’علاقے کی معیشت بابا فرید کے دربار سے جڑی ہے‘

پاکستان میں کئی لوگوں کے لیے مزاروں کی مذہبی اہمیت ہے لیکن ملک کے کئی شہروں، قصبوں اور دیہات میں یہ مزار وہاں کی معیشت، سیاست اور ثقافت سے بھی منسلک ہیں۔ تین قسطوں پر مشتمل اِس سیریز میں بی بی سی نے اِن مزاروں کے مختلف پہلوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ پہلی قسط میں نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ پہنچے پاکپتن جو 13ویں صدی کے صوفی بابا فرید شکر گنج کا مسکن ہے اور اِس شہر کی معیشت کا ایک بڑا حصہ بابا فرید کے مزار کا مرہونِ منت ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں صدیوں پر محیط کئی صوفی سلسلوں کا ظہور اور قیام ہوا۔ ان ہی میں ایک چشتیہ سلسلہ گزرا جس کے بانیوں میں 13ویں صدی کے صوفی بزرگ اور پنجابی کے مشہور شاعر بابا فرید گنج شکر بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی صوفیا کرام کی درگاہوں اور درباروں پر تبرک اور اس میں پھر ایک مخصوص قسم کی مٹھائی یعنی مکھانے کی روایت قدرے مشترک ہے۔

تاہم صوبہ پنجاب کے ضلع پاکپتن میں واقع بابا فرید کا دربار اس لحاظ سے منفرد ہے۔ یہاں مکھانوں سے زیادہ گُڑ کی شکر چلتی ہے، جو بابا فرید کے اعزازی نام گنج شکر سے نسبت رکھتی ہے۔

12ویں صدی کے آخر میں ملتان کے قریب واقع ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے فرید الدین مسعود کو گنجِ شکر کیوں اور کیسے کہا جانے لگا، اس حوالے سے کم از کم تین روایتیں عام ہیں۔ تاہم ان سے منصوب شکر کی اہمیت سات سو سال گزرنے کے بعد بھی اسی طرح قائم ہے۔

یہاں آنے والے زائرین کے لیے یہ شکر تبرک ہے جو وہ ساتھ لے کر جاتے ہیں، اس کے بیچنے والوں کے لیے کاروبار کا ذریعہ اور مجموعی طور پر علاقے کی معاشی زندگی کا ایک اہم جز، جو کہ بابا فرید کے دربار سے جڑا ہے۔

پاکپتن دربار کے منتظم بابر سلطان گوندل کے مطابق صرف ماہِ محرم میں بابا فرید کے عرس کے موقع پر چند روز کے دوران تقریباٌ 20 لاکھ افراد ان کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔

سال بھر میں یہ تعداد کتنی ہو گی؟ بابر گوندل کہتے ہیں کپ ’یہ کہیں لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔ بابا جی کے چاہنے والے ملک کے باہر سے بھی آتے ہیں۔‘

زائرین کئی روز تک پاکپتن میں قیام کرتے ہیں۔ اس دوران وہ سفر، کھانے پینے، رہائش، نذرانوں اور خیرات کی مد میں پیسہ خرچ کرتے ہیں۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے بابر گوندل نے بتایا کہ اس کاروباری سرگرمی میں ’آپ کروڑوں روپے کے لین دین کی بات کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ایک شخص اوسطاً ایک ہزار روپیہ بھی خرچ کرے تو آپ خود سوچ لیں کہ بات کہاں تک جاتی ہے۔‘

محکمہ اوقاف جو کہ ملک بھر میں درباروں اور درگاہوں کا منتظم ہے، نے ان کے اندازے کے مطابق گذشتہ گیارہ ماہ کے دوران پاکپتن دربار پر نصب صرف نذرانے کے ڈبوں میں سے آٹھ کروڑ روپے جمع کیے ہیں۔

داتا گنج بخش لاہور کے دربار کی یہی سالانہ آمدن تقریباٌ 26 کروڑ روپے ہے۔ اسی طرح ہر ملک کے دیگر علاقوں میں واقع بڑے درباروں کی آمدن بھی کروڑوں میں ہے جو محکمہ اوقاف کے پاس جاتی ہے۔

یہی نہیں، صوفیائے کرام کے یہ دربار جن جن علاقوں میں موجود ہیں ان کی معیشت کو چلاتے ہیں۔ پاکپتن بھی پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح ایک زرعی شہر تھا لیکن بابر گوندل کہتے ہیں کہ ’اگر بابا جی کے دربار کو نکال دیں تو شہر سُکڑنا شروع ہو جائے گا، اب تو یہ مزید پھیل رہا ہے۔‘

عام تاثر یہ ہے کہ پاکپتن کی معیشت بابا فرید گنج شکر کے مزار سے جڑی ہے اور اس شہر کی کاروباری سرگرمیوں میں شکر کے لین دین کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور آج بھی ہے، قدرتی طور پر اپنے ساتھ دیگر کئی کاروبار لے کر آیا۔

یہی وجہ ہے کہ ذرا اونچائی کی جانب ایک ٹیلے پر واقع دربار کے چاروں اطراف پھیلے بازاروں میں شکر، لنگر اور تبرکات کی دکانیں زیادہ ملیں گی۔ مزار کی مشرقی سمت میں واقع دروازہ مرکزی اور بڑے بازار میں کھلتا ہے۔

یہ بازار مزید ایک دو شاخہ بازار میں تقسیم ہو جاتا ہے جس میں دور تک دکانیں، گاڑیاں کھڑی کرنے کے مخصوص احاطے، ہوٹل اور ریستوران اور روزمرہ ضروریات کی دیگر اشیا کی دوکانیں ہیں۔

اسی بازار میں محبت علی کی تین دکانیں ہیں جہاں وہ دو نسلوں سے تبرکات بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کا خاندان پاکپتن کے باہر سے آ کر یہاں آباد ہوا۔ ان کے والد سنہ 1965 میں فوج سے ریٹائر ہوئے اور پاکپتن کا رخ کیا۔

’والد صاحب نے یہاں مکھانوں کی ایک دوکان ڈالی تھی۔ اس میں ہمیں کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔ اب اللہ کا شکر ہے میں کاروبار کو سنبھال رہا ہوں اور اب میری تین دوکانیں اسی بازار میں ہیں۔‘

محبت علی تاہم اکیلے شخص نہیں جنہیں تجارت پاکپتن کی طرف کھینچ لائی۔ صوفی برکت علی کا خاندان انڈیا سے ہجرت کر کے سنہ 1947 میں پاکستان آیا اور سنہ 1970 میں پاکپتن۔ یہاں دربار کے قدیمی شمالی طرف کے دروازے کی جانب کھلنے والی گلی کے بازار میں ان کے والد نے عطر کا کاروبار شروع کیا۔

’اللہ نے روزی دی ہے۔ ہم ہمیشہ سے عطر کا کام کر رہے ہیں۔ اب میرے بیٹوں نے دوکان کو پھیلا بھی لیا ہے اور ساتھ دوسرا کاروبار بھی شروع کر دیا ہے۔‘

اس گلی میں سنہ 2010 میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں کئی افراد جان سے گئے تھے۔ تاہم صوفی برکت کہتے ہیں اس کی وجہ سے کاروبار پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑا اور ’اب پہلے سے زیادہ لوگ دربار پر آتے ہیں۔‘

اسی دروازے سے دربار کے احاطے میں داخل ہوں تو سامنے دائیں جانب بابا فرید کا مزار کا ایک چھوٹے سے حجرے میں ہے۔ اس کے اندرونی جانب جو دروازہ ہے اس کو بہشتی دروازہ بھی کہتے ہیں۔

یہ دروازہ صرف ان کے عرس کے دنوں میں غروبِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک کھلتا ہے اور اس میں سے گزرنے کے لیے لاکھوں زائرین رات بھر قطاروں میں لگے رہتے ہیں۔

بابا فرید کے مزار کا سنگِ مرمر کے پتھر سے بنا وسیع صحن ہے جس میں ایک جانب ان کے پوتے موج دریا کا دربار ہے اور دوسری جانب ایک شاندار مسجد تعمیر کی گئی ہے۔

شام ڈھلے مقامی قوال سُر چھیڑتے ہیں جبکہ ایک جانب واقع لنگر خانے سے تقسیم کیے جانے والے لنگر کا سلسلہ سارا دن جاری رہتا ہے۔ لنگر کا ایک حصہ محکمہ اوقاف تیار کرتا ہے جبکہ بڑا حصہ مخیر افراد کی جانب سے آتا ہے۔

سنہ 2010 کے دھماکے کے بعد مشرق کی جانب دربار کا مرکزی وسیع و عریض دروازہ بنایا گیا تھا۔ یہاں سکیورٹی سے گزرنے کے بعد آپ کو ایک سٹینڈ پر 10 روپے کے عوض اپنے جوتے جمع کروانے ہوتے ہیں۔

مرکزی دروازے کے باہر پاکپتن کے باسی خورشید ملک کی دیگیں تیار کرنے کی دکان ہے۔ لوگ ان سے دیگیں خرید کر مفت تقسیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں عرس کے دنوں میں کاروباری سرگرمی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔

ان دنوں یہاں ہوٹل کم پڑ جاتے ہیں۔ ’لوگ اپنے گھر کرائے پر دیتے ہیں۔ چھ سے سات دن کے لیے آپ کو تین ہزار روپے میں ایک کمرے کا مکان مل جاتا ہے۔ تین سے زیادہ کمروں کا بھی تقریباٌ دس ہزار میں مل جائے گا۔‘

ان کے ساتھ والی شکر کی دکانوں پر تاہم سارا سال بھیڑ رہتی ہے۔ کہتے ہیں جب وہ چھوٹے تھے تو بابا فرید کو نماز پر مائل کرنے کی لیے ان کی والدہ ان کی جائے نماز کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں۔

وہ تھوڑے بڑے ہوئے تو ان کی والدہ نے یہ عمل ترک کر دیا، بابا فرید کو شکر کی پڑیا پھر بھی ملتی رہی۔ وہاں سے ان کا نام شکر گنج مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ دو روایات اور بھی اس سے منسلک ہیں تاہم اس روایت کو مستند مانا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تقریبا ہر زائر کے لیے پاکپتن کے دربار سے لوٹتے ہوئے تبرک کے طور پر شکر لے کر جانا تقریبا لازمی ہے۔

Source:

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44434746

Comments

comments