان کے ساتھ ہم ترازو کرنا ہوتا ہے ، اس عمل میں اکثر وہ مسائل کی گہرائی کو نظر انداز کر دیتے ہیں . پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اس کی ایک مثال ہیں .

پنجاب میں اقلیتوں کا مسلہء اصل میں ذات پات کا اور معاشی مسلہ ہے . شمال سے آنے والے سفید اور زرد لوگوں نے جن مقامی لوگوں کو شہروں میں صفائی کی خدمات اور دیہات میں کھیت مزدوری کے لیے زندہ رکھا وہ عرصہ دراز تک بالمیکی پنتھ کے پیروکار رہے وہ برہمن راج ، مسلمان سلطنت یا بادشاہت اور اور خالصہ راج میں اپنی قسمت نہ بدل سکے .عیسائی مشنریوں نے انھیں تعلیم ، ما لی امداد اور جنوبی پنجاب میں خودمختار کاشتکار بننے کے موا قع دیئے جس سے ان کی اکثریت عیسائی ہو گئی .جب تک پنجابی معاشرے کو اس “ناقابل لمس ” گروہ کی ضرورت رہی ان کو ان کے مذہب کی بنیاد پر کبھی براہ راست تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا .

پچھلی دو دہائیوں میں شہری گھروں میں جدید ٹائلٹ اور دیہات میں فصل بونے اور کاٹنے کے جدید آلات کے تعارف کے بعد اس گروہ کی نہ صرف معاشی ضرورت کم ہو گئی بلکہ بھٹہ مزدورری اور کھیت مزدوری میں ان کا مقامی لوگوں کے ساتھ معاشی مقابلہ شروع ہو گیا .ان حالا ت میں مقامی لوگوں کے لیے شدت پسند مولوی کی بات کے ساتھ اتفاق کرنا زیادہ آسان ہو گیا . تاہم غیر سرکاری تنظیمیں اس مسلے کو تاریخی اور طبقاتی تناظر میں دیکھنے کی بجائے مذہب کے عدسے سے دیکھتی ہیں اس لیے مالی امداد کے لیے یہ آسان طریقہ ہے

مولوی اور آزاد فکر لبرل کے جھگڑے کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے . مولوی حکمران طبقات کو چغے پہنے ہوئے بادشاہوں کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے اور آزاد فکر لبرل ایک کامیاب ” کارپوریٹ ایگزیکٹو ” کی صورت میں. ان دونوں میں سے کوئی بھی مذہبی رواداری کی بنیاد وادی سندھ کی صدیوں پرانی روح پر نہیں رکھنا چاہتا . بریلوی مولوی میں اتنی طاقت اور بصیرت نہیں کہ وہ اس جدید تحریک کی بنیاد کو ختم کر سکے جس کے بانی بابا فرید الدین شکر گنج ہیں اور جس کو سید وارث شاہ ، بلھے شاہ ، خواجہ فرید ، شاہ حسین اور سینکڑوں صوفیوں ، سنتوں اور بھگتوں نے پروان چڑھا یا لیکن ضرورت کسی ساحر کی ہے جو دمادم مست قلندر کا نعرہ لگا کر عام آدمی کو بتا سکے کہ مولوی کے اندر صوفی نہیں ” سلفیوں ” کا پیسہ بولتا ہے تاہم آزاد فکر لبرل سے یہ کام نہیں ہو سکتا کہ اس کے منہ سے نکلنے والے نغموں کی دھنیں “کثیر الاقوامی کارپوریشنز ” بناتی ہیں

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. amjad
    -
  3. Mussalman
    -