وہ لوگ بھی کیا لوگ تھے

آغا شورش کشمیری ایک دن بھٹو صاحب کے پاس گئے تو بھٹو مرحوم نے کہا: آکسفورڈ یونیورسٹی میں میری لڑکی اور لڑکا دونوں پڑھتے ہیں، آپ بھی اپنی لڑکی اور لڑکے کو بھیج دو، حکومت وظیفہ دے گی، شورش نے کہا کہ میں مشرقی طرز کا آدمی ہوں، مغربی تہذیب میں اولاد کو بھیج کر خراب نہیں کرنا چاہتا، تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ شادمان کالونی، لاہور میں دو پلاٹ پڑے ہیں ،تم کم ریٹ پر حکومت سے خرید لو اور ایک کو پیچ کر اپنا پلاٹ بنا لو تو شورش نے جواب دیا: جناب سر چھپانے کے لئے جگہ موجود ہے، میں کوٹھی نہیں بنانا چاہتا۔

شورش رحمة الله، اپنے گھر واپس آئے اور سارا قصہ اپنی بیٹی کو سنا دیا ،تو بیٹی نے کہا کہ: ابو بھٹو صاحب پلاٹ دے رہے تھے، لے لیتے، سرکاری زمین ہے ہم پیسے جمع کرا دیتے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ وہ کوئی اور لے جائے گا، بس ہمیں رعایت ہی مل جاتی، آپ نے ہمارے مستقبل کے ساتھ زیادتی کی ہے، تو جواب میں شورش رحمة الله نے فرمایا کہ: دنیا یہیں رہ جائے گی، میں بھٹو مرحوم سے ایک ایسا تحفہ لیکر آیا ہوں جو قبر میں مجھے کام آئے گا بس یہ بات کہنی تھی۔ تحریک ختم نبوت کے اکابرین بھٹو مرحوم اور شورش رحمة الله کے درمیان کی گفتگو سے بالکل ہی لاعلم تھے۔ کچھ ہی دنوں بعد شورش رحمة الله بیمار ہوئے اور انتقال فرما گئے ،جنازے میں حضرت مفتی محمود صاحب رحمة الله، مولانا غلام غوث ہزاروی رحمة الله، مصطفیٰ کھر، کوثر نیازی ،معراج خالد ،حفیظ پیرزادہ و دیگر حضرات شریک ہوئے۔ ہزاروں کا اجتماع تھا، مجمع سارا حیران تھا کہ بھٹو مرحوم اور شورش رحمة الله کا کافی دوستانہ تعلق تھا پھر بھی جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔

ان کے انتقال کے دوسرے دن ہی بھٹو مرحوم چین چلے گئے۔ پانچ روزہ دورے کے بعد جب واپس آئے تو ایک رات پنڈی میں رہے، دوسرے دن لاہور آئے اور شورش رحمة الله کی قبر پر حاضری دی۔ فاتحہ خونی کی اور شورش رحمة الله کے گھر بھی تعزیت کے لئے گئے۔ بھٹو مرحوم نے تعزیت کے دوران کہا کہ جنرل عبد العلی اور جنرل ظفر چودھری قادیانی ہیں، شورش رحمة الله نے میرے پاس آ کر کہا: آپ میرے بچوں کو آکسفورڈ یونیورسٹی نہ بھیجوائیں اور پلاٹ بھی مجھےنہ دیں، بس ان دو قادیانیوں کو ہٹا دیں۔ یہی تحفہ میں آپ سے لینے آیا ہوں، تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ میں ہٹا دوں گا اور میں نے وعدہ کیا تھا۔

بغیر جنرلوں کے ہٹائے میں اگر اس جنازے میں آتا تو وعدہ خلافی ہوتی، میری آنکھ میں شرم تھی، میں کیسے جنازے شریک ہو سکتا تھا، دوسرے دن میرا چین کا سفر تھا اگر میں اس کو ہٹا کر جنازے میں آتا تو میری غیر حاضری میں شاید اندیشہ تھا کہ اتنی بڑی تبدیلی کے بعد ملک میں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے، تو میں اس لئے جنازہ میں نہیں آیا۔ چین چلا گیا، واپس آیا، آج ہی میں نے ان دونوں جنرلوں کو فارغ کر دیا ہے۔ شام پانچ بجے کی خبروں میں آ جائے گا، اب میں سرخرو ہو کر آپ حضرات کے پاس آیا ہوں۔-

۔منقول

کہانی پڑھ لی ، مزے کی تھی ناں

مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جب اموی و عباسی ملوکیت کے زیر اثر خیانتوں بارے لکھتا ہوں تو میرے یار دوست تپ جاتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے اب بہت سے ماننا شروع ہو گئے کہ پپو نے تاریخ یونہی لکھوائی تھی جیسے یہ کہانی گھڑی گئی ہے ۔یہ تحریر فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں میں اسلام کے خود ساختہ ترجمانوں اور جھوٹ کے علمبرداروں نے لاکھوں کی تعداد میں شئیر کی ۔ جمعے کے خطبوں میں بیان کیا ۔

اب آپ کا مزا خراب کرنے کے لیے چند سطور ملاحظہ ہوں ۔

شورش کاشمیری کی وفات اکتوبر 1975 ہوئی ، جنرل عبد العلی ملک 1974 میں سروس ختم ہونے پر ریٹائر ہوئے۔ ایئر مارشل ظفر چوہدری نے چیف ایئر سٹاف سے اپریل 1974 کو استعفی دے دیا۔ پتہ نہیں بھٹو صاحب شورش صاحب کی تعزیت پر کس کو برطرف کر رہے تھے۔ عقائد یا دیگر اختلافات کو قبول کرنے کی بجاے ان کی بنیاد پر نفرت اور جھوٹ کے بیج بونے سے تشدد اور عدم برداشت کی فصل جنم لیتی ہے

منقول

Comments

comments