پشاور اے پی ایس سانحے کی برسی اور پاکستانی قوم کی ذمہ داریاں
سولہ دسمبر کو پشاور اے پی ایس سانحے کو چار سال ہو جائینگے ۔ تین سال گزر گئے ، چوتھا سال بھی یونہی گزر جائیگا ۔ سوچنے بیٹھیں تو ہم نے ان چار سالوں میں کوئی سبق نہ سیکھا ، کچھ حاصل نہ ہوا ۔ معصوم اور نہتے بچوں کو جان سے مارنے والے مزید خونخوار ہو گئے ۔ مسلح کالعدم خارجی تنظیمیں مزید طاقتور ہو گئیں بلکہ مرکزی دھارے کی سیاست کے کناروں پر آ کھڑی ہوئیں ۔ اے پی ایس میں معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کے قتل عام کی مرکزی ذمہ دار تحریک طالبان، اسکی سہولت کار اور ہم مسلک جماعت سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی عرف اہلسنت و الجماعت، اسکے اتحادی مولوی عبدالعزیز ، مولوی لدھیانوی ، رمضان مینگل ، فاروقی ، انکے دفتر لال مسجد، جامعہ فاروقیہ، بنوری مسجد اپنی جڑیں مزید مضبوط کر چکے ۔
ہماری بھی کچھ ذمہ داری ہے!
ہم میں سے اکثر بلکہ بیشتر نے ان خارجی جنونیوں کو کسی احتجاج کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے دیا ۔ ہم میں سے اکثر 16 دسمبر کو چپ چاپ آنسو بہاتے ہیں مگر ان خارجی تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف احتجاج نہیں کیا ۔ ان سالوں میں یہ تکفیری خارجی قاتل ، اپنے مخالفین کو مارتے گئے ۔ اپنے ناقدین کو ڈراتے رہے اور ہم ڈرتے گئے ۔ انہوں نے سبین محمود، ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور خرم ذکی جیسے محب وطن افراد کو شہید کر دیا ۔اپنے سے مختلف فرقوں کیخلاف بت پرست، قبر پرست، مشرک اور کافر کافر کے نعرے لگاتے رہے ۔ ہمارے سپاہیوں کو ذبح کرتے رہے انکے سروں سے کھیلتے رہے ۔ جنہیں تا حال مار نہ سکے ان کی کردار کشی کرتے رہے ، گالم گلوچ کرتے رہے ۔ اور ہم ۔۔
ہم جواب نہ دے سکے ، ہم اپنی عوامی قوت کو جمع نہ کر سکے ۔ ملک دشمن خوارج دندناتے رہے ، ہم نے انہیں دندنانے دیا ۔ وہ نعرے لگاتے رہے ، ہم نے نعرے لگانے دیا ۔ وہ مارتے گئے ، ہم نے مارنے دیا ۔ ہم نے اے پی ایس کے بعد بھی احساس نہ کیا کہ ہم پاکستان کے سنی، شیعہ اور صوفی مسلمان اور غیر مسلم برادریاں، کس داعشی، طالبانی، جھنگوی، خارجی خطرے کے دھانے پر کھڑے ہیں ۔ ہم نے آج بھی ، اب بھی ، چار سال گزر جانے کے بعد بھی ، اپنی بحیثیت قوم اپنی توانائیاں جمع نہ کیں ۔ آواز بلند نہیں کی ۔ گیتا ہری ہرن نے اپنے ناول in times of siege میں کسی جرمن پادری پر ایک نظم لکھی ہے ۔ اسی خیال پر ہمارے حالات کی عکاسی یوں ہے :
“انہوں نے سکول کے بچوں کو قتل کیا اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ وہ میرے بچے نہیں تھے ۔
انہوں نے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کیخلاف کاروائیاں کیں اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں فوجی یا پولیس اہلکار نہیں ہوں ۔
انہوں نے غیر مسلم اقلیتوں کو نیست و نابود کر دیا اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں غیر مسلم اقلیت نہیں ہوں ۔
انہوں نے مسلم فرقوں کو مشرک اور کافر کہہ کر انکی نسل کشی کی اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں وہ مسلم فرقہ نہیں ہوں ۔
انہوں نے دوسرےمذاہب کی عبادت گاہوں پر حملے کئے اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ وہ میری عبادت گاہ نہیں تھی ۔
انہوں نے وکیلوں ، صحافیوں ، ججوں پر بم پھینکے اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں وکیل صحافی جج نہیں ہوں ۔
آج وہ مجھے مارنا چاہتے ہیں ۔ اور کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ، کیونکہ کوئی بچا ہی نہیں ہے” ۔
میں خود کوئی سورما نہیں نہ کوئی لکھاری ہوں نہ کوئی محقق و ادیب ، ہاں اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش کرنے کو دلیلیں ضرور ہیں ۔ میں نے آواز اٹھائی ۔ جب خارجی، تشدد پسند گروہ نے کسی بیگناہ پاکستانی کی جان لی ، میں نے بلا تفریق فرقہ