اداریہ تعمیر پاکستان: امتیاز اور فرق پہ مبنی سیاپا فروشی بند ہونے تک چرن جیت سنگھ قتل ہوتے رہیں گے

ملک بھر میں مذہبی ہم آہنگی اور امن و آشتی کے لیے کام کرنے والے بزرگ سردار چرن جیت سنگھ کو آج پشاور میں اسکیم موڑ کے نزدیک ‘نامعلوم’ حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

سردار چرن جیت سنگھ نہ صرف اپنی سکھ برادری کے اندر اعتدال پسندی اور بابا گرو نانک کے فلسفہ صلح کل اور سب کے لیے امن و شانتی کی علامت تھے بلکہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں بھی صلح کل اور امن و آتشی کے ایک انتھک علمبردار کے طور جانے پہچانے جاتے تھے۔

سردار چرن جیت سنگھ کا قتل یقینی بات ہے ان قوتوں نے ہی کیا ہے جو پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔جو مذہبی شناختوں کی بنیاد پہ اس ملک میں خانہ جنگی ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں۔

اس قتل نے ایک مرتبہ پھر ہمیں یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ ملک کے اندر ایسی قوتیں موجود ہیں جو ‘نفرت’ کے پیغام کو اب بھی عام کرنے میں مصروف ہیں۔اور ہماری ریاست کے ذمہ دار ادارے ایسی قوتوں کی سرکوبی کرنے کی بجائے ان سے سودے بازی کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔

ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستانی حکام کیسے منافرت پہ مبنی پروپیگنڈا کرنے والے ٹی وی چینلز، ویب ٹی وی، ویب پیچز کے جاری رہنے پہ خاموش ہیں؟

عامر لیاقت حسین بول ٹی وی پہ اگر ایک پروگرام کے دوران متنازع گفتگو کرے تو اس کے خلاف جس شدت اور جس زور و شور سے ردعمل دیا جاتا ہے۔

مولوی خادم رضوی ٹائپ کے شدت پسندوں کے خلاف بھی بہت زور و شور سے مہم چلتی ہے۔

اور ہم کہتے ہیں ایسی منافرت انگیز تحریر و تقریر پہ پابندی کا مطالبہ بالکل درست اور ان کے خلاف ریاست کو ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جو لبرل اور نام نہاد اعتدال پسند بعض مذہبی حلقے عامر لیاقت حسین اور خادم رضوی ٹائپ شدت پسندوں پہ گرجتے برستے ہیں وہ ان سے کہیں درجے خون خوار اور نسل کش عناصر کو پروان چڑھانے والوں کے خلاف خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں۔

ہم اس موقعہ پہ ایک ٹیسٹ کیس اسی سوشل میڈیا کے زریعے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ایک ٹی وی چینل ‘میسج ٹی وی ‘ کے نام سے لانچ ہوا ہے۔اس چینل کے یو ٹیوب پہ بنے اکاؤنٹ پہ آپ وزٹ کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس ٹی وی چینل کے زریعے کس طرح سے جامعہ فاروقیہ کے سابق استاد اور اب بلوچستان میں اپنا مدرسہ چلانے والے تکفیری دیوبندی مولوی منظور مینگل کی منافرت آمیز تقریروں کو فروغ دیا جارہا ہے۔

مولوی منظور مینگل کی ایک ویڈیو تو پہلے وائرل ہوئی تھی جس میں اس نے قائداعظم کو جن الفاظ میں یاد کیا تھا اور اہل تشیع اور صوفی سنّی مسلمانوں کے خلاف جو باتیں کیں تھیں ان پہ بھی ہم نے نام نہاد لبرل اور روشن خیال اشراف اوراور کئی ایک نام نہاد اعتدال پسند مذہبی رہنماؤں کو خاموش پایا تھا جو عامر لیاقت حسین اور خادم رضوی پہ خوب گرجے بھی اور برسے بھی تھے۔یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی منافرت انگیز باتوں پہ بھی کبھی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔

https://www.youtube.com/channel/UCFknKx4DF0_AkEK3vQnlFcw

یہ میسج ٹی وی نفرت انگیز تقاریر کو بہت دھڑلے سے فروغ دے رہا ہے۔ بین المسالک ہم آہنگی کو بھی برباد کررہا ہے۔ مولوی منظور مینگل بلوچستان میں مدرسہ چلارہا ہے۔یہ اس طرح سے کھلے عام سب کچھ کررہا ہے جو کام کوئٹہ میں مولوی رمضان مینگل کررہا ہے۔ یہ طالبان اور سپاہ صحابہ جو دونوں کالعدم تنظیمیں ہیں سے اپنی کھلے عام وابستگی کا اعلان کرتا ہے۔ اور شیعہ اور صوفی سنّی مسلمانوں، کرسچن اور ہندؤں، سکھوں کے خلاف اپنی نفرت کا برملا اظہار کرتا ہے۔ اور اس سب کے باوجود اسے تحریر و تقریر کی،مدرسے چلانے کی کھلے عام اجازت ہے۔ اور یہ بلوچستان جیسے صوبے میں منافرت انگیزی کو عام کیے ہوئے ہے۔

کیا حکومت اور انتظامیہ کو یہ سب نظر نہیں آتا؟ کوئی چھوٹی بڑی عدالت ان کے خلاف سوموٹو نوٹس نہیں لیتی۔ پاکستان میں بڑے بڑے لبرل اشراف اور اتحاد بین المسلمین کے بڑے علمبردار بننے والے مذہبی رہنماء اس کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کرتے؟

کیا پاکستان میں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ‘نفرت انگیز تقریر ‘ صرف وہی قرار پائے گی جس کا اظہار خود کو کوئی شیعہ یا صوفی سنّی مسلمان کہلانے والا کسی دیوبندی یا کسی سلفی کے خلاف ظاہر کرے گا؟ کیا نفرت انگیز تقریر یا تحریر وہ کہلائے گی جس میں ذاکر نائيک یا کسی اور تکفیری دیوبندی/سلفی کی شیعہ یا صوفی سنّی مسلمانوں کے مروجہ عقائد یا شعائر کے خلاف انتہائی تضحیک آمیز خیالات کی مذمت کرتے ہوئے حد اعتدال سے تجاوز ہوگیا ہوگا؟

کیا پاکستان میں امن پسند یہ پوچھنے پہ کسی فرقہ پرستی کے مرتکب ہوتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیکچرز اور اس کا ٹی وی چینل جس طرح سے صوفی سنّی مسلمان اور اہل تشیع، ہندؤں ، کرسچن اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں اس کے بعد بھی یہ کیبل پہ کیوں چل رہے ہیں؟

کیا اس ملک کی اکثریت کے مذہبی عقائد اور شعائر کے ماننے والے مسالک اور مذاہب کا احترام کیا جانا نہیں بنتا ہے؟ اگر احترام کرنا بنتا ہے تو پورے ملک میں اینٹی شیعہ اور اینٹی صوفی سنّی کمپئن چلانے والی کالعدم تنظیمیں اور ان کے مدارس اور ان کا سوشل میڈیا نیٹ ورک کیوں کام کررہا ہے؟ اور اس بارے ان بڑے بڑے مہان لبرل اور مہان اعتدال پسند مذہبی رہنماؤں اور دانش کے گروگھنٹالوں کی آوازیں خاموش کیوں ہیں؟

سردار چرن جیت سنگھ ، سید خرم ذکی،ڈاکٹر سرفراز نعیمی ، استاد سبط جعفر اور اور ایک اندازے کے مطابق 22 ہزار سے زائد شیعہ اور 45 ہزار صوفی سنّی مسلمان اور کل 75 ہزار پاکستانی اسی تکفیری اور منافرت کی تبلیغ و ترویج کی نذر ہوگئے ہیں جس کی پیداوار کرنے والی فیکڑیاں آج بھی سرعام بنا کسی روک ٹوک کے کام کررہی ہیں۔

ہمارا سوال یہی ہے کہ نفرت انگیز تقریر و تحریر کی ان فیکڑیوں کو بنا کسی امتیاز اور بنا کسی فرق کے کب بند کیا جائے گا؟ اور پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ اشراف لبرل اور مذہبی اعتدال کی علمبردار اشرافیہ کب امتیاز اور فرق پہ مبنی سیاپا فروشی بند کرے گی۔

Comments

comments