اورکزئی بم دھماکہ اور ضمیر اختر کا مذاق بنانا تحریر – ریاض ملک

چند ماہ پہلے سوشل میڈیا پہ ایک ذاکر مجلس ضمیر اختر کی تقریروں سے کچھ منتخب حصوں کے وڈیو کلپ بہت وائرل ہوئے۔ضمیر اختر کی تقاریر جو قریب قریب 100 گھنٹوں پہ مشتمل بنتی ہیں سے ان میں سے 4 سے 5 منٹ پہ مشتمل چار سے پانچ کلپ جن میں معجزات اور تصوف کی باطنی دنیا سے جڑے مافوق العقل واقعات جن میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں بھی گفتگو شامل تھی اس نے کچھ لوگوں کو کافی بے چین کردیا۔ ان کی طبعیت کافی خراب ہوئی۔


ان کچھ لوگوں میں سپاہ صحابہ والے تکفیری عقلیت پسندوں کے ساتھ ساتھ کمرشل لبرل( عقلیت پسند)، (دیوبندی) ملحد، امریکہ سامراج کی محبت میں گھلنے والے شیعہ۔۔۔انکل ٹام شیعہ اور ان کے ساتھ کچھ رہبری شیعہ( جن کے نزدیک ایران کے آیت اللہ ز کا ہر فرمان قرآن و حدیث ہے) شامل تھے۔


ان سب لوگوں نے اس سے پہلے ملکر شیعہ کے ہاں جو زنجیر زنی جیسی رسوم پائی جاتی ہیں جو ان کے عشق و محبت و وارفتگی سے تعلق رکھتی ہیں کا بھی ملکر مذاق اڑایا تھا۔


ان چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی کا پاکستان ضمیر اختر جیسوں کی بے ضرر دلچسپ باتوں سے ذرا بے چین یا تکلیف میں نہیں آیا۔ ان کو ضمیر اختر کے اس سریت پسندانہ طرز خطابت سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوا۔ باقی کا سارا پاکستان اپنے اپنے انداز میں اور اپنے ثقافتی طریقوں کے ساتھ محرم منانے میں مصروف رہا۔


اس دوران سپاہ صحابہ جیسے تکفیری عقلیت پسند، کمرشل لبرل عقلیت پسند، دیوبندی ملحد وغیرہ وغیرہ مختلف مسالک و فرقوں کے کروڑوں لوگوں کو محرم منانے کے طریقوں پہ نفرت اور مذاق کا نشانہ بناتے رہے۔

آج 50 کے قریب پاکستانی پشتون بشمول شیعہ، سنی، ہندءو اورکزئی کے شیعہ اکثریتی علاقے میں لگے جمعہ بازار نزد شیعہ مسجد میں ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے۔ اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔


زنجیر زنی سے جو زخم خود پہ لگائے جاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ تباہ کن اور موت لانے والے زخم تو خود نہیں لگائے گئے تھے۔یہ بم دھماکہ اتنا خوفناک تھا جس نے پچاس معصوم جانیں لے لیں۔


لیکن جیسے ماضی میں ہوئے ایسے دھماکوں کے وقت ہوا اس مرتبہ بھی وہ جن کو دوسروں کا اپنے آپ کو زنجیر مارنا برداشت نہیں ہوتا گونگے بن گئے اور پھر بدیانت ثابت ہوگئے۔


جب گزشتہ سال پارہ چنار میں ہوئے خود کش بم دھماکے میں 100 شیعہ پشتون شہید ہوئے تھے تو پاکستان کے نامور انسانی حقوق کے نام لیواءوں کو محض ایک گونگا بہرا ٹوئٹ کرنے میں ایک ہفتہ لگ گیا تھا۔یہی المیہ عید کے دوران اورکزئی ایجنسی میں ہوئے دھماکے کے وقت بھی ہوا تھا۔


اسی ٹائم فریم کے دوران مذکورہ انسانی حقوق کے اشراف علم برداروں نے نواز شریف کی معصومیت کے حق میں درجنوں ٹوئٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ نواز شریف آپ بھی لندن میں چھٹیاں منانے میں مصروف تھا اور اس دوران اسے ایک بار بھی پارا چنار میں ہوئے خودکش بم دھماکے کی مذمت اور مرنے والوں سے ہمدردی کرنے کے لیے ایک ٹوئٹ تک کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔شاید اس لیے نہیں ہوئی کہ دھماکے کرنے والوں کو سپانسر اسی سعودی عرب سے کیا جارہا تھا جو نواز شریف کا بھی مربی و آقا رہا ہے۔


اگلی مرتبہ کوئی ٹوئٹ کرکے تمہارے عقیدے اور رسوم کو بے کار اور فرسودہ کہنے کی کوشش کرے تو اس کو ان کے دوہرے اخلاقی معیار اور ان کی دانشورانہ بددیانتی ضرور یاد کرادی جائے۔ وہ اتنے کند ذھن ہیں کہ وہ اپنے اوپر تکلیف مسلط کرکے کسی سے ہمدردی ظاہر کرنے اور تکفیری دہشت گردی جیسے بزدلانہ اقدام کے ذریعے کسی سے جینے کا حق چھین لینے میں فرق ہی نہ جانیں۔
آپ ان منافق اور اخلاق سے عاری ٹوئٹر کھاتے داروں کے لیے کوئی منطقی جواز تلاش نہیں کرسکتے جو زنجیر زنی کے عمل کو تو ناقابل برداشت کہتے ہوں مگر معصوم لوگوں کا بڑے پیمانے پہ قتل ان کے نزدیک محض ایک خبر ہو۔

Comments

comments

Latest Comments