پاکستان کی لبرل میڈیا اسٹیبلشمنٹ کی ضیاءالحق گردی – عامر حسینی
مبشر زیدی ڈان نیوز ٹی وی اور روزنامہ ڈان سے وابستہ پاکستان کے لبرل اشراف صحافیوں میں سے ایک ہیں۔
پہلا ٹوئٹ آیا کہ ان کو کسی کے مذھبی عقائد سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔مگر عمران خان کا مزار پہ سجدہ پریشان کن ہے۔۔۔۔۔۔
کسی نے سوال کیا کہ آپ خود اپنے ٹوئٹ میں متضاد بات کررہے ہیں جو افسوسناک ہے۔
مبشر زیدی صاحب جواب دیتے ہیں نہیں یہ متضاد بات نہیں ہے مذھب اور رسوم میں فرق ہوتا ہے۔
ایک اور ٹوئٹ میں اس سے بھی آگے ایک قدم اور بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں ‘مذھب اور جہالت’ میں فرق ہوتا ہے۔
سوال یہ جنم لیتا ہے کہ لبرل ازم اور سیکولر ازم کی وہ کون سی قسم ہے جو عقیدے کے نیچے رسوم و رواج اور شعائر کو کسی کا ذاتی معاملہ قرار نہ دینے کا کہتا ہے۔ اور آپ کو یہ حق دیتا کہ کہ کسی دوسرے کی مذھبی ثقافت کے کسی جزو کے جہالت ہونے کا فتوی جڑ دیا جائے؟
کل کو اگر کوئی لبرل یہ کہنے لگے کہ زوالجناح کے جلوس میں زوالجناح کے نیچے سے گزرنا ، اس کے اوپر پڑی چادر کو چومنا یا نجف اشرف جاکر حضرت علی کے مزار کی چوکھٹ پہ سر جھکانا جہالت ہے اور پریشان کن ہے تو یہ فرق کیسے کیا جائے گا کہ اس لبرل اور سپاہ صحابہ کے بانی مولوی حق نواز کے اس ایشو پہ موقف میں کون سی بات الگ ہے کہ ایک کو لبرل دوسرے کو فرقہ پرست اور نفرت انگیز تقریر کرنے والا سمجھا اور قرار دیاجائے؟
میں یہاں یہ بھی سوال کرتا ہوں کہ مبشر زیدی یہ بتائیں کہ طالبان ، لشکر جھنگوی ، اور دیگر عقیدے کی بنیاد پہ دہشت گردی پھیلانے والے کن لوگوں کے خیالات سے متاثر ہوکر مزارات، امام بارگاہوں، زوالجناح کے جلوس، تعزیہ، علم ، میلاد کے جلوسوں اور کرسمس و ہولی و دیوالی ، کمبھ میلہ، کشیمر میں شیراں والی دیوی یاترا پہ حملے کرتے ہیں؟ ان فرقہ پرست مولویوں کے کہنے پہ نا جو کہتے ہیں یہ مذکورہ بالا تمام رسوم اور شعائر مذھب نہیں جہالت ہیں۔
مبشر زیدی کو یقینی بات ہے سیکولر اور لبرل ہونے کی تعریف بتانے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جان بوجھ کر دوسروں کے مذھبی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے سیکولر اور لبرل اقدار کی بنیاد سے عقیدے کے ساتھ جڑے شعائر اور رسوم و رواج کو نکال باہر کرگئے ہیں۔
مبشر زیدی اور ان جیسے وہ سب لبرل جو مزارات پہ عوامی رسوم و رواج اور شعائر پہ کہیں
عقلیت پسندی کے ہتھیار سے تو کہیں ابن وہاب اور کہیں خود بریلوی اور دیوبندی مولویوں کے کند مذھبی ہھتیاروں سے حملہ آور ہوئے ہیں وہ بتاسکتے ہیں کہ وہ ذکری فرقہ کے ماننے والوں کی بلوچستان میں مقدس پہاڑ پہ بنی عبادت گاہ پہ ہونے والی جملہ رسومات بارے یا اسماعیلی برادری کے گنان بارے اور سب سے بڑھ کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے نامور ستاروں کے خواجہ غریب نواز کے مزار پہ جاکر ان کی چوکھٹ پہ سر رکھنے کی تصویروں اور وڈیوز پہ کبھی ایسے ‘جہالت’ کے فتوی ٹوئٹ دیتے نظر کیوں نہیں آئے؟
مبشر زیدی صاحب وہ مہان لبرل سیکولر ترقی پسند اور روشن خیال صحافی ہیں جنھوں نے لبیک یا رسول اللہ والے خادم رضوی اور اشرف جلالی جیسے ملا اور اس سے پہلے ایک ممتاز قادری کے سامنے آنے پہ یہ ماننے سے ہی انکار کرڈالا تھا کہ پاکستان میں صوفی سنی نام کی یا بریلوی مسلمانوں میں روادار مذھبی روایت کی کوئی پریکٹس موجود ہے۔کیونکہ ان کو شیعہ نسل کشی، صوفی مزارات پہ صوفی روایات سے جڑے مسلمانوں ، کلیسا اور احمدی عبادت گاہوں پہ ہونے والے حملوں میں مارے جانے والے کرسچن اور احمدیوں کی اموات کے پیچھے تکفیری دیوبندی عسکریت پسندی اور اس کی بنیاد تکفیری فاشزم کا انکار مقصود تھا تاکہ پاکستان میں شیعہ کے خون بہائے جانے کو شیعہ۔سنی لڑائی کی مساوات بناکر دکھائی جاسکے۔
اب یہ پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی صوفی ، سنت، سادھو، بدھسٹ اور دیگر باطنی اسرار سے جڑے فریم ورک کو جہالت کہنے پہ اصرار کررہے ہیں اور اسے پریشان کن معاملہ بتاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں:
بیڑا غرق ہو ضیاء الحق کا پاکستان کو سعودی بدو وھابیوں کی ریاست بنانے کی بنیاد رکھ گیا۔”
مبشر زیدی کے اس صریح ضیاء الحقی رویے پہ پاکستان کے بڑے بڑے لبرل اور سیکولر افراد نے لب سیے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے یہی نام نہاد لبرل نیوز ویک پاکستان میں سنی بریلوی کو ‘بریلوی درندے’ لکھ چکے اور کہیں سے کوئی شور نہیں اٹھا۔
میں بہت مشکل اپنے اعتدال مزاج صوفی سنی اور اہل تشیع مذھبی کمیونٹیز کے انتہائی پڑھے لکھے اور اپنی کمیونٹی پہ اثر انداز ہونے والے دانشوروں اور لکھاریوں کو منت سے اور دلائل پہ دلائل دیکر ہمیشہ سے یہ لکھنے سے روکتا ہوں کہ وہ ‘دیوبندی عسکریت پسندی’ ‘دیوبندی فرقہ وارانہ دہشت گردی’ جیسی اصطلاحیں استعمال نہیں کریں گے۔ جب کبھی وہ ایسا کرتے ہیں تو میں اس سے پیدا ہونے والے مغالطے کی طرف ان کی توجہ دلاتا ہوں وہ مانتے آئے ہیں میری بات۔ اور اپنے الفاظ میں ترمیم بھی کرتے ہیں۔
لیکن پاکستانی کمرشل لبرل مافیا ان لوگوں کو اکسانے اور مشتعل کرنے کا کوئی حربہ ترک ہی نہیں کررہا۔
یہ لوگ حقیقت میں سلفی اور دیوبندی مسلمانوں کے اندر تکفیری قوتوں سے کہیں زیادہ شدت اور کہیں زیادہ بڑے پیمانے پہ حملہ آور ہیں۔
یہ قومی اور بین الاقوامی مین سٹریم میڈیا کے لبرل سیکشن میں ہر جگہ قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستانی میڈیا کی بہت بڑی اسٹیبلشمنٹ ہیں اور ساتھ میں یہ بین الاقوامی میڈیا اسٹیبلشمنٹ کا بھی طاقتور حصہ ہیں۔ ان کی کمرشل لبرل میڈیا اسٹیبلشمنٹ مسلسل اس ملک کے عوام کی اکثریت کے مذھبی ثقافتی ورثے پہ حملہ آور ہے۔ یہ ان کے مذھبی رسوم و ثقافت کے معاملے میں لبرل اور سیکولر روایات کی دھجیاں تحریر، تقریر اور آج کل ٹوئٹ و فیس بک پوسٹ کے ذریعے سے اڑاتی ہے۔ اور اس پہ شرمندہ ہونے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھاتی ہے۔
اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی اور بے خوفی کی وجہ کیا ہے؟
کیا واقعی اس کا سبب ان کا بے باک اور نڈر لبرل ہونا ہے؟
کیا یہ اتنے نڈر اور بے خوف لدھیانوی و فاروقی و خالد خراسانی کے بارے میں ہوتے ہیں؟
جواب ملے گا نہیں کیونکہ جو شیعہ نسل کشی سمیت اس ملک کی ہر ایک کمیونٹی پہ خود کش بمباروں اور ٹارگٹ کلرز کے ذریعے سے حملہ آور ہوئے ان کو تو یہ مین سٹریم میڈیا میں لبرل اور سفیر امن ملا بناکر پیش کرتے رہے ہیں۔ان سے تو یہ بناکر رکھتے ہیں۔کیونکہ ابتک امریکہ کو سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں اور اس کے عسکری ونگ بین الاقوامی سطح پہ یا پاکستان و افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے بڑا خطرہ کبھی نہیں لگے۔اقوام متحدہ میں بھی کبھی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس جیسی تنظیموں کو بین الاقوامی دہشت گردوں کی لسٹ میں نہیں ڈالا۔تو بین الاقوامی سطح پہ ڈونرز کے ہاں اس میں کوئی کشش نہیں ہے تو یہاں ان کی طرف دیکھ کر موقف بنانے والوں کے ہاں بھی کوئی کشش نہیں ہے۔
ان مذکورہ بالا وجوہات کے سبب ہم کہتے اور لکھتے ہیں کہ ان کا لبرل ازم اور سیکولرازم ڈھونگ اور کمرشل ہے اور کچھ نہیں۔
نوٹ: ایک ٹوئٹ کو لائک کیا ہے گل بخاری نے جس میں ‘سجدے’ کی بحث ہے۔بجائے اس کی مذمت کرنے کے اسے لائک کیا گیا ہے۔یہ ریکارڈ میں رکھ لیں۔ کل کو انہوں مکر جانا ہے۔ یہ پاکستان کی وہ لبرل شہری اربن چیٹرنگ کلاس ہے جو ہولی اور کرسمس پہ شرکت کرکے رواداری رواداری کھیلے گی لیکن مزاروں پہ کسی کے جھک جانے کے خلاف ٹوئٹ کو تلوار بناکر سونت لے گی۔