قندوز مدرسہ پہ حملہ اور ہمارا موقف – عامر حسینی
افغانستان کا صوبہ قندوز اور ڈسٹرکٹ دشت آرچی کا ایک گاؤں جہاں پہ ایک مدرسہ میں سالانہ جلسہ تقسیم دستار فضیلت و اسناد درمیان حفاظ کرام کا انعقاد ہورہا تھا۔قندوز کے اس ڈسڑکٹ کا اکثر علاقہ تحریک طالبان اقغانستان کے کنٹرول میں ہے اور یہ مدرسہ بھی ان کے زیرکنٹرول علاقہ میں ہے۔اسی لیے اس علاقہ پہ امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت نے اس جلسہ کے دوران یہ اطلاع ملنے پہ کہ وہاں پہ افغان طالبان کے اہم کمانڈر بھی موجود ہیں فضائی حملہ کیا ناکہ زمینی حملہ اور اس حملے میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ان ہلاک ہونے والوں میں لامحالہ زیادہ تعداد اس مدرسہ کے طالب علموں اور کم عمر حفاظ کرام کی ہے۔لیکن یہ پتا نہیں ہے کہ کتنے سویلین تھے اور کتنے طالبان کمانڈر تھے۔
اس حملے کے فوری بعد سوشل میڈیا پہ ایک بحث شروع ہوگئی۔ اس بحث کا ایک مرحلہ تو وہ تھا جب سوشل میڈیا پہ دشت آرچی میں مدرسہ پہ ہوئے حملہ امریکی ڈرون حملہ بتایا گیا اور ساتھ میں افغان طالبان کے وہاں ہونے کا ذکر سرے سے غائب کردیا گیا۔بعد میں یہ خبر جھوٹ نکلی اور پتا یہ چلا کہ یہ حملہ افغان فضائیہ نے کیا تھا۔
امریکی ڈرونز کی خبر چلانے والے شاید اس کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں جو طالبان کے افغانستان پہ پاکستانی اور مڈل ایسٹ و ترکی کی مبینہ اشیر باد سے قبضہ کو ٹھیک خیال کرتا ہے۔ جن کی ہمدردیاں تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ ہیں۔اور ان کا خیال شاید یہ تھا کہ اس طرح سے مذمت زیادہ ہوگی۔اور مذمت واقعی ہوئی بھی۔
لیکن سویلین ہلاکتوں پہ افغان حکومت کی مذمت کرنے کا کیا یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان کو معصوم،پوتر مان لیا جائے اور ان کو ایک امن پسند،ایسی گوریلا فورس مان لیا جائے جو سویلین کو نشانہ نہیں بناتی؟ جو بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پہ حملے نہیں کرتی؟ جو دیوبندی سنّی طالبان نواز عناصر کو چھوڑ کر دیگر دیوبندی پشتون، دری اور ایسے ہی ہزارہ شیعہ ،تاجک ودیگر نسلی گروہوں کو نشانہ نہیں بناتی؟یقینی بات ہے کہ تحریک طالبان افغانستان کا ٹریک ریکارڈ اس معاملے میں انتہائی گھناؤنا رہا ہے۔ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ تحریک طالبان افغانستان وہاں پہ اپنے سے ٹوٹ کر الگ ہونے اور خود کو داعش کہلوانے والے گروپ کی سفاکی اور بربریت سے قدرے کم سفاکیت اور بربریت کی حامل ہے مگر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ سفاکیت و بربریت، نسل پرستی اور فرقہ پرستی سے ماوراء ہے۔
لیکن جیسے ہی پتا چلا کہ یہ حملہ ایک تو افغان فضائیہ نے کیا ہے،دوسرا وہاں پہ طالبان کمانڈر بھی موجود تھے تو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کا ایک اور کیمپ جوابی وار کے لیے تیار ہوگیا۔
یہ کیمپ کئی طرح کے خیالات کا مالک ہے۔ایک غالب خیال تو ایسے ایکٹوسٹوں کے کیمپ کا ہے جو امریکی سامراج کی افغانستان میں مداخلت اور فوجی طاقت کے زریعے سے ایک بھرپور جنگ کے زریعے سے طالبان کی حکومت کے خاتمے اور اس کے بعد اپنی ایک کٹھ پتلی حکومت لاکر بٹھانے کو ٹھیک خیال کرتا ہے۔اس کیمپ کے لوگوں نے نائن الیون کے بعد 2000ء میں افغانستان پہ امریکی سامراج کے حملے اور افغانستان بارے امریکی منصوبے کو افغانستان کو ایک سیکولر،روشن خیال ترقی پسند ریاست بنادینے والا منصوبہ قرار دیا۔اس کیمپ میں پاکستان کے اکثر لبرل اور این جی اوز سے منسلک ایکٹوسٹ شامل ہیں اور اسی کیمپ میں ایسے بلوچ،پشتون،سندھی، پنجابی اور سرائیکی قوم پرست بھی شامل ہیں جو یہ سمجھتے تھے اور ہمیں سمجھاتے تھے کہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں سامراج کی آمد 80ء کی دہائی میں سامراجیوں کے پھیلائے گند کا صفایا کردے گی۔
اس اپنے تئیں ترقی پسند، روشن خیال اور لبرل کیمپ نے یہ کہنا شروع کردیا کہ افغان دینی مدرسہ کے طالب علموں کو ‘انسانی شیلڈ’ کے طور پہ استعمال کررہے تھے اور اسی لیے فضائیہ حملے میں وہ مارے گئے۔دشت آرچی کے مدرسے پہ افغان فضائیہ نے جو بمباری کی، ایک تو وہ کسی پیشگی وارننگ کے بغیر تھی،دوسرا وہ ایک ایسے مقام پہ بمباری تھی جہاں بہت سارے سویلین موجود تھے۔یہ جلسہ تقسیم اسناد کا تھا اور یہاں سے اس وقت تحریک طالبان اپنا کوئی آپریشن لانچ نہیں کررہی تھی۔یہ علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور طالبان ہوں یا افغان سیکورٹی یا امریکی سیکورٹی ہو یہ جس جگہ کنٹرول کرلیں تو وہاں کی اکثر سویلین آبادی کے پاس سوائے ‘سر تسلیم خم’ کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ایسے میں ایک مدرسہ یا ایک بازار میں افغان طالبان کو آپریٹ کرنے سے کون روک سکتا ہے؟اس لیے غلط طور پہ یہ ظاہر کرنا کہ مدرسہ میں پڑھنے والے حفاظ اور جلسے کے دیگر سویلین شرکاء اس لیے مارے گئے کہ طالبان ان کو ہیومن شیلڈ کے طور پہ استعمال کررہے تھے۔ایک گمراہ کن، متعصب بات ہے۔
درست بات یہ ہے کہ افغان حکومت کے حکم پہ افغان فضائیہ نے مدرسہ پہ جو بمباری کی،وہ جنگی جرم میں شامل ہے۔اور اس جرم کے ذمہ داروں پہ عالمی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئیے۔
افغانستان میں اس وقت حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف تو افغانستان کے کئی ایک صوبوں، علاقوں، اضلاع اور خاص طور پہ جنوبی افغانستان کے اکثر وبیشتر علاقوں پہ تحریک طالبان افغانستان کا کنٹرول ہے۔اور پھر تحریک طالبان افغانستان کو پشتون علاقوں کی اکثریت میں مڈل ایسٹ اور پاکستان کے اندر 80ء کی دہائی سے ہونے والی مداخلت نے جڑیں عوام کی پرتوں میں بنانے کا موقعہ فراہم کیا ہوا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ پشتون پرتوں میں طالبان کی جنگجوئی اور اپنے سوا کسی اور کو طاقت ور فریق نہ ماننے کے سبب افغان جہاد کے کئی کمانڈر اور کئی گروپ بھی افغان طالبان مخالف کیمپ میں ہیں۔ربانی مرحوم کا گروپ ہو یا پھر مجددی کا گروپ ہو یا حال ہی میں افغان حکومت سے دوستی کرنے والے حکمت یار کا گروپ ہو۔
تحریک طالبان افغانستان کے خلاف شمالی افغانستان کے سب ہی قابل ذکر مذہبی و نسلی گروپ ہیں چاہے وہ افغانستان میں امریکی جہاد برخلاف روس میں امریکہ کے ساتھ یا چین کے ساتھ تھے یا ایران کے ساتھ تھے۔اور یہی وجہ ہے افغان طالبان جو پشتون ہیں ان کی نسل پرستی اور ساتھ ساتھ ان کی دیوبندیت بھی شمالی افغانستان کے نسلی و مذہبی شناخت کو مٹانے کے درپے رہتی ہے۔تحریک طالبان افغانستان نہ تو سابق افغان جہادیوں سے نرمی برتتی ہے اور نہ ہی وہ افغانستان کے دری اور شمالی افغانستان کی غیر پختون زبانیں بولنے والوں کو رعایت دیتے ہیں۔یہاں تک کہ تحریک طالبان افغانستان پشتو بولنے والے سیکولر، لبرل، ڈیموکریٹس اور کمیونسٹ حلقوں کو بھی رعایت نہیں دیتے اور جب جب موقعہ ملا ہے ان کو مارڈالنے میں دیر نہیں کرتے چاہے یہ سیکولر،لبرل، لیفٹ حلقے افغان حکومت اور امریکی کیمپ کے ساتھ ہو یا نہ ہوں۔
افغانستان میں تحریک طالبان ایک جہادی،ماڈریٹ ( ماڈریٹ ان معنوں میں یہ داعش سے کم ظالم ہیں) تکفیری بنیاد پرست قوت ہیں اور ان کو مبینہ طور پہ پاکستان،قطر،یو اے ای، سعودی عرب،کویت ، بحرین کی تو یقینی سپورٹ ہے جبکہ آج کل ان کو روس، چین کی سپورٹ حاصل ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔
اور ان کے مقابلے میں کابل پہ حکومت کرنے والے اکثر رہنماء امریکہ،بھارت،برطانیہ،جرمنی،فرانس،سعودی عرب، ترکی،ایران پہ انحصار کرتے ہیں۔ کابل،دہلی اور واشنگٹن کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کی جانب سے داعش، تحریک طالبان پاکستان کے کئی دھڑوں، لشکر جھنگوی کے کئی گروپوں کی مدد بھی کی جارہی ہے تاکہ یہ پاکستان کو تحریک طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک کی مبینہ مدد کرنے پہ سبق سکھائيں۔
انسانی حقوق کی پامالی کا سوال ہو ، بچوں، عورتوں ، بوڑھوں، سویلین اور پھر اسکول، کالج ، ہسپتال ، بازار پہ ہوئے حملوں کا سوال ہو تو اس طرح کے جرائم میں افغانستان کے اندر برسر پیکار سبھی فریق ملوث پائے جاتے ہیں۔افغانستان کے اندر مکمل طور پہ خانہ جنگی جاری ہے جس میں پراکسی وار، جیو پالیکٹس، مذہبی فرقہ پرستی، نسل پرستی جیسے عوامل شامل ہیں۔اور افغانستان میں امن کا صرف ایک ہی راستا ہے اور وہ ہے جتنے بھی افغانستان میں اس وقت فریق ہیں وہ سب تشدد کا راستا ترک کردیں، جنگ کی ہر قیمت میں مخالفت کریں اور افغانستان کو کثیر النسلی و کثیر المذہبی ملک اور سماج تسلیم کرتے ہوئے ایسا معاہدہ عمرانی کریں جو سب نسلی و مذہبی گروہوں کو قبال قبول ہو۔
افغانستان سے صرف امریکی سامراج کے نکل جانے کا مطالبہ ہی واحد مطالبہ نہیں ہے جو امن کی طرف لیکر جاتا ہے بلکہ افغانستان میں مڈل ایسٹ سمیت دیکر ہمسایہ ممالک اور عالمی جہادی تکفیری نیٹ ورک کی مداخلت کے فوری طور پہ بند ہونے کا مطالبہ بھی اہم ترین ہے،جس سے تحریک طالبان افغانستان راہ فرار اختیار کرتی ہے۔تحریک طالبان افغانستان کا یہ دعوی جھوٹ ہے کہ وہ خالص افغان دینی مدارس کے طلباء کی کھڑی ہونے والی مقامی افغان تحریک ہے۔اس تحریک کا دیوبندی تشخص، اس کا اینٹی شیعہ اور صوفی سنّی مخالف رویہ ، اس کا ہزارہ اور غیر پشتون نسلی گروہوں کی جانب معاندانہ رویہ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی فیصلہ سازی پہ اثر انداز ہونے والے بیرونی عناصر بھی افغانستان میں امن کے قیام میں روکاوٹ اور عالمی سامراجی قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کے لیے حمایتی، ایجنٹ اور مددگار فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان میں کسی حد تک معروضی تجزیہ کرنے کے لیے مذکورہ بالا حقائق کو ذہن میں رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔تب ہی ہم کسی حد تا مبنی برحق پوزیشن لینے کے قابل ہوسکتے ہی